سورج مغرب سے طلوع ہوا


2017-10-31


انقلاب اسلامی کی تیسری سالگرہ کے موقع پر سن ۱۹۷۸ میں، پیرس میں امام خمینی ؒ کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک جناب ڈاکٹر حسن حبیبی سے انٹرویو لیا گیا ، جسے ابھی آپ پڑھیں گے۔ یہ انٹرویو اس وقت کے ایک "اطلاعات" نامی اخبار نے ڈاکٹر حسن حبیبی سے لیا تھا جو امام خمینی ؒ کے نجف سے پیرس کی طرف ہجرت، پیرس میں ان کے داخل ہونے کے انداز، استقبال اور وہاں کی رہائش کے متعلق تھا۔ اور درحقیقت یہ انٹرویو تاریخ کے ایسے واقعات کی داستان ہے جو بہت کم سنی یا نقل کی گئی ہیں۔

آغاز میں ڈاکٹر حبیبی سے سوال کیا گیا کہ کون سے اسباب امام کی پیرس کی طرف ہجرت کا باعث بنے تو انھوں نے جواب میں کہا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اس سے پہلے میں اس تاریخی واقعہ – یعنی امام خمینی ؒ کی پیرس کی طرف ہجرت - کے بارے میں کچھ بتاؤں، یہ عرض کرتا چلوں کہ ہمیں اس واقعے کے ابتدائی اسباب  جاننے کے لئے تھوڑا ماضی کی طرف پلٹنا ہوگا ۔ ہجرت کے اس سفر سے پہلے عراق سے ملنے والی خبروں سے ہمیں پریشانی ہو رہی تھی۔ سننے میں آ رہا تھا کہ عراقی حکومت نے امام خمینی پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ وہ افراد جو حالات و واقعات سے تھوڑی بہت آگاہی رکھتے تھے وہ اس بات کو سمجھ چکے تھے کہ اب امام خمینی ؒ عراق میں مزید نہیں رک سکتے۔ اسی احتمال کے پیش نظر مختلف اذہان میں گونا گون افکارجنم لے رہے تھے اور طرح طرح کی آراء سامنے آرہی تھیں۔ اب سوال یہ تھا کہ اگر امام خمینی ؒ عراق سے نکلے تو کہاں جائیں گے؟ کیا لبنان جائیں گے؟ کیونکہ شیعوں کی فعالیت لبنان میں کافی زیادہ تھی اور اس خطے میں زمینہ بہت ہموار تھا۔ یا پھر مثلاً شام جائیں گے کیونکہ وہ بھی مسلمان ملک ہے یا پھر شمالی افریقا جانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

 

امام خمینی ؒ کے شام جانے کی افواہیں

عراق کی جانب سے پیدا کردہ مشکلات کی وجہ سے یورپ کے اسٹوڈنٹس نے اُس وقت کے عراقی صدر احمد حسن البکر کے نام بہت سے اعتراض آمیز ٹیلی گراف ارسال کئے؛ لیکن وہی ہوا جس کی پیشن گوئی کی جا رہی تھی یعنی ہمیں یہ خبر مل گئی کہ امام عراق سے نکل چکے ہیں اور شام جانے کیلئے کویت کی طرف عازم سفر ہیں۔ اس وقت میں پیرس میں نہیں تھا۔ یہ خبر ملتے ہی میں پیرس پہنچا وہاں بھی یہی بات عام تھی کہ شاید امام شام چلے جائیں، ہم بھی تیار بیٹھے تھے کہ ابھی شام میں امام کی رہائش پر رابطہ کیا جائے لیکن ہمارا یہ منصوبہ دیرپا ثابت نہیں ہوا۔ اگلے روز الحاج احمد آقا نے بصرہ سے پیرس کے مقامی وقت کے مطابق بارہ بجے کے قریب فون کیا، جو میں نے اٹھایا۔

آقائے احمد نے تیزی سے اور دقیق انداز میں یہ اطلاع دی کہ "ہم کل پیرس پہنچ رہے ہیں اور اس بات کی کسی کو خبر نہ ہو" اور پھر انھوں نے مجھے کہا کہ میں کویت میں دوستوں کو فون کرکے اس کے برعکس افواہیں پھیلانے کا کہوں اور حقیقت حال بیان کرنے سے منع کروں۔ یعنی وہ یہ خبریں اڑائیں کہ "ظاہرا ً امام شام جائیں گے۔ کویت میں ان دوستوں کی سرگرمیاں اس قدر تیز تھیں کہ حتی ایران میں بھی یہی افواہ پھیل گئی کہ امام شام جا رہے ہیں۔ اس افواہ کا فائدہ یہ ہوا کہ سیکیورٹی اداروں کی توجہ عراق – شام کے سفری راستوں پر متمرکز ہوگئی اور پھر اگلی رات حاج آقائے احمد نے نجف سے فون کیا اور کہا کہ آپ انتظار میں رہیں ہم کل ظہر سے پہلے آپ کو پیرس پہنچنے کے وقت کے بارے میں آگاہ کردیں گے۔

 

امام خمینی ؒ کی پیرس آمد

جیسے ہی امام کے پیرس آنے کی تصدیق ہوئی ہم الرٹ ہوگئے، اب دیکھنا یہ تھا کہ اگلے دن عراق سے کون کون سے فلائٹس نے پیرس آنا ہے اس وقت دو فلائٹس ہی پیرس آتی تھیں۔ ہم نے خود ہی جمع تقسیم کرکے یہ اندازہ لگالیا کہ وہ جہاز جو "اورلی" کے ایئرپورٹ پر اترے گا امام اسی میں ہوں گے۔ اور ہمارا یہ اندازہ اس وقت یقین میں بدل گیا جب راستے سے فون کرکے ہمیں اطلاع دی گئی اور امام کے استقبال کے لئے جانے والے افراد بھی گنے چنے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کو دو تین مخصوص ذرائع سے امام کے پیرس پہنچنے کی اطلاع ملی تھی۔

