جنوبی محاذ پر ہونے والے آپریشنز اور سردار عروج کا

مربیوں کی بٹالین نے گتھیوں کو سلجھا دیا

ترتیب: سارا رشادی زادہ
مترجم: سید مبارک حسین زیدی

2016-8-18


عراق کی ایران کے خلاف آٹھ سالہ جنگ نے اس ملک کے بہت سے مردوں کو جنگی محاذ کا راستہ دکھایا۔  لیکن اس عرصے میں  کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے شروع سے لیکر  آخری لمحات تک جنگ میں شرکت کی اور اس جنگ کے ہر ہر لمحہ حتی کربلائے ۵ آپریشن تک میں اُن کا شمار ہوتا ہے۔ سردار خسرو عروج، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے چیف کے سینئر مشیر، جنہوں نے اپنے آبائی شہر میں  جنگ کو شروع ہوتے ہوئے دیکھا، انھوں نے آبادان محاصرے سے لیکر مرصاد آپریشن تک کے اپنے واقعات کے بارے میں ایران کی زبانی تاریخ کی سائٹ سے گفتگو کی ۔

 

اپنا تعارف کروائیے اور یہ بتائیں کہ پہلی دفعہ میدان جنگ میں وارد ہونے کا سبب کیا چیز بنی؟

میرا نام خسرو عروج ہے،  میں ۱۹۵۴ء میں آبادان شہر میں پیدا ہوا۔ اُنہی ابتدائی ایام سے جب آبادان میں جنگ شروع ہوئی، میں رضاکارانہ طورپر دفاع مقدس میں شریک ہوا اور نیز جنگ کے آخر تک محاذوں پر رہا۔ جنگ کے اُن ابتدائی میں لوگ دفاع مقدس میں رضاکارانہ طور پر  شامل ہو رہے تھے۔ ان میں کچھ لوگ منظم تھے اور کچھ لوگ غیر منظم۔ ہمارے ساتھ  بھی آبادان کے شہری ہونے اور ہمارے شہر میں جنگ ہونے کی وجہ سے  یہ معاملہ پیش آیا۔

 

آبادان کے اُن دنوں کے حالات اور محاصرہ کے بارے میں بتائیے؟

اُن دنوں میں بعض گھرانوں، اُن کی عورتوں اور بچوں کو دوسرے شہر بھیج دیا گیا تھا، لیکن بعض  گھرانے اپنے تمام افراد کے ساتھ  یہیں تھے اور اپنے شہر کا دفاع کر رہے تھے۔ ایسے میں آبادان کے امام جمعہ آیت اللہ جمی نے ہمیں منظم اور مینج (Manage)کیا۔ البتہ مجاہدین کی جمعیت پراکندہ تھی  اور بالکل صحیح تعداد کا اعلان نہیں کیا جاسکتا تھا،  لیکن ہمارے علاقے  جس کا نام احمد آباد تھا اُس میں تقریباً دوسو ، تین سو  مرد و خواتین مل کر شہر کیلئے دفاع کے موجود تھے۔

 

آپ کو آبادان میں پہلی دفعہ جنگ شروع ہونے کا کیسے پتہ چلا؟

بمباری ہونے کی وجہ سے ہمیں پتہ چلا کہ جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ البتہ اُس زمانے میں ہم فوجی نہیں تھے اور فطرتاً ہمیں جنگ کا کوئی تجربہ بھی نہیں تھا، لیکن اتنا پتہ تھا کہ کم جمعیت والے شہر پر اس طرح کا حملہ کوئی نارمل بات نہیں ، حتماً کچھ ہونے والا ہے۔ ساتھ ہی ہمارے محلے کا ایک شخص بھمنشیر کی نہر سے ٹینکوں کے عبور کرنے کی خبر  لے آیا اور تقریباً پورے شہر پر عراقیوں کا محاصرہ ہونے جا رہا تھا کہ مجاہدین  تک یہ خبر پہنچی اور ہم نے اُسی وقت شہر میں مورچہ بندی کا کام شروع کردیا۔

 

