جماران ہال میں یادوں بھری رات کا پروگرام

امام خمینی اور انقلاب اسلامی کی کچھ یادیں

مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-3-12


ایرانی شفاہی تاریخ کی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، عشرہ فجر اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کی 39 ویں سالگرہ کے موقع پر "مبشر صبح" کے عنوان سے یادوں بھری رات کی تقریب، جماران ہال میں  بدھ کی شام 7 فروری 2018ء کو منعقد ہوئی۔

 

 

فوج کا امام خمینی اور انقلاب سے ملحق ہونے کا سبب

جناب احمد جنتی محب، پروگرام کے سب سے پہلے خطیب تھے۔ وہ جو8 فروری 1989ء میں  امام خمینی سے ہمافران کے نام سے موسوم سابق ایرانی فضائیہ کی ایک یونٹ کی مشہور ملاقات کا موقع فراہم کرانے والے ہیں، انھوں نے کہا: "6  فروری سن 1989ء کا دن تھا کہ پہلوی حکومت کی آرمی کی اطلاعات کے خلاف کام کرنے والوں کیلئے ایک احکام صادر ہوا۔ اہم  احکام صادر  کرنے کیلئے سب سے دستخط لئے جاتے ہیں۔ اس صادر ہونے والے احکام میں یہ تھا کہ اگر فوجی افراد کو کسی بھی صورت میں پہلوی حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے دیکھ لیا جائے، جنگ کے زمانے میں لاگو ہونے والے قانون کی طرح اُنہیں تختہ دار پر لٹکا دیا جائے گا۔ ہم نے فیصلہ کیا اور اس حکم نامہ پر دستخط کردیئے۔ اس دستخط نے ہمارے فیصلے کو اور مضبوط کردیا۔

ہم نے منصوبہ بندی شروع کردی تھی، یہ طے پایا کہ ہماری ملاقات  یکم فروری کو ایئرپورٹ پر، امام کے پہنچتے ہی ہوجائے، جس کو شہید بہشتی اور امام خمینی ؒ نے صحیح نہیں سمجھا۔ جب امام تشریف لے آئے اور ٹھہر گئے، انھوں نے وعدہ کیا ہوا تھا کہ عارضی حکومت بنائیں گے اور انھوں نے پانچ فروری کو عارضی حکومت کو متعارف کروایا۔ ہم نے چھ فروری کیلئے منصوبہ بندی کی۔ آخری ملاقات میں طے پایا کہ اگر امام کی خدمت میں حاضری کیلئے جائیں تو اس کاروائی اور پروگرام کا نام کوہ پیمائی رکھیں اور اگر فوجی لباس میں گئے، تو ہم کہیں گے کہ کوہ پیمائی والا لباس بھی ساتھ لیکر چلیں۔

ہماہنگ کرنے والے انچارج، فضائی ٹریننگ دینے والے کمانڈرز تھے۔ اُس زمانے میں خلا بانی، الیکٹرونکس اور تمام شعبوں میں دی جانی والی فضائی ٹریننگ اسی سنٹر میں دی جاتی تھی؛ اُن پروازوں کے علاوہ جو قلعہ مرغی اور اصفہان میں انجام پاتیں۔ جہاز کی دیکھ بھال کی ٹریننگ بھی مہرآباد کی تین نمبر چھاؤنی میں ہوتی تھی جو آج انقلاب اسلامی کی برکت سے شہید ستاری یونیورسٹی میں بدل گئی ہے اور اُس میں مختلف شعبے ہیں۔