جب سے ہم نے حضرت امام کو دیکھا کہ وہ کسٹم دروازے سے باہر کی طرف آرہے ہیں تو دل میں طرح طرح کے خیالات نے جنم لینا شروع کردیا۔ دلوں کی دھڑکن تھم رہی تھی، میری اپنی اندرونی کیفیت جو تھی وہ بیان سے باہر ہے۔ میں پہلے بھی کئی مختلف موقعوں پر امام کی خدمت میں رہ چکا تھا لیکن آج میری جو حالت تھی وہ پہلے کبھی ایسی نہیں تھی، میں اس قدر خوفزدہ تھا کہ زندگی میں کبھی اتنا خوف مجھ پر طاری نہیں ہوا تھا۔ یہ ایسی گھڑی تھی جسے میں کبھی بھی بھلا نہیں پاؤں گا۔ مجھے یہ ڈر تھا کہ اگر ابھی فرانسوی پولیس کو یہ علم ہوجائے کہ کون سی شخصیت فرانس میں داخل ہوچکی ہے اور امام کو ایئر پورٹ سے باہر آنے سے روک دے تو کیا ہوگا؟ مجھے خوف تھا کہ اگر ایسی کوئی صورت حال پیش آگئی تو تمام تر وہ نتائج جو اس سفر کے حوالے سے میں نے اخذ کئے تھے سب کے سب ضائع ہوجائیں گے۔ اگرچہ ایک دو بار یہ بات بھی ذہن میں آئی کہ اگر امام کو فرانس میں داخل ہونے سے روک بھی دیا جائے تو اس میں بھی خیر ہی ہوگی۔ لیکن اگر میں مختصر الفاظ میں حقیقت کو بیان کرنا چاہوں تو یوں کہوں گا کہ اس وقت میری ذاتی خواہش یہ تھی کہ امام خیر و عافیت سے ایئر پورٹ سے باہر آجائیں ورنہ اس نادر موقع پر میں امام کے دیدار اور خدمت سے محروم رہ جاؤں گا۔ امام ہمیشہ کی طرح پرسکون انداز میں کسٹم پولیس کے پاس آکر کھڑے ہوئے۔ حاج آقائے احمد نے ایک ایک کرکے تمام پاسپورٹ دیئے۔ پولیس والوں نے پاسپورٹوں اور تصویروں پر ایک ایک نگاہ ڈالی اور متعلقہ صفحوں پر مہر لگادی اور امام آگے چل پڑے۔ درحقیقت اب امام فرانس میں داخل ہوچکے تھے۔ ہم اپنی اندرونی کیفیت پر قابو پاتے ہوئے آگے بڑھے اور آرام و سکون کے ساتھ باہر جانے لگے۔ خوشی کے مارے ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔

امام تقریباً ڈھائی بجے فرانس میں داخل ہوئے جبکہ فرانس پولیس کو ساڑھے تین بجے کے قریب ریڈیو ٹی وی کی خبروں میں معلوم ہوا کہ امام خمینی فرانس پہنچ چکے ہیں۔ توجہ کرنے والی دلچسپ بات یہ تھی کہ فرانسوی ذرائع حتی جیسے کہ سننے میں آیا فرانسوی صدر کو امام کے سرعام فرانس پہنچنے کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ امام مخفی طریقے سے فرانس میں داخل ہوئے ہیں! یوں لگ رہا تھا جیسے حکومت نے وزارت دفاع سے تفتیش بھی کی تھی کہ آپ ملکی سرحدوں  کی کیسی حفاظت کر رہے ہیں کہ امام خمینی جیسی شخصیت فرانس پہنچ چکی ہے اور کسی کو خبر ہی نہیں! حکومت کو مطمئن کرنے کی خاطر وضاحت بھی دی گئی تھی اور بتایا تھا کہ امام مخفی طور پر نہیں آئے بلکہ سیکیورٹی والوں کا دھیان ان کی طرف نہیں تھا (یعنی کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا) بہرحال اس وقت جو بات سمجھ میں آرہی تھی اور آج بھی آرہی ہے وہ یہ کہ امام کا خیر و عافیت سے اور بغیر روک ٹوک کے فرانس کی سرزمین میں داخل ہوجانا اور پس پردہ حساسیت کے باوجود فرانس کے سیکیورٹی اداروں کو ایک گھنٹے کے بعد علم ہونا ان امور میں سے ایک تھا جنہیں امام "خدائی" کا عنوان دیتے تھے۔ آنکھوں پر یوں پردے پڑ گئے تھے کہ پولیس کے دیکھتے دیکھتے  امام ایئرپورٹ سے باہر آگئے اور وہ کچھ بھی نہ کرسکی۔

 