آپ لوگ جن کا تعلق فوج سے نہیں تھا، اپنے لئے اسلحہ کہاں سے مہیا کرتےتھے؟

ہم اپنے لئے اسلحہ ان جگہوں سے مہیا کرتے  جیسے آبادان کی بحری فورسز، ملٹری پولیس وغیرہ، لیکن پھر بھی اسلحہ کم پڑتا تھا، اس طرح سے کہ دس سے بارہ افراد کیلئے صرف دو یا تین اسلحے ہوتے۔

 

کیا شہر آبادان کے دفاع کیلئے خواتین بھی آپ کے شانہ بشانہ تھیں؟

جی ہاں، بعض خواتین جو ہمارے ساتھیوں کی بہنیں یا بیویاں تھیں، ہمارے ساتھ تھیں اور زخمی افراد کی مدد کیلئے آگے آگے رہتیں یا کھانے پکانے کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لیتیں، لیکن خود مجھے یاد نہیں کہ میں نے کسی خاتون کے ہاتھ میں اسلحہ دیکھاہو۔

 

مجاہدین کی فورسز منظم ہونے کے بعد آپ کو کس گروپ  میں بھیجا گیا؟

آبادان کا محاصرہ ختم ہوجانے کے بعد سویلین ملٹری بتدریج منظم  ہوگئی اور سپاہ اور بسیج وارد عمل ہوئی  اور میں بھی سپاہ میں چلا گیا۔

 

منظم ہونے کے بعد جو پہلا آپریشن انجام دیا گیا اُس کا نام کیا تھا؟

سپاہ کی تشکیل اور ہمارے سپاہ میں چلے جانے کے بعد، سرپل ذھاب میں جنگ کا آغاز ہوا  اور ہم امام حسین (ع) چھاؤنی سے سر پل ذھاب کی طرف بٹالین کی صورت میں گئے، چند مہینے تک وہیں رہے۔ اُس زمانے میں طے پایا تھا کہ طولانی مدت کا آپریشن انجام پائے اور اس آپریشن  کی شناخت ہمارے ذمہ تھی، لیکن اس آپریشن کے آغاز سے پہلے جنوبی محاذوں پر جنگ چھڑ گئی  اور کیونکہ فتح المبین اور بیت المقدس آپریشن کیلئے سپاہی تیاریوں میں مصروف تھے ہم جنوبی  محاذ کی طرف پلٹ آئے۔ اور اس کام کی وجہ یہ بھی تھی کہ چند تجربہ کار افراد کو مربی کے طور پر چنا گیا  جن میں ، میں بھی تھا کہ ہمیں آپریشنز میں بھی شرکت کرنی تھی۔ اسی وجہ سے  جنوبی محاذ پلٹنے کیلئے تیار ہوگئے۔ اُس زمانے میں مربیوں کی بٹالین چھوٹے چھوٹے گروپ کی شکل میں ہوتیں اور جہاں بھی  کوئی مشکل پیش آتی یعنی بٹالینز پھنس جاتیں، تو وہاں مربیوں کی بٹالین مددگار گروپ کے طور پر حاضر ہوتی اور ہم بھی انہیں مددگار بٹالین  کا حصہ تھے۔ البتہ ہمارے گروپ کو کسی بٹالین یا گروپ کا نام نہیں دیا گیا تھا، بلکہ ہمیں شہید داود کریمی نے آرگنائز کیا  تھا جو اُس وقت تہران میں سپاہ کے آفیسر تھے اور نازک لمحات میں بھی ہماری صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاتا۔ اسی بناء پر میں نے فتح المبین آپریشن  میں شرکت کی ،جو پہلا بڑاآپریشن تھا اور اُس کے بیت المقدس آپریشن میں بھی شریک ہوا۔

 

ان دو آپریشنز کے بعد آپ نے کونسے آپریشنز میں شرکت کی؟

میں نے اسپیشل فورس کے عنوان سے کربلائے ۴، کربلائے ۵ ، و الفجر ۸ اور مرصاد آپریشنز میں  شرکت کی۔

 