چھ فروری والے دن ہم نے حکم نامہ پر دستخط کئے، فوراً  اور مخفی انداز میں جن دوستوں کو اطلاع دینی  تھی اُنہیں کوڈ ورڈ میں ملنے کی جگہ کے بارے میں اطلاع دی اور ہم نے کہا کہ کوہ پیمائی کا پروگرام ہے ، پہاڑ پر جانے کا مخصوص لباس ساتھ لیکر آئیں؛ جگہ تھی آبسردار کا چوراہا، وقت آٹھ فروری کی صبح آٹھ بجے۔ میں خود وہاں پہنچ گیا، جبکہ میں نے پچھلی رات اپنی زوجہ اور اپنے دو ماہ کے فرزند کو اپنے سسر کے گھر چھوڑ دیا تھا کہ وہ پریشان نہ ہوں۔ سب دوست جمع ہوگئے اور رفاہ اسکول میں جو خیابان ایران کے قریب تھا ، وہاں اپنے اپنے لباسوں کو تبدیل کیا۔  وہ دن، عارضی حکومت کی حمایت کا دن تھا۔ مظاہرہ ہوا تھا اور بہت زیادہ لوگ وہاں پہنچے تھے۔ ہم نے بازو پر باندھنے والی پٹیاں بنالی تھیں اور مورد اطمینان افراد کو بٹالین کمانڈر کے عنوان سے دیدی تھیں۔ ہم علوی اسکول کے پاس پہنچے اور اُس محدود جگہ میں ہر گروہ اپنے لئے پریڈ کا حکم خود صادر کر تا اور یوں حضرت امام کے سامنے سے پریڈ کرتے ہوئے جاتے۔ بہت زیادہ گرد و غبار پھیل گیا اور کچھ دیر کیلئے سانس لینا دشوار ہوگیا۔ جناب نور شاہی نامی ایک دوست جن کی آواز بہت اچھی تھی، انھوں نے ٹھہر جا، ہوشیار اور امام کو فوجی سلام کرنے کا حکم دیا ، ہم کھڑے ہوگئے اور جو نعرے یاد کئے تھے وہ لگائے: "ہم قومی فوجی، امام خمینی کے فرمان پر طاغوت سے بیزار ہوکر قوم سے ملحق ہوگئے ہیں۔" بلا کا سناٹا چھا گیا۔ روزمانہ کیہان کے فوٹو گرافر جناب پرتوی کے ذریعے کھینچی گئی  اُس ملاقات کی تصویر چھپی۔ یہ تصویر پیچھے سے لی گئی تھی جس میں کوئی پہچانا نہیں جا رہا تھا۔ روزنامہ کیہان نے اس تصویر کو شائع کیا اور آرمی اسٹاف، فضائی آرمی کے اسٹاف اور سب نے اس کو جھٹلایا، لیکن حضرت امام نے اُس کی تائید کی،  پوسٹر لگے اور ہفتہ کی صبح (10 فروری 1979ء) کو وہ تصویر ایک  بھرپور تنازعہ کی حیثیت سے شائع ہوئی۔

بہرحال ہم نے تھوڑا انتظار کیا اور حضرت امام نے چند جملوں میں ہم سے بات کی۔ ہم وہاں اس لئے گئے تھے تاکہ اس دفعہ ہم خود اپنے کمانڈر کا انتخاب کریں اور ہم نے اب تک اجازت نہیں دی ہے کہ امریکا ہمارے لئے کمانڈر معین کرے۔ ہم اس آیت کریمہ " اِنّ اللهَ لا ‌یُغَیّرُ ما بِقَومٍ حَتّی یُغیّروا ما بِاَنفُسِهِم " پر عمل پیرا ہونے کیلئے گئے تھے۔ امام نے فرمایا: جیسا کہ آپ لوگوں نے کہا، آج تک آپ لوگ طاغوت کیلئے کام کر رہے تھے، آج سے آپ لوگ قرآن کریم کی خدمت کریں گے، آپ امام زمانہ (عج) کے سپاہی ہیں۔ چند سال پہلے  جب فضائی افواج کی  جناب عالی (آیت اللہ سید علی خامنہ ای) سے ملاقات تھی اور ساتھ ہی ساتھ امام زمانہ (ع) کی ولادت کا دن بھی تھا، انھوں نے فرمایا کہ میں آج جرائت کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اے بقیۃ  اللہ، اے امام زمانہ(ع)، یہ فضائی افواج، آپ کی فضائی افواج ہے۔

سن 1979ء میں جب میں فضائی افواج کے سپاہیوں کی امام سے ہونے والی ملاقات کی تقریب کے اسٹاف کا مسئول تھا اور ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، امام نے فرمایا کہ ہمیں 19 بہمن (8 فروری)والے دن کو یوم اللہ(اللہ کا دن ) سمجھنا چاہئیے اور اس بات نے اُس ماجرا کی عظمت کو دکھایا۔رہبر معظم کو بھی یاد ہے، وہ فرماتے ہیں جب فضائی افواج امام کے سامنے پریڈ کر رہی تھی، میں امام کے کنارے کھڑا ہوا تھا  اور اگر میں اپنے اُس دن کے واقعہ کو ایک جملہ میں خلاصہ کرنا چاہوں، وہ یہ ہے کہ اگر انقلاب کے مقابلے میں کسی رکاوٹ نے حائل ہونا تھا، وہ ختم ہوگئی ہے اور ہم کامیاب ہوگئے۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ کوئی بھی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ 8 فروری کے بعد، 11 فروری بھی آئے گی اور بہت ہی خطرناک کام تھا؛ اور فرمایا کہ فضائی افواج نے ایک عاشورائی کام انجام دیا اور اپنی استعداد کی ایک جھلک دکھلائی کہ اس استعداد کو جنگ میں بھی دکھایا گیا۔ 8 فروری کا دن ابدی ہے اور تاریخ  کا حصہ بن گیا ہے اور فضائی افواج کے ارکان ہر سال اسی دن، جسے فضائی افواج کے دن کا نام دیا گیا ہے، رہبر معظم سے ملاقات کرتے ہیں۔