فرانس کے صدراتی دفتر  کی طرف سے نوٹس

رات کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب فرانس پولیس کے کچھ افراد آئے اور امام سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ امام کے ساتھیوں نے پوچھا کہ ملاقات کا مقصد کیا ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ ہمیں خود امام سے اقامت کے بارے میں خصوصی بات کرنی ہے۔ امام کے ساتھیوں نے کہا کہ اگر آپ یہ جاننے کیلئے آئے ہیں کہ امام واقعی فرانس پہنچ چکے ہیں یا نہیں تو ہم آپ کو واضح بتا رہے ہیں کہ یقیناً امام فرانس پہنچ چکے ہیں لیکن اگر آپ کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ہے تو پھر آپ ہمیں کھل کر بتائیں کہ آپ کے اختیارات کہاں تک ہیں اور کس کی طرف سے ملنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر انھوں نے کہا: ہم واپس جاتے ہیں اور آپ کے ان سوالات کے جوابات کے ساتھ دوبارہ آئیں گے۔ اگلی رات وہ لوگ دوبارہ آئے اور کہاکہ ہم حکام بالا کی طرف سے آئے ہیں اور کچھ خاص باتیں خود امام کے گوش گزار کرنی ہیں۔ ہم نے کہا کہ حکام بالا کون لوگ ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ یہ بات بھی خود امام کو بتائیں گے۔ ہم نے کہا: امام کو فرانسوی زبان نہیں آتی۔ تو انھوں نے کہا آپ مترجم کے فرائض انجام دیں گے۔

خیر، یہ سب  باتیں امام کو بتائی گئیں تو امام نے فرمایا: کوئی بات نہیں انہیں ملنے دیں۔ وہ لوگ آئے اور آکر بیٹھے ان کی پہلی بات یہی تھی کہ وہ لوگ حکام بالا کی طرف سے آئے ہیں اور انہیں امام کی خدمت میں کچھ باتیں عرض کرنی ہیں۔ ہم نے پوچھا حکام بالا کون لوگ ہیں؟ تو انھوں نے اشارتاً بتایا کہ خود صدر کی طرف سے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ امام کی خدمت میں چند عرائض پیش کریں۔ پہلی عرض یہ کہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا امام لمبے عرصے کے لئے فرانس میں رکنا چاہتے ہیں؟ دوسری عرض یہ ہے کہ اصولی طور پر امام کو علم ہوگا کہ فرانسوی قوانین کے مطابق کسی بھی قسم کی سیاسی فعالیت کی اجازت نہیں مل سکتی۔ اور نہ پبلسٹی کرسکتے ہیں۔ ہم نے پوچھا پبلسٹی سے آپ کی کیا مراد ہے؟ تو انھوں نے کہا: نہ تقریر کرسکتے ہیں اور نہ ریڈیو، ٹی وی پر انٹرویو دے سکتے ہیں۔ یہ سب باتیں ترجمہ کرکے امام کے گوش گزار کی گئیں۔ انھوں نے فوراً کہا: "یہ نہیں ہوسکتا میں جہاں بھی رہوں ہر وہ کام انجام دوں گا جو میں ضروری سمجتا ہوں  اور یہ بھی بتادوں کہ میرا فرانس میں زیادہ عرصہ تک رکنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ جب بھی تیاری مکمل ہوئی میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔" اب ہم نے ان پولیس والوں سے سوالات کرنا شروع کیئے کہ: اچھا اگر امام یہاں (فرانس) سے خط لکھ کر پوسٹ کریں تو کیا آپ کی نظر میں اس میں کوئی حرج ہے؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں۔ ہم نے پوچھا: اگر امام اپنے قریبی ساتھیوں کی موجودگی میں کوئی بات ریکارڈ کرتے  ہیں اور یہ ریکارڈنگ فرانس سے باہر بھیجتے ہیں تو کیا یہ فرانسوی قوانین کے خلاف ہے؟ انھوں نے کہا: "نہیں،  فرانس کسی بھی فرد کی آزادی اور بنیادی حقوق میں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ اور اس کام میں بھی کوئی حرج نہیں ہم تو فقط  بتانے آئے ہیں کہ امام فرانس میں سیاسی فعالیت نہیں کرسکتے۔ ہم نے پوچھا: اگر غیر فرانسوی صحافی حضرات آکر امام سے سوالات کریں اور امام جوابات دیں اور پھر یہ سوالات اور جوابات فرانس سے باہر نشر ہوں تو کیا اس میں کوئی حرج ہے؟ انھوں نے کہا: "نہیں" اب ہم نے امام کی رائے جاننے کے لیے یہ سب باتیں ترجمہ کرکے امام کی خدمت میں پیش کیں۔ تو امام نے فرمایا: "بہت خوب، ہم بھی یہی کرنا چاہتے ہیں" ہم نے امام کی یہ بات فرانسوی اہل کاروں کو بتائی اور پوچھا کہ اگر کوئی اور بات کرنی ہے تو بتائیں۔ انھوں نے کہا "کہ ہم نے جو کہنا تھا کہہ دیا۔ اب اگر امام کچھ کہنا چاہتے ہیں تو ہم سننے کو تیار ہیں۔"

 

میں اپنی ذمہ داری پوری کروں گا

امام نے فرمایا: عراقیوں نے مجھ سے کہا کہ آپ عراق میں رہ سکتے ہیں بشرطیکہ کسی بھی قسم کی سرگرمی سے اجتناب کریں۔ میں نے ان کو بھی یہی کہا تھا کہ میں جہاں کہیں بھی رہوں اپنی ذمہ داری پوری کروں گا۔ مجھے اس دنیا میں اپنے بیٹھنے کے لئے مختصر سی جگہ کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہئیے اور یہ مختصر جگہ تو بہرحال اس دنیا میں مل ہی جائے گی۔