آپریشن کربلائے ۴ اور ۵ کے بارے میں ہمیں کچھ بتائیں

میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ ہم نے جنگ یا کسی آپریشن میں شکست کھائی ہو، بلکہ ہمیں روکا گیا تھا۔ کربلائے ۴ میں بھی ہمیں روکا گیا تھا۔ جب آپریشن متوقف کرنے کی خبر ہم تک پہنچی، اُس وقت رات کے ایک بج رہے تھے اور مجھے اپنی قیامگاہ میں اس خبر کا پتہ چلا۔ اگلے دن صبح امام خمینی ؒ کا پیغام ہم تک پہنچا، انھوں نے فرمایا تھا: سب بھائیوں کو میرا سلام  پہنچائیں اور اُن سے کہیں کہ کوئی  بھی علاقے سے باہر نہ جائے، کیونکہ صدام ابھی غرور میں مست ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک بڑے آپریشن کے بعد دوسرے آپریشن کیلئے تیار ہونے میں تقریباً ۶ مہینے کا عرصہ درکار ہوتا ہے، لیکن اُس دن صبح جب قیامگاہ میں امام خمینی ؒ کا پیغام پڑھا گیا، وہ پیغام اتنا فاتحانہ اور شاندار تھا کہ سب نے قبول کرلیا  اور اُس کے ۱۶ دن بعد کربلائے ۵ آپریشن شروع ہوگیا اور میرے عقیدے کے مطابق یہ آپریشن بھی ایک معجزہ تھا۔

 

کربلائے ۴ اور ۵ آپریشنز میں آپ کے  کمانڈر کون تھے؟

چونکہ ہم ڈائریکٹ سپاہ کی کمانڈ  میں کام کر رہے تھے، ہمارے کمانڈر جناب محسن رضایی تھے۔

 

آپ زیادہ تر جنوبی محاذ پر رہے یا مغربی محاذ پر؟

ہم جنوبی محاذ پر تھے، لیکن اوائل جنگ میں خاص طور سے طولانی آپریشن میں مغربی محاذ پر تھے اور جنگ کے آخری سالوں اور مرصاد آپریشن کے دوران پھر دوبارہ مغربی محاذ چلے گئے تھے۔

 

اُن دنوں کا کوئی واقعہ جو آپ کو یاد ہو ہمارے لئے بیان کریں؟

جنوبی محاذ اور خاص طور سے شلمچہ پر لشکر گارڈ صدام  کے حملہ کے بعد، ہم سپاہ کے دستے کی صورت میں علاقے  میں گئے تاکہ ان حالات کا سامنا کرسکیں۔ جب ہم جنوب پہنچے اور اھواز سے شلمچہ کی طرف جا رہے تھے، ہمیں وائرلیس پر کہا گیا کہ فوراً کرمانشاہ کی طرف پلٹیں۔ ہم فاو  پر دوبارہ قبضہ کیلئے آمادہ تھے اور ہمیں کچھ خبر بھی نہیں تھی کہ کیا ہوا ہے، لیکن تیزی سے کرمانشاہ کی طرف چلے اور مرصاد آپریشن سے پہلی والی رات کو چارزبر کے مورچے تک پہنچ گئے۔ وہاں پر انٹیلی جنس کے ساتھیوں نے مورچوں کے اس طرف کی خبر لانے میں بہت جدوجہد کی تھی اور مورچے کے اس پار کی خبر لانے میں کافی لوگ شہید بھی ہوگئے تھے ۔

 

آپ کو جنگ رکنے کی خبر کب ملی؟

جب جنگ رکنے کی خبر ہم تک پہنچی، میں تہران میں تھا اور حفاظتی سپاہ کی تشکیلات میں مسئول کی حیثیت رکھتا تھا۔ شروع میں تو کسی کو یقین نہیں آیا کہ جنگ ختم ہوگئی ہے لیکن جب امام ؒ کا پیغام آیا تو سب نے اُسے قبول کرلیا۔ البتہ تہران میں رہنے والے کچھ ساتھیوں کو اُس کی سن گن ہوگئی تھی اور ہم نے بھی کچھ باتیں سنی ہوئی تھیں، لیکن اس معاہدے کو قبول کیاجائیگا یا نہیں ، اس کی کوئی خبر نہیں تھی۔ 



 
صارفین کی تعداد: 5562


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