11 فروری والے دن، فضائی افواج کی چھاؤنی جوشاہراہ حجت پر فضائی ٹریننگ سنٹر میں تھی، ہم وہاں تھے۔ ہم نے دیکھا کہ پچھلی رات، ٹی وی میں کام کرنے والے انقلابی افراد، امام کی آمد کی وڈیو جسے اُن کی آمد کے دن کاٹ دیا گیا تھا، اُسے 11 فروری کی رات دکھایا گیا تھا۔ ہمافری یونٹ میں پڑھنے والے طلباء جو ہمارے شاگرد تھے ، وہ ٹی وی والے کمرے میں پروگرام دیکھ رہے تھے، انھوں نے کھڑے ہوکر اپنے احساسات کا اظہار کیا اور صلوات بھیجی۔ ان طلباء جنہوں نے پہلے سے بھوک ہڑتال کی ہوئی تھی،  کی نگرانی اور کنٹرول کیلئے چند ٹینکوں کو رکھا گیا تھا۔ رات کے کسی پہر ان ٹینکوں کے عملے کی طلباء سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ ہمافروں نے بھی مظاہرہ کردیا۔ اُن میں سے ایک ٹینک پر چڑھا اور دروازے، کھڑکی اور دیوار پر گولہ مارا کر سب توڑ پھوڑ دیا۔ کوئی بھی پیچھے نہیں ہٹ رہا تھا۔ فضائی افواج کا کمانڈر  اپنا ریوالور لیکر آیا اور چند لوگوں کو مار کر زخمی کردیا، حتی ایک آدمی شہید ہوگیا۔ عوام بھی دیوار کے پیچھے جمع ہوگئی تھی، وہ آگ جلا کر نعرے لگا رہے تھے اور وہ فوجی حکومت کی راہ میں حائل ہوگئے تاکہ وہ اور افواج بھیج کر ہمافروں کا قلع قمع نہ کردے۔

میں الیکٹرونک استاد کے عنوان سے، سیکنڈ ہمافر درجہ کے ساتھ ڈیوٹی انجام دیتا تھا۔ صبح، جب میں پہنچا، افراد دروازے پر کھڑے تھے او ر انھوں نے آنسو سے لبریز آنکھوں کے ساتھ گذشتہ شب کی داستان بیان کی۔ میں نے جاکر الیکٹرونک کے اساتذہ اور وہاں کے تمام کارکنوں کو جمع  کیا اور مظاہرہ شروع کردیا۔ ہم چھاؤنی کے اصلی دروازے کے سامنے آگئے اور ہم خیابان تہران نو کی طرف سے باہر آنا چاہتے تھے۔ ہم نے جیسے ہی دروازہ کھولا، فوجی حکومت کے ایجنٹ اندر گھس آئے، پہلے تو انھوں نے ہوائی فائرنگ کی پھر ہم پر گولیاں برسانے لگے۔ ہمارے ہاتھ خالی تھے۔ ہم نے اُن سے مقابلہ کیلئے پتھر اور اینٹیں اٹھالیں، لیکن ہم نے دیکھا کہ ایسے کام نہیں چلے گا، اچانک میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو افسر نگہبان کے عنوان سے چوکیوں کے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔ میں اُس سے اسلحہ لینے کیلئے گیا، اُس نے نہیں دیا اور کہا کہ میں خود فائر کروں گا، ایک دفعہ پھر ہمارا ہاتھ خالی تھا۔ میں زور سے چلایا: لوگوں! اسلحہ خانہ کی طرف جاؤ۔ نگہبان کی مدد سے لاتوں اور جی تھری سے فائر کرکے ہم نے دروازہ کھول لیا۔ کہیں یہ بات نہ رہ جائے کہ اُس دن صبح جب میں اٹھا تو میں نے فوجی لباس کے ساتھ لانگ شوز پہن لئے تھے۔ جب کہ اُس لباس کے ساتھ، لانگ شوز نہیں پہنے جاتے تھے۔ میں نے شوز میں ایک خنجر رکھا اور اپنے گھر والوں سے خدا حافظی کی۔ میں نے کہا کہ: انشاء اللہ ہم آج جائیں گے اور کام تمام کردیں گے۔ گویا ہمیں الہام ہوا تھا کہ ایک ادھورا کام ہے کہ جسے ہم نے آخری مراحل تک پہنچانا ہے۔ ہم 11 فروری کو گئے اور حکومت پر آخری گولی چلادی، کیونکہ اب ہم نے مسلح جنگ شروع کردی تھی۔