ہاں البتہ عراقی حکومت کی توجہ ا س بات کی طرف رہنی چاہیے کہ ایرانی حکومت یہ چاہتی ہے کہ میں عراق میں نہ رہوں اور کسی قسم کی کوئی سرگرمی اختیار نہ کروں اور یہ کہ عراق پر ایران دباؤ  ڈال رہا ہے۔ اگر عراق کا استقلال محفوظ ہے تو وہ ہرگز ایران کا دباؤ برداشت نہیں کرے۔ عراقیوں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ اگر آپ عراق سے نکلے تو کہاں جائیں گے؟ تو میرا جواب یہی تھا کہ ایسی جگہ کا انتخاب کروں گا جو ایرانی دباؤ سے مبرّا ہو۔ امام نے اپنی اس گفتگو سے فرانسوی اہل کاروں  پر واضح کر دیا تھا کہ وہ کسی قسم کا دباؤ برداشت نہیں کریں گے اور جس کام میں مصلحت سمجھیں گے اسے انجام دینے میں مضائقہ نہیں کریں گے چاہے انہیں بار بار ہجرت کرکے مختلف ممالک میں ہی کیوں نہ جانا اور رہنا پڑے۔ ان سب مصائب و آلام کے باوجود اپنے مقصد سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

پولیس والوں کے جانے کے بعد امام کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ جب بھی امام بہتر سمجھیں ایک مفصل انٹرویو دیں اور اگر فرانس حکومت بالفرض مشکل ایجاد کرے تو ہم کسی اور ملک کا رُخ کریں گے۔ خلاصہ یہ کہ ہم تب تک مختلف شہروں اور ممالک میں ہجرت کرتے رہیں گے جب تک خدا چاہے اور جتنا ہمارا بس چلے۔ امام نے یہ سن کر صریح اور خوشی کے انداز میں اس طریقہ کار کی تائید کی اور فرمایا: جی بالکل، ضرورت پڑے گی تو ہم ایسا ہی کریں گے۔

 

صحافیوں کا امام اور ان کے ساتھیوں کے طرز زندگی سے متاثر ہونا

شہید عراقی کے پیرس پہنچنے سے قبل مہمان خانے کے اخراجات خود امام خمینی اٹھا رہے تھے یعنی درحقیقت سب لوگ امام خمینی ؒ کے مہمان تھے اور ہم انہیں جو کھانا پیش کرتے تھے وہ آلو انڈے کے سالن اور روٹی پر مشتمل ہوتا تھا۔ جب شہید عراقی آئے تو انھوں نے کھانے کا مینیو کچھ تبدیل کیا اور امام سے کہا: اگر آپ اجازت دیں تو مہمان خانے کا حساب کتاب علیحدہ رکھ  یتے ہیں اور انھوں نے مذاق میں یہ بھی کہاکہ باقی افراد امام جیسی سادہ مزاج  زندگی نہیں گزار سکتے اور نہ ہی صبح شام آلو انڈے کھا سکتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک مذاق تھا ورنہ حقیقت یہی تھی کہ سب افراد حضرت امام جیسی ہی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے تھے۔ بین الاقوامی صحافیوں کو جس چیز نے سوچنے پر مجبور کیا تھا وہ امام ؒ اور ان کے ساتھیوں کا یہی طرز  زندگی تھا۔ ان سب کے اذہان  اسی چیز میں اٹک گئے تھے کہ کس طرح یہ لوگ روٹی پنیر، آلو انڈے اور یخنی وغیرہ پر گزارا کر رہے ہیں اور زندگی گزار رہے ہیں اور اسی چیز کے متعلق وہ لوگ بار بار سوال کرتے تھے اور جو جواب سننے میں ملتا تھا اس سے ان کے اذہان مزید دنگ رہ جاتے تھے۔ امام کے ساتھی جواب میں یہ کہتے تھے کہ امام سمیت ہم سب کا جی یہی چاہتا ہے کہ ہم ایسے زندگی گزاریں جیسے ایران کے اکثر لوگ گزار رہے ہیں۔ اس طرح کے جوابات سن کر صحافی حضرات اپنی خبروں میں اپنا ردّعمل ظاہر کرتے ۔وہ اپنی خبروں میں لکھتے تھے کہ یہ لوگ کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ یہ اپنے امام کی پیروی کرتے ہیں اور ان کے امام بھی، ایران کے سادہ ترین لوگوں کی طرز پر زندگی گزارتے ہیں اور یہ ایک ایسا پہلو ہے جو اس امت اور اس امام کی کامیابی کے لیے کافی ہے۔

اس وقت کا ایک اور دلچسپ نکتہ جو قابل ذکر ہے کہ اس سال ایران میں زیادہ سردی نہیں تھی اور تیل کی کمپنیوں کے ملازمین کی دیدہ و دانستہ ہڑتال کی بنا پر تیل کی خرید و فروخت نہ ہونے کے باوجود لوگوں کو مشکل کا سامنا نہیں تھا اور لوگوں کے بقول "موسم سرما، موسم بہار جیسا تھا"۔اور تو اور "نوفل لاشاتو" (پیرس) میں بھی اس سال سردی خلاف معمول بہت کم تھی اور درمیانہ موسم تھا جو درحقیقت امام کی جسمانی کیفیت کے لحاظ سے بالکل مناسب تھا چونکہ امام عراق سے آئے تھے جو گرم علاقہ تھا اور اگر فرانس میں سردی طبق معمول ہوتی تو اس موسمی تبدیلی کا امام پر اثر انداز ہونا ایک طبیعی امر ہوتا لیکن ایسا ہوا نہیں بلکہ شاید یہ "موسمی اعتدال" ایک عرصے سے امام کی آمد کا منتظر تھا جو درحقیقت "اسرار الٰہی" میں سے ایک "سرّ" تھا۔ اور جب موسم میں ٹھنڈک آنے لگی اور برف جمنے لگی تو میں نے ساتھیوں سے کہا کہ اب ہم لوگ یہاں مزید نہیں رکیں گے۔ انھوں نے پوچھا: وہ کیسے؟ تو میں نے جواب میں یہ دلیل پیش کی کہ اس ٹھنڈے موسم میں ہم ادھر رک ہی نہیں سکتے اور چونکہ شروع سے ہی خداوند متعال نے ایسے اسباب فراہم کئے کہ جن کے نتیجے میں ہمارا وقت امام کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے گزرے، سو اسی لئے اب ہمیں یہاں سے جانا ہوگا اور پھر بعد میں ہوا بھی اسی طرح۔ ہاں البتہ میں یہ بات مذاق میں نہیں کرتا تھا بلکہ مجھے اس پر یقین تھا جس کا اظہار میں کسی حد تک کرتا تھا۔

