زبانی تاریخ اور اُس کی ضرورتوں پر انٹرویو – تیئیسواں حصہ

راوی سے بحث و مباحثہ



حمید قزوینی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-11-4


اُن امور میں سے ایک جس سے انٹرویو لینے والے کو شدت سے اجتناب کرنا چاہیے، راوی سے طولانی اور الجھنے والا بحث و مباحثہ ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتاہے کہ راوی اپنی صحیح معلومات اور تجربوں کی بنیاد پر  اپنی بات پر ڈٹا ہوتا ہے اور اُن کے صحیح ہونے پر اصرار کر رہا ہوتا ہے اور انٹرویو لینے والا مختلف منابعوں سے حاصل کردہ معلومات کے تحت اُس کی بات کو غلط سمجھتا ہے۔ ایسے حالات میں ممکن ہے دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور انٹرویو  انجام پانے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ جائے۔

میں اس سلسلے میں کچھ نکات کی طرف اشارہ کرتا ہوں:

۱-  بنیادی طور پر انٹرویو لینے والے کی ایک ذمہ داری، راوی کے ذہن کو کریدنا اور  راوی کو قدیمی واقعات، اُس کے ذہن میں  پوشیدہ باتیں اور گذشتہ مشاہدوں کو یاد دلانے میں مدد کرنا ہے، لیکن اس کام کو حکم چلاکر اور خود کو بڑھا ثابت کرکے نہیں ہونا چاہیے۔ بہت افسوس کے ساتھ ہم نے بہت سے موارد میں ایسے انٹرویو لینے والوں کا مشاہدہ کیا ہے جو زیادہ معلومات کے گھمنڈ اور زیادہ عرصے سے کام کرنے کی وجہ سے خود کو بڑھا سمجھتے ہیں اور راوی کے غلطی کرنے کی صورت میں، اُس کی غلطی کو برملا کرتے ہیں اور اُس سے توہین آمیز رویہ اختیار کرکے اپنی بات ثابت کرتے ہیں۔

۲- واقعات بیان کرتے وقت غلطی ہوجانا، زبانی تاریخ میں ہونے والے انٹرویو کا حصہ ہے جس کی بہ نسبت صبر سے کام لینا چاہیئے۔ بہرحال وقت گزرنے کے ساتھ اور حادثات زیادہ ہونے سے ممکن ہے راوی کا حافظہ ضعیف ہوجائے  اور معلومات گڈمڈ ہوجائیں اور راوی یادوں اور گذشتہ واقعات کو یاد کرتے وقت نا چاہتے ہوئے غلطی کا شکار ہوجائے اور اپنی غلطی کا اعتراف بھی نہ کرے۔ ایسے حالات میں انٹرویو لینے والے کو اُس کے احترام کی رعایت کرتے ہوئے بغیر کسی لمبے بحث و مباحثے اور جھگڑے  کے اُسے اپنی غلطی کی طرف متوجہ کرنا چاہیے اور اگر راوی اُسے ماننے پر راضی نہ ہو تو  اُسے چاہیے گفتگو روک کر کسی مناسب موقع پر تمہید باندھ کر اور دوسری باتوں کا خیال رکھ کر دوبارہ اس مسئلہ کو اٹھائے۔اگر مسئلہ حل نہ ہو تو ضروری ہے کہ انٹرویو لینے والا ان باتوں کے شائع ہوتے وقت حاشیہ میں مکمل وضاحت دیکر اپنی رائے کو بیان کرے۔

مجھے یاد پڑتا ہے ایک دفعہ کسی ثقافتی اور سماجی شخصیت کا انٹرویو لیتے وقت، اس شخصیت نے مطالب کے بیان میں اِدھر اُدھر کی باتیں کیں۔ فطری سی بات ہے کہ میں اُنہیں یاد دلاتا تاکہ وہ اپنی اصلاح کرتے، لیکن انھوں نے بعض باتوں کو نہیں مانا۔ لہذا میں نے کسی بھی بحث و تنازع سے پرہیز کیا اور میں نے کوشش کی کہ بعد میں ہونے والی نشستوں میں بعض سندیں اور مکتوب معلومات پیش کرکے اُنہیں اُن کی غلطی کی طرف متوجہ کروں گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ پھر بھی اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ ایسے حالات میں صبر اور جھکنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور مطالب کو شائع کرتے وقت وضاحت دی جاسکتی ہے۔

۳- بعض اوقات راوی چاہتا ہے کہ انٹرویو لینے والا مورد بحث گفتگو کے بارے میں اپنی رائے بیان کرے، یا اُس کے واقعات کے بارے میں اپنے رائے کا اظہار کرے۔ ایسے موقع پہ ضروری نہیں کہ ہم راوی کے ساتھ بحث و مباحثے میں پڑ جائیں۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جو بات راوی بیان کرنا چاہتا ہے ، ہم اُس کے مخالف ہوتے ہیں، لیکن اُس کے لئے الجھنے یا مسائل کھڑے کی ضرورت نہیں۔

۴- ایسے مواقع پر ایک غلط طریقہ کار یہ ہے کہ دوسروں کی آراء و نظریات کو راوی کے سامنے رکھا جائے اور اُس کے اور دوسروں کے درمیان ایک طرح کا  محاذ کھول دیا جائے۔ یہ طریقہ کار کبھی کبھار راوی کے اعتماد نفس کو کم کرنے کا سبب بنتا ہے، نیز دوسرے موارد بھی ممکن ہے وہ دوسرے پر غصہ اور بھڑاس نکالے۔ البتہ ایک با مقصد انٹرویو میں، سوال کرتے وقت، دوسروں کی روایات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اس اشارے کو جھگڑے اور تنازع کی شکل میں نہیں ہونا چاہی



 
صارفین کی تعداد: 5033


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