ہم نے اسلحہ اٹھایا اور باہر نکلنے والے دروازے کے سامنے سے  ایک چھ منزلہ عمارت میں داخل ہوگئے۔ وہاں سے ہم فوجی حکومت کی گاڑیوں اور اطراف میں متعین گاڑد پر  مسلط ہوگئے اور انہیں شکست دیدی۔ میرے سامنے ایک جوان فائرنگ کر رہا تھا، اچانک اُس کی پیشانی پر گولی لگی اور وہ میرے برابر میں آکر گرا۔ وہ شہید طالب علم، شاہ مرادی اور ہمارا پہلا شہید تھا۔ ہم نے چھاؤنی کے دروازے کو کھول دیا اور لوگوں سے کہا کہ اندر آکر اسلحہ اٹھالیں۔ اُس دن ہم نے تہران نو کے پورے علاقے کو مسلح کردیا تھا۔

تقریباً شام کے چار بجے  فوجی حکومت کا اعلان ہوگیا  اور لوگوں نے سڑکوں کو خالی کردیا۔ اچانک امام کی طرف سے کچھ گاڑیاں آئیں اور انھوں نے کہا کہ امام نے  فوجی حکومت کو بالکل لغو کرنے کا اعلان کردیا ہے اور کہا ہے کہ فضائی افواج کے افراد کو تنہا نہ چھوڑیں۔ لوگ ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر نکل آئے اور ایک گھنٹے کے اندر ، پورے تہران نو کے علاقے میں مورچہ سازی کرلی۔ میں خود گواہ ہوں؛ سردیاں تھیں اور ایک عورت کے گھر کے سامنے کے ٹائلز  اکھڑ گئیں تھیں۔ اُس نے شکر کی ڈلیاں توڑنے والے آلے سے اُس کے نیچے کی  ریت کو  جمع کیا  اور ایک چادر میں بھر کر لوگوں کو دیا تاکہ لوگ اُس سے مورچہ بنالیں۔ لوگ بسیں، چولہے، الماریاں اور اپنے دوسرے وسائل لیکر آتے اور اُنہیں خیابان تہراہ نو کے آگے رکھ دیتے اور انہیں مورچے کے طور پر استعمال کرتے۔ سات یا آٹھ بجے تک  تعاقب اور فرار جاری رہا۔

ہمیں خبر دی گئی کہ کچھ لوگ ایک گیراج میں ہیں۔ ہم نے جاکر دیکھا تو تقریباً بیس سے تیس نگہبان افراد وہاں موجود تھے۔ ہم نے اُن کے قدموں کے نیچے فائر کئے، وہ تسلیم ہوگئے ، اُن کا اسلحہ لیکر لوگوں کے سپرد کیا۔ ہم نے اُنہیں اس حال میں پکڑا کہ وہ لوگ بنیان پہنے ہوئے تھے، اُنہیں چھاؤنی کے سپرد کیا۔ پھر ہم قاسم آباد سڑک کے کونے پر ایک کباب والے کی چھت پرگئے۔ ہم نے نماز پڑھی اور وصیت نامے لکھے۔ کچھ دوستوں نے ایک گروپ بنالیا اور ہر گروپ نے عہد کیا کہ ایک دوسرے کو چھوڑیں گے نہیں اور ہم نے وہاں پہلی مرتبہ صلواتی کباب کھائے۔ طے پایا کہ اگر اگلے دن انقلاب کامیاب ہوگیا تو کام کو جاری رکھیں گے وگرنہ یہی گروپ آقا کے دفتر جائے گا تاکہ پتہ چلے اب دستور کیا ہے۔ تقریباً رات کے بارہ بجے ہم  شاہراہ سبلان پر موجود ایک عمارت کی چھت پر گئے، میرے جاگنے کےوقت میرے ساتھ ایک اور سپاہی بھی تھا۔ شاہراہ تہران نو کے دونوں اطراف میں مسلح لوگ تھے۔ لوگوں نے شاہراہ سبلان کے ابتداء میں جو مسجد آدینہ تھی، اُسے اسلحے اور وسائل کا ڈپو بنایا ہوا تھا۔ ہمارے لوگ، جنگی افراد میں تبدیل ہوگئے تھے۔ بارش شروع ہوگئی تھی کہ  میں فضائی افواج کی تیس میٹر والی سڑک سے تہران نو کی طرف آنے والے ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کی طرف متوجہ ہوا۔ میں نے دوسروں کو اطلاع دینے کیلئے جلدی سے سپاہی کو بھیجا ۔ افراد گئے اور اُن سے جھڑپ شروع ہوگئی۔ دو دو کرکے آرہے تھے اور اُن میں سے ہر ایک سڑک کی ایک طرف سے گولے برساتا۔ صبح آٹھ بجے تک ٹینک اور فوجی گاڑیاں آتی رہیں  اورسب کو شکست ہوئی۔ صبح کی اذان کی آواز سے ہم اپنی طرف متوجہ ہوئے۔ ہمارے کچھ دوست شہید ہوچکے تھے اور ہم ان کے حال پر رشک کر رہے تھے کہ ہم شہید نہیں ہوئے تھے۔