 

پیرس میں امام کی قصر نماز

اس روز جب امام ایران آئے تو کون سے خاص واقعات رونما ہوئے نیز اس سفر کے مقدمات کے بارے میں کچھ بتائیں؟

جی، جب امام فرانس پہنچے تو ایک دو دن کے بعد ان کے بارے پوچھا گیا کہ امام پوری نماز پڑھ رہے ہیں یا قصر؟ جو افراد اس مسئلے سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس سوال کا مقصد امام کی اقامت کے متعلق آگاہی حاصل کرنا تھا یعنی کیا امام لمبے عرصے کے لیے فرانس میں قیام کرنا چاہتے ہیں یا محدود مدت کے لئے؟ اگر امام قصر نماز ادا کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عنقریب اپنی رہائش تبدیل کرنے والے ہیں۔ البتہ امام نے اسی دن ہی یہ بات واضح کردی تھی کہ یہاں ان کا قیام مختصر ہے۔ نماز والے مسئلے کی وضاحت اور امام کے فرانس میں زیادہ نہ رکنے والی بات ہم نے صحافی حضرات کو بھی بتا دی اور یہی بات خود امام بھی صحافیوں کو بتا رہے تھے اور کہہ رہے تھے:

جب تک ایران میں شاہ موجود ہے تب تک امام ایران نہیں جائیں گے اور ان (امام) کا یہ خیال ہے کہ کسی اور جگہ سے ایرانی عوام کی قیادت کی جائے لیکن امام یہ بات بھی ساتھ ساتھ فرماتے تھے کہ جب بھی حالات ایسے بن گئے کہ مجھے ایران جانا پڑا تو میں بھی ضرور جاؤں گا اور ملت ایران کے شانہ بشانہ حکومت مخالف سرگرمیاں جاری رکھوں گا۔

جب شاہ ایران سے نکل گیا ، تو سوالات کا ایک طولانی سلسلہ شروع ہوگیا۔ مثلاً کیا اب امام فوراً ایران و اپس جائیں گے؟ یا کیا ...؟ یا کیا ...؟ وغیرہ اور اس طرح کے دوسرے بہت سے سوالات، جن کے جوابات کے سلسلے میں یہ اعلان ہوا کہ تمام جوابات کا انہی دنوں اعلان کیا جائے گا۔ ۲۱ یا ۲۲ جنوری تھی جب امام نے اپنے چند جلا وطن ساتھیوں کو بلوایا تاکہ ان سے کچھ خاص گفتگو کرسکیں۔ اس میٹنگ میں امام نے یہ بات واضح کی کہ میں ایران واپس جانا چاہتا ہوں اور آپ کے علم میں یہ بات لانے کے لئے آپ کو بلوایا ہے۔ یہ سن کر سب بہت خوش ہوئے بلکہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ امام کی یہ بات سن کر باقی افراد کی خوشی کی کیفیت ناقابل بیان تھی۔ اب طے یہ پایا کہ پہلے مرحوم عراقی ایران جائیں گے اور امام کی واپس کے لئے زمینہ سازی کریں گے اور ساتھ ہی یہ بھی طے پایا کہ ۲۶ جنوری کو امام اور ان کے ساتھی ایران واپس جائیں گے۔ ۲۶ جنوری! کیا دن تھا!، امام کی واپسی اور  اس روز کے تقارن میں ایک خاص راز پوشیدہ تھا اس کی مثال ایسے ہی تھی جیسے بہت شدید گرمی کے بعد رحمت خدا برس پڑے۔ خیر پھر یہ بھی ہوا کہ کون سے افراد امام کے ساتھ واپس آسکتے ہیں اور جب یہ خبر پھیلی تو ایرانی قوم کی خوشی کا ٹھکانا نہیں تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ایران سے دو ردّعمل بھی دیکھنے میں آئے ایک یہ کہ تہران ایئرپورٹ  بند کر دیا گیا یعنی امام کے لئے ایران واپسی کا دروازہ بند کردیا گیا۔ اور دوسرا ردّعمل امام کی ایران واپسی میں فی الحال مصلحت نہیں۔ لیکن جلد ہی یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ "مصلحت" عوام کی طرف سے نہیں بلکہ ان لوگوں کی طرف سے بنائی گئی تھی جو ایسے انقلاب کے حامی تھے جس میں امام خمینی ؒ کا وجود نہ ہو۔ اور یہ لوگ انقلاب کو بھی اسی مشکل میں مبتلا کرنا چاہتے تھے جس میں مشروطہ (چند سالوں پہلے اٹھنے والی ایک تحریک)کو  مبتلا کیا گیا تھا۔ البتہ ہمیں معلوم ہے کہ کچھ ایسی ہی باتیں اور مصلحت اندیشیاں اس وقت کے اخبار و جرائد میں بھی چھپتی تھیں۔ اب ایئرپورٹ بند ہونے کی افواہ کے بعد یہ خبر پھیلی کہ بختیار پیرس آئے گا۔ اب اس افواہ کے ساتھ ساتھ جو سوال گردش میں تھا وہ یہ تھا کہ کیا اب امام، بختیار کو قبول کریں گے یا نہیں؟ اور ساتھ ہی چہ میگوئیاں، اندازے اور تخمینے لگنا شروع ہوگئے کہ اگر بختیار آجائے تو امام اسے (ہرگز) قبول نہیں کریں۔ اور اگر بختیار آنا بھی چاہے تو اسے پہلے (تہران میں) استعفا  دینا ہوگا اور پیرس آنے کی باقاعدہ اطلاع بھی دینی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ اور اس طرح کی باتوں سے ماحول میں سراسیمگی بڑھ رہی تھی لیکن امام خمینی ؒ ہمیشہ کی طرح پرسکون اور اطمینان کے ساتھ تمام تر واقعات پر نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ امام کے آخری فیصلے سے کچھ ہی دیر قبل یہ افواہ اس شدت سے پھیلی کہ بختیار نے باقاعدہ بیان میں استعفا دینے کا اعلان کردیا ہے اور اب وہ پیرس آئے گا اور امام کی خدمت میں پہنچے گا وغیرہ وغیرہ۔

 

بختیار کو کوئی بھی قبول نہیں کرے گا

لیکن یہ افواہیں زیادہ دیرپا نہیں تھیں کیونکہ رات ساڑھے گیارہ بجے امام نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا اگر بختیار پیرس آئے تو کوئی بھی اسے قبول نہیں کرے گا۔ اور ساتھ امام نے یہ بھی حکم دیا کہ یہ بیانیہ اسی رات ایران بھر کے کئی نقاط تک ٹیلی فون کے ذریعے پہنچایا جائے۔ امام کے اس ٹھوس موقف نے ایک بار پھر کچھ اندازوں کو ملیا میٹ کردیا اور خط انقلاب کو مزید واضح اور روشن کردیا۔ اور کچھ مخلص افراد کی اُمیدوں کو پہلے سے زیادہ پکا کردیا۔

 

یہ سفر خطرناک ہے

ایک اور اہم واقعہ جو انہی دنوں خود میرے ساتھ پیش آیا وہ یہ تھا کہ ایئر پورٹ کےبند ہونے کے بعد دو تین دن تک امام خمینی ؒ نے نہ انٹرویو دیا اور نہ کوئی تقریر کی۔ ایک دن میں نے عرض کی کہ ایئرپورٹ تو بندہے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ کب تک بند رہے گا تو کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ ایک بیانیہ یا انٹرویو میں اپنا اظہار خیال فرمائیں؟ میری بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ امام نے اپنے محبت بھرے لیکن خاص تند مزاج لہجے میں فرمایا: "میں ہر حال میں ایران جاؤں گا چاہے کچھ بھی ہوجائے"۔ یہ بات سن کر میں نے بھی فوراً کہا: "ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں" اب امام نے ذرا خاموشی اختیار کی اور کہا: "لیکن یہ سفر خطرناک ہے اور آگے چل کر خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔ " میں نے کہا ہم آپ کے ساتھ ساتھ ہیں سوائے اس کے کہ آپ ہمیں اپنے ساتھ لے جانا مناسب نہ سمجھیں۔ امام نے پھر فرمایا: بہرحال آپ کے ذہن میں یہ بات رہے اور باقی سب بھی جان لیں کہ یہ سفر خطرے سے خالی نہیں ہے اور پہلی بات یہ کہ خواتین بالکل بھی ہمارے ساتھ نہیں آئیں گی۔ میں نے پوچھا: اگر صحافی خواتین ساتھ آنا چاہیں ؟ تو فرمایا: "یہ ان کی اپنی مرضی ہے میں یہ بات بتانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ یہ سفر خطرے سے خالی نہیں۔ اور میں اس سفر میں خواتین کو روکنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔انگریز خود جانتے ہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ اس سفر میں جو ممکنہ خطرات در پیش ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہوسکتا ہے ہمارے جہاز کو ایرانی حدود میں داخل ہوتے ہیں تباہ کردیا جائے یا پھر  ممکن ہے کہ ایئر پورٹ پہنچتے ہی جہاز پر فائرنگ کی جائے یا یہ بھی ہوسکتا ہے وہ لوگ آپ کو کچھ بھی نہ کہیں بلکہ مجھے قتل کریں۔ یہ بھی ممکن ہے مجھے لوگوں کے ہجوم میں قتل کریں یا سب کے سامنے۔ اور اصولی طور پر یہ تمام تر خطرات مجھے ہی لاحق ہیں اور میری خاطر آپ لوگ خود کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ ہاں پھر بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اسے میرے ساتھ جانا چاہیے تو پھر شعور اور آگاہی کے ساتھ اس سفر کی مشکلات پر سوچ بچار کرے" اور پھر امام نے یہ بھی فرمایا: "یہ سب باتیں محض چند افراد کے گوش گزار نہ کریں بلکہ اس کمرے سے نکلتے ہی سب کے لیے علی الاعلان کہیں تاکہ سب جان لیں"  خیر، خلاصہ یہ کہ امام یہ سب فرائض انجام دے کر اتمام حجت کرنا چاہتے تھے۔

 