12 فروری کی صبح دس بجے، جب فوج کے اسٹاف نے معاملہ کو دیکھا، ایک اضطراری میٹنگ رکھی اور کمانڈنگ کونسل بنائی۔ سرکلر جاری ہوا اور غیر جانبداری کا اعلان ہوا اور دستور دیا گیا کہ فوجی یونٹس چھاؤنیوں میں واپس آجائیں۔ فوج کے امام اور انقلاب سے ملحق ہونے کی اصلی وجہ، حضرت امام کی اچھی اور بہترین تدبیریں تھیں۔ سن  1963ء سے لیکر سن 1979ء تک، ہر اشتہار اور ہر بات میں، امام عہدیداروں اور فوجیوں سے بہت ہی باوقار انداز میں بات کرتے۔ مثال کے طور پر حضرت امام کی آمد کے موقع پر، حضرت امام کی استقبال کمیٹی میں موجود ہمارے دوست، جناب کرنل بیوک سیدین جو ہیلی کاپٹر کے پائلٹ تھے، اُن کے پاس لیفیننٹ کا عہدہ تھا اور مورد اعتماد تھے، سے رابطہ کرکے کہا گیا کہ آجائیں: کیونکہ  لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اور ممکن ہے کہ ٹریفک جام ہوجائے  اور ہم بہشت زہرا نہ پہنچ پائیں۔ اُن سے کہا گیا کہ ایک جگہ سے امام کو سوار کرکے اُنہیں بہشت زہرا تک پہنچا دے۔ وہ امام کو سوار کرنے کے انتظار میں انقلاب چوک کے ایک کونے پر کھڑا ہوگئے۔ حاج احمد خمینی اپنے دادا کی وجہ سے بہت  بے چینی کی حالت میں تھے اور ویڈیوز میں اس  بے چینی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ جناب علی اکبر ناطق نوری اور حاج احمد امام کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں سوار ہوگئے اور انھوں نے امام سے کہا کہ یہ پائلٹ اور ہیلی کاپٹر تو فوج کا ہے، یہ ہمیں کہاں لے جا رہا ہے؟ امام ہمیشہ کی طرح اپنی ابروؤں کو  چڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں جو بھی پریشان ہے، وہ ہیلی کاپٹر سے نیچے اتر سکتا ہے، جناب پائلٹ آپ حرکت کریں! امام کے اس اعتماد نے ہمارے دلوں کو فتح کرلیا تھا کہ ہم نے 8 فروری والے دن وہ کام انجام دیئے۔ میں آج اُن دنوں کی یاد میں غرق ہوں کہ یہاں جماران ہال میں، ہر چار ٹائلز ایک آدمی کے پاس تھیں اورہم کوشش کر رہے تھے کہ حتی ایک اور آدمی کو امام سے ملاقات کے لئے لے آئیں؛ سب اپنے آپ کو امام کا فدائی سمجھتے تھے۔"

 

امام خمینی کا مجاہدین کے فرزندوں سے رابطہ اور تعلق

پروگرام میں دوسرے مقرر جناب غلام علی رجائی تھے۔ انھوں نے کہا: "میں دفاع مقدس میں شروع سے لیکر آخر تک حاضر رہا، دوسری طرف سے میں جنوب کا رہنے والا بھی ہوں اور میرے پاس بہت سے واقعات ہیں۔  میں نے امام کے بارے میں "سیرت امام" کے عنوان سے ایک پانچ جلدی کتاب لکھی ہے جو تقریباً سات یا آٹھ مرتبہ زیور طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے؛ یہ کتاب شاید امام کی شخصیت کے بارے میں واحد موضوعی کتاب ہے۔"

انھوں نے مزید کہا: "میں فتح المبین آپریشن میں نشرو اشاعت کا انچارج تھا۔ تعمیراتی کام انجام دینے والے ادارے جہاد سازندگی، فوج اور سپاہ کو بہت مشکل سے بجٹ دیا گیا اور ہم کچھ لوگوں کے ساتھ اس امام بارگاہ (جماران) میں آئے۔ اُس دن جناب محسن رفیق دوست نے بھی گفتگو کی اور میں جو کہ اُن کے برابر میں بیٹھا ہوا تھا، میں نے دیکھا کہ اُن کے پیر کانپ رہے ہیں؛ امام کی شخصیت ایسی تھی کہ جو بھی اُن سے گفتگو کرتا، ایسا لگتا  جیسے اُس شخص کو بجلی کی تاروں سے وصل کردیا گیا ہو! اگر آپ محسن رفیق دوست کی قذافی سے ہونے والی ملاقات والے واقعہ کو سنیں، آپ کو پتہ چل جائے گا کہ انھوں نے اپنی باتوں سے قذافی کو کس قدر سٹپٹاکر رکھ دیا تھا، لیکن اُس دن اُن کی ٹانگیں امام کے رعب سے کانپ رہی تھیں۔ حتی ایک مرتبہ ایک شخص امام کو دیکھتے ہی سکتہ میں چلا گیا۔