امام ؒ کی ایران روانگی

آخرکار وہ رات آہی گئی جب ہمیں ایران کے لئے نکلنا تھا۔ ہر شخص کی عجیب کیفیت تھی۔ بعض افراد خوش گپیوںمیں مصروف تھے، بعض خاموش تھے اور بعض صحافیوں کے ساتھ آخری سوال و جواب میں سرگرم تھے۔ نوفل لوشاتو میں تو عجیب گہما گہمی سی لگ گئی تھی ۔ جس روڈ پر امام کی رہائش تھی، شروع سے آخر تک پروجیکٹرز کی روشنیاں دن کا منظر پیش کر رہی تھیں۔

وہاں کے بہت سے مقامی افراد روڑ پر ہی کھڑے تھے اور دو تین  پڑوسی بھی امام کو خدا حافظی کہنے آئے تھے۔ پولیس سر سے پاؤں تک مسلح اور چوکس کھڑی تھی۔ جب شاہ، ایران سے نکلا تو فرانس پولیس نے حفاظتی انتظامات نسبتاً سخت کر دیئے تھے لیکن اس رات تو منظر ہی کچھ اور تھا۔ نہ فقط امام کا رہائشی علاقہ پولیس والوں کی حفاظت میں تھا بلکہ نوفل لوشاتو سے لیکر ایئرپورٹ تک اچھے خاصے طویل راستہ  پر بھی پولیس تعیینات تھی صرف یہی نہیں بلکہ یہاں سے ایئرپورٹ تک جانے کے لیے صرف اور صرف ہماری سڑک ہی کھلی تھی اور اس سڑک سے دائیں بائیں سے ملنے والے تمام راستے بند کر دیئے گئے تھے جب ہی تو ہم نے ایئرپورٹ کا راستہ بغیر کسی رکاوٹ یا سرخ اشارے  پر رکنے کے طے کیا۔ پولیس کی ایک گاڑی سب سے آگے تھی۔ اس کے بعد والی گاڑی میں حضرت امام سوار تھے اور پھر ہماری گاڑی تھی۔ یہ تین چار گاڑیاں ایئرپورٹ کے سیکنڈری روڈ سے ایئرپورٹ میں داخل ہوئیں۔ اور ہم وہاں کے پولیس آفیسر اور ایئرپورٹ پولیس کے ساتھ ساتھ ایئرپورٹ کے انڈر گراؤنڈ راستے سے ہوتے ہوئے وہاں جا پہنچے جہاں جہاز کھڑا تھا۔ امام نے وہیں چند منٹ کے لئے آرام کیا اور پھر اٹھے اور پر سکون انداز میں صحافیوں کی طرف چند قدم بڑھائے۔ امام کے چہرے سے عزم مصمم عیاں تھا۔ امام نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ان کا یہ پیغام انگریزی اورفرانسوی زبان میں نشر کیا جائے۔

جب ہم جہاز میں سوار ہوئے تو امام اگلی سیٹ پر پُرسکون انداز میں تشریف فرما ہوگئے۔ ایک خاص انداز کا تبسم امام کے چہرے پر تھا۔ جو افراد امام کے ساتھ تھے ان کی خوشی کی بھی حد نہیں تھی۔ کچھ افراد اس لئے بھی بہت خوش تھے کہ میری طرح سالوں بعد ایران واپس جا رہے تھے اور یہ خود ایک خاص توفیق تھی کہ ہماری واپسی ان حالات میں اور وہ بھی امام جیسی شخصیت کے ساتھ ہو رہی تھی۔

میں یہی سوچ رہا تھا کہ اب آگے کیا ہوگا اور کس طرح کے حالات و واقعات پیش آئیں گے۔ لیکن اس سے قبل کہ میں اپنی فکر کی لگام، خیالات کے سرکش گھوڑے کو سونپتا، یکدم اٹھا تاکہ جاکر دیکھوں کہ امام کیا کر رہے ہیں اور کس انداز میں بیٹھے ہیں تو میں نے دیکھا کہ امام خاموش اور پرسکون ا نداز میں تشریف فرما تھے امام کے چہرے پر کمال کا سکون تھا جو ہر بے چین دل اور پراکندہ افکار کو اطمینان بخش رہا تھا اور آدمی کو کسی اور دنیا کی سیر کرا رہا تھا۔ یہ سکون اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ یہ اطمینان و سکون ایک غیر معمولی حالت کا نتیجہ ہے اور یہ ہر چہرے پر نمایاں نہیں ہوتا بلکہ اس چہرے پر ابھرتا ہے جو زمانہ حال کا قیدی نہ ہو بلکہ ازلی و ابدی رہنے کے بارے میں سوچے اور اللہ کے جلال و جبروت میں غرق رہنے کے ساتھ ساتھ اس کی عظمت کے دریائے بے کراں میں غوطہ زن رہے۔ خلاصہ امام غیر معمولی پرسکون انداز میں تھے اور ہم بھی امام کی اسی کیفیت کے پرتو میں بیٹھے تھے ۔خیر، میں اپنی جگہ جاکر بیٹھ گیا اور یہ سوچنے لگا کہ اب وہ وقت آگیا جب ایک طویل جدوجہد، ایک ایسی جدوجہد جس کا سرا، صدر اسلام سے آج تک چلنے والی ثابت قدم جدوجہد سے ملتا ہے، اپنے نتیجے کو پہنچے۔ اب ایسا کیا کیا جائے کہ کفر و ظلم کے ساتھ یہ جنگ اور ہمارے لوگوں کی طاغوت  کے ساتھ نبرد آزمائی جاری و ساری رہے اور اس میں روز بروز اضافہ ہو۔ میں خیال ہی خیال میں گزشتہ دس بارہ سال کی تاریخ کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ جب امام خمینی نے فرمایا تھا: "آج تقیہ حرام ہے اور حقیقت کو بیان کرنا واجب ہے چاہے جہاں تک پہنچے" جب ۵ جون کو ہمارے بہترین افراد کا خون ناحق بہایا گیا کیپٹلزم سے امام کی مخالفت، امام کی جلا وطنی، جلاوطنی کے دوران امام کی جدوجہد، امام کا اسلامی حکومت کے اصولوں کو بیان کرنا، ولایت فقیہ کے موضوع پر درس دینا، امام کا پیرس آنا اور پھر آخرکار انقلابی پرواز، یہ سب کا سب اسلامِ ناب کے دائرے میں تھا۔ اور ایک ا سلامی کامیابی کی اساس پر ایک ملت کی کامیابی کہ جس کی قیادت و رہبری کی باگ ڈور امام خمینی جیسی شخصیت کے ہاتھ میں ہے، کا عکس، ذہن میں آرہا تھا۔ اس کامیابی کا نہ تو سیاست دانوں سے کوئی تعلق تھا اور نہ فردی نظریات اور انحرافات سے کوئی و اسطہ تھا۔

 

ہوائی جہاز میں امام خمینی ؒ کی شب بیداری

جب ہم پیرس سے روانہ ہوئے تو امام کچھ دیر جہاز کے نچلے حصے میں بیٹھے اور پھر استراحت کے بعد اٹھ کر اوپر والے حصے میں چلے گئے۔ کچھ دیر مزید گزری ہوگی کہ جہاز کے عملے کے افراد آئے اور انھوں نے قبلہ کی سمت بتائی اور پھر کچھ دیر کے بعد جہاز کے دائیں بائیں مڑنے پر دوبارہ انھوں نے قبلہ کی سمت کی تعیین کی۔ سب کو بخوبی علم ہے کہ دنیا کی پروازوں کی تاریخ میں شاید پہلی اور آخری بار ایسا ہوا کہ اس پرواز میں مسافروں کی ایک بڑی تعداد خالق کائنات کے حضور سجدہ ریز ہوئی۔

بہرحال مجھے بتایا گیا تھا کہ امام کی نماز شب کبھی قضا نہیں ہوئی اور امام جب نماز شب ادا کرنے کے لئے اٹھتے ہیں تو کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ میرے ذہن میں بھی خیال آیا کہ دیکھوں کہ آج رات امام کا کیا شیڈول ہے۔ تو پتہ چلا کہ امام کچھ دیر آرام کے بعد اٹھے اور عبادت میں مشغول ہوگئے۔ اب مجھے دوبارہ پہلے والا خیال آیا کہ یہ پاک طینت عارف اور خدا کا عاشق آج ان حالات میں بھی ویسا ہی ہے جیسے ہمیشہ ہوتا ہے۔ امام وہ شخصیت ہیں جو ہر حال میں اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں اگرچہ تن تنہا ہوں اور اب مجھے امام کی وہ بات بھی یاد آئی جو انھوں نے پیرس میں فرمائی تھی: "اگر سب لوگ کہہ رہے ہوں کہ شاہ کو جانا ہوگا تو تب بھی میں کہوں گا شاہ کو جانا ہوگا اور اگر تھوڑے سے لوگ کہہ رہے ہوں کہ شاہ کو جانا پڑے گا تب بھی میں یہی کہوں گا شاہ کو جانا ہوگا اور اگر کوئی بھی فرد شاہ کے نکلنے کا نعرہ نہ لگائے تب بھی میں یہ کہوں گا کہ شاہ کو جانا ہوگا اور اگر آسمان سے آگ بھی برسے تب بھی میں یہی کہوں گا کہ شاہ و جانا ہوگا کیونکہ یہ میرے دل کی بات نہیں ہے جو اگر کہوں تب بھی  اور اگر نہ کہوں تب بھی برابر ہو۔ بلکہ یہ ایک خدائی ذمہ داری ہے۔

 میں اس سے قبل دل ہی دل میں انقلاب کیلئے  کی گئی  کوششوں کی نتیجہ گیری کرچکا تھا لیکن اس رات ان نتیجہ گیریوں کی نسبت زیادہ ثابت قدم ہوگیا بار بار یہی خیال آرہا تھا کہ اب چاہے کچھ بھی ہوجائے مجموعی طور پر یہ انقلاب کامیاب ہوکر رہے گا۔ اور اس بات کا احساس مجھے نسبتاً بہت شدت سے ہوا اور اپنے اور خدا کے درمیان یہ بات طے کرلی کہ اپنی آخری سانس تک انقلاب اور امام کے ساتھ رہوں گا خود امام کے ہمرکاب رہوں گا، نہ کہ امام کی شخصیت کہ جس کی رہبری بھی امام خود کر رہے تھے بلکہ حقیقت یہ تھی کہ امام کی "شخصیت" بھی اب "امام" کے لئے قربان ہوچکی تھی۔

تہران کے آسمان پر کافی بڑا موڑ کاٹنے کے بعد جہاز نے لینڈ کیا۔ پہلے صحافی حضرات اور پھر امام کے ساتھی جہاز سے اُترے۔ حضرت امام کے شاگرد بھی استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے اور ایئرپورٹ کے ہال میں جمع تھے ۔ میں بھی جب  وہاں پہنچا تو کیا سنا کہ سب کے سب یہ ترانہ پڑھ رہے ہیں: اے خمینی امام ! اے خمینی امام!



 
صارفین کی تعداد: 3641


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