اُس دن امام کے داخل ہوتے ہی سپاہیوں نے تقریباً پانچ منٹ تک گریہ کیا؛ اس طرح سے کہ جب بھی امام اپنی بات کا آغاز کرتے، چند مرتبہ اُن کی بات کٹ گئی اور انھوں نے وہ معروف جملہ کہا کہ مجھے آپ کے اس خوشی میں رونے سے  لذت محسوس ہو رہی ہے۔ امام نے اُس دن ایسے جملے کہے کہ جنہیں میرے لئے آج بھی ہضم کرنا سخت ہے۔ انھوں نے کہا ہمیں فخر ہے کہ ہم ایسی فضا میں سانس لے رہے ہیں کہ جس فضا آپ مجاہدین سانس لیتے ہیں۔ جب امام قم میں بیمار ہوئے، تہران کے راستے میں، برفباری کے باوجود، انھوں نے ایمبولنس میں نماز شب پڑھی۔ ایسا آدمی جس نے کسی بھی حالت میں اپنی نماز شب قضا نہ کی ہو، وہ مجاہدین کی نسبت اس حد انکساری اور عاجزی رکھتا تھا۔"

جناب رجائی نے کہا: "حسین ثقفی، امام کی زوجہ کے بھائی تھے۔ جس زمانے میں جناب خاتمی وزیر ارشاد تھے، وہ اُن کے دفتر کے رئیس تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہم امام کی خدمت میں تھے اور انھوں نے ہفتہ دفاع مقدس کی مناسبت سے ایک پیغام لکھا تاکہ اُسے ریڈیو پر پڑھا جائے، لیکن تھوڑی دیر بعد کہا کہ پیغام کو واپس لے آؤ۔ امام سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کے ہاتھ سے لکھی جانے والی تحریر فیئر ہوگئی ہے؟ انھوں نے کہا پہلی تحریر ہے؛ بہت بعید ہے کہ کسی کی پہلی تحریر میں کوئی کانٹ چھانٹ نہ ہو۔ جب وہ کاغذ اُن کے ہاتھوں میں آیا، تو انھوں نے فاؤنٹین پین سے کچھ تبدیلی کی اور کہا اب ریڈیو والوں کو پڑھنے کیلئے یہ کاغذ دیدو۔ جناب ثقفی نے امام سے پوچھا کہ کیا تبدیلی کیا ہے؟ امام نے کہا کہ میں نے پیغام میں لکھا ہوا تھااے میرےمجاہد بیٹوں! میں اپنی پوری لگن سے تمہارے لئے دعا کرتا ہوں، لیکن میں نے خود سوچا تو دیکھا کہ یہ بات صحیح نہیں ہے، کیونکہ میری پوری لگن دعا کیلئے نہیں ہے اور میں پورے دن میں دوسرے کام بھی انجام دیتا ہوں، میں نے اس کی اصلاح کردی اور لکھ دیا بہت زیادہ لگن سے۔ امام اپنے جملوں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ احمد آقا قسم کھا کر کہتے تھے کہ میرے والد جس طرح امام بارگاہ میں آتے تھے اسی طرح گھر میں بھی رہتے تھے، سوائے اس کے کہ گھر میں تکلفات ختم ہو جاتے تھے۔

مرحوم شہید مہدی عراقی کہتے تھے کہ نوفل لوشاوتو میں لوگوں نے چاہا کہ امام کیلئے سادہ کھانا لیں جیسے کوکو لے لیں، لیکن امام ناراض ہوگئے اور کہا میں نے کل چاول کھائیں ہیں، آپ لوگ چاہتے ہیں یہ کہیں کہ خمینی سادہ ہے؟ یہ سادگی نہیں ہے۔ ایک مؤلف ہیں کہ جن کا میں نام لینا نہیں چاہتا، اُس نے امام کی والدہ کی توصیف میں کہا تھا: "عالمہ فاضلہ ماں ․․․" امام نے اُ س سے کہہ دیا کہ یہ کیسی باتیں ہیں؟ میری ماں نے ایک کلاس بھی نہیں پڑھی ہے اور وہ حتی ایک کلمہ بھی نہیں لکھ سکتی تھیں!"

انھوں نے مزید کہا: "میں نے نہیں سنا کہ امام نے کسی کے سامنے کہا ہو کہ میں حقارت کا احساس کرتا ہوں؛ مثلاً یہ کہا ہو کہ اگر میں اُس دن مراجع کرام کے ہاتھوں کا بوسہ لیتا تھا، آج میں طلباء کے ہاتھوں کو چومتا ہوں۔ امام نے صرف مجاہدین کے سامنے کہا کہ میں حقارت کا  احساس کرتا ہوں؛ ریاکاری سے دور مجاہدین اور یہ سامنے والے کا احساس تھا۔ میں ایک دفعہ اسی امام بارگاہ کے ایک کمرے میں امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے پاس مجاہدین کیلئے لے جانی والی ایک تھیلی تھی جس میں سروں پر باندھنے والے پٹیاں اور سکے (کھلے پیسے) تھے۔ امام نے تھیلی کے اندر چند مرتبہ اپنا ہاتھ گھمایا۔ میں اُس تھیلی کو خیبر آپریشن سے پہلے اپنے ساتھ محاذپر لے گیا۔ خدا گواہ ہے اس تھیلی میں سے صرف چند پٹیاں بچیں تھیں کہ مجاہدین نے وہ بھی چھین لیں اور آخر میں اُن پٹیوں کے دھاگے دھاگے کردیئے اور ہر کسی نے تبرک کے طور پر ایک دھاگہ اٹھالیا۔"

جناب غلام علی رجائی نے کہا: "ہم سن  1984ء میں کربلا ہیڈ کوارٹر میں تھے۔ پارلیمنٹ کے انتخابات  ہونے تھے اور مجاہدین کو بھی حتماً ووٹ ڈالنا تھا۔ امام نے کہہ دیا تھا کہ شرعی وظیفہ ہے اور سب کو چاہیے کہ وہ ووٹ ڈالیں، لیکن کسی کے پاس اپنا شناختی کارڈ نہیں تھا۔ وزیر داخلہ نے سختی سے کہا تھا کہ حتماً شناختی کارڈ کے ساتھ ہی ووٹ ڈالا جائے۔ میں نے فون کیا اور سپاہ میں امام کے نمائندے جناب شیخ فضل اللہ محلاتی سے بات کی۔ انھوں نے بہت ہی سختی سے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا۔ اُس کے بعد  میں نے امام کے دفتر کے ایک رکن جناب محمد علی انصاری کو فون کیا اور اُنہیں اس مشکل سے آگاہ کیا، انھوں نے کہا کہ دس منٹ بعد فون کریں۔ میں نے دوبارہ فون کیا  تو انھوں نے کہا کہ امام نے کہا ہے اُسی جنگی کارٹ کے ساتھ جائیں اور ووٹ ڈالیں؛ درحالانکہ امام قوانین کے بہت پابند تھے، اتنے پابند کہ عشرہ محرم  کے دوران فرانس میں اُن کے گھر کے اندر ایک بھیڑ کو ذبح کیا گیا اور اُس سے گوشت کا سالن بنایا،  ایک آدمی آیا اور اس نے آکر امام کے کان میں کہا کہ اس بھیڑ کو یہاں پر ذبح نہیں ہونا چاہیے تھا، فرانس کے قانون کے مطابق اس بھیڑ کو رہائشی علاقے سے دور ذبح ہونا چاہیے تھا، لہذا قانون کے خلاف ہے؛ امام نے جیسے ہی یہ بات سنی، گوشت کے سالن کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔"

اسی طرح انھوں نے کہا: "ہم کربلائے چار آپریشن میں شکست سے دوچار ہوگئے۔ ہم خاتم ہیڈ کوارٹر میں سوگ منا رہے تھے کہ جب فوجی لوٹ کر آئیں گے، ہم کس طرح سے اس شکست کا جبران کرسکیں گے ؟ جنگ کے کمانڈر نے فوراًٍ ہی فیصلہ کیا کہ آپریشن ہو اور اس شکست کی تلافی کی جائے ، اصل میں کربلائے پانچ آپریشن تشکیل دیا گیا۔ ایک طرف سے ہم مجاہدین سے کہہ رہے تھے کہ وہیں ٹھہرے رہیں، کیونکہ ہم آپریشن کرنا چاہتے ہیں، اور دوسری طرف سے بھی اگر ٹھہرتے ہیں، عراق کو خوشی ہوتی ہے، کیونکہ اُس کی پوزیشنیں اُسی طرح قائم رہتیں۔ میں نے امام کو ایک خط لکھا اور پورا ماجرا بیان کیا کہ اس خط کا متن "شریک صلوات" نامی کتاب میں چھپا ہے۔ امام نے جواب میں کہا کہ مذکورہ  فرض میں محاذ پر ٹھہرے رہیں۔ جناب محسن رضائی نے امام سے پوچھے گئے سوال کے جواب کو مجاہدین کے سامنے پڑھ کر سنایا اور کہا کہ کسی کو بھی چھٹی نہیں ملے گی۔ امام تمام عظمت اور بڑائی کے باوجود جو اُن میں تھی اور عارفوں کے پیر و مرشد تھے، جب وہ مجاہدین کو دیکھتے وہ ایک قسم کے شوق اور جوش میں مبتلا ہوجاتے اور شاید اُن کم جگہوں پر جہاں امام کی باٹ کٹ جاتی تھی، وہ زمانہ تھا جب وہ مجاہدین کو اس امام بارگاہ میں دیکھتے تھے۔ اکثر مجاہدین نے امام کو نہیں دیکھا  تھا؛ خود اُن کے بقول اَن دیکھے امام سے عشق ہے۔"

 

شناخت، حقیقت اور روحِ ایثار

پروگرام کے تیسرے مقرر امام کی یادگار (پوتے)حجت الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی تھے۔ انھوں نے کہا: "اسکول کے زمانے میں ہمارے ایک استاد تھے جنہوں نے ایک مرتبہ ایک سوال کیا اور اُن کا سوال بہت ہی قابل غور اور قابل توجہ تھا۔ انھوں نے پوچھا کہ انسان کا حجم کتنا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے خود ہی بتایا کہ انسان کا حجم اس چیز سے عبارت ہے کہ اُس کی تاثیر کا  معیار کیا تھا ، اُس کی تاثیر کتنی حدود تک پھیلی اور اُس نے کتنے عرصے میں اپنا اثر دکھایا اور اگر آپ نے اس مسئلہ کے جواب کو ڈھونڈ لیا، اُس وقت آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک انسان کا حجم کتنا ہے۔ ایک آدمی کے معیار کی تاثیر جاننے کیلئے، ہمیں اُس کے خیالات کے اندازے کے معیار کا معائنہ کرنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ اُس کی تاثیر کا معیار کتنا ہے اور یہ دیکھنا ہوگا کہ اُس نے اس زمانے کی کن حدود میں اس تاثیر کو ایجاد کیا ہے اور یہ تاثیر کس زمانے تک باقی رہے گی۔ میرے خیال سے اس تعریف کے مطابق، موثر ترین شخصیت یا اس طرح کہا جائے ، سب سے زیادہ حجم والی ہستی، پیغمبر اکرم (ص) کا وجود نازنین ہے ۔ پوری تاریخ سے لیکر آج تک مسلسل اُن کی تاثیر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم اپنے معاشرے میں بہت آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ اس گفتگو کا ایک مصداق، حضرت امام (رہ) کی ذات ہے اور ایک طرح سے اگر ہم اس جواب کو  واقعات کے ساتھ ربط دیں تو ایران کا اسلامی انقلاب بھی اس گفتگو کا ایک مصداق ہے۔ انقلاب نے ہمارے زمانے میں جس حد تک اثر ڈالا ہے اور آئندہ بھی جو اس کی تاثیر ہوگی اور جو تبدیلی ایرانی معاشرے اور ملک کی چاروں سرحدوں سے باہر ایجاد ہوئی ہے، قابل توجہ ہے۔ آپ تاثیر کے جغرافیہ پر بھی توجہ کریں، انقلاب کی گونج ایران کی سرحدوں سے باہر، ایران کی سرحدوں کے اندر سے کم نہیں۔ انسانوں کا معاشرے اور سماجی زندگی کی طرف لوٹ آنا ، ایک ایسی حقیقت ہے جو انقلاب کے بعد تشکیل پایا ہے۔ تیسرا مورد بھی تاثیر کی تاریخ ہے کہ اس وقت انقلاب کو گزرے ہوئے چالیس سال ہوچکے ہیں۔ اسلامی انقلاب کا حجم اُس چیز سے کہیں بڑا ہے کہ شروع میں ممکن ہو ہم نے اُس پر توجہ کی ہو اور اس کی وجوہات بھی ہیں۔ ایسی حقیقت کیلئے کیوں اتنا بڑا حجم ظاہر ہوا؟ میں بہت سنجیدگی سے معتقد ہوں کہ اگر ہم نے اس کی وجوہات کی طرف توجہ کی اور تکلف کو ایک طرف رکھا، ہم اس نغمے کی آواز کو مزید پھیلا سکتے ہیں اور محکم کرسکتے ہیں۔ اگر ہم نے اسے وجود میں لانے والے کی طرف توجہ نہ کی، خدانہ کرے ہم اس چیز کا مشاہدہ کریں  گے کہ یہ مختلف حصوں اور مقامات پر، حتی خود ہمارے قریب  تنزلی اور پستی کا شکار ہو۔

اہم ترین وجوہات میں سے ایک جس نے انقلاب کو اہم کردیا، وہ ایثار کی بحث ہے۔ ضروری نہیں کہ ایثار کرنا صرف دفاع مقدس سے مخصوص ہو، اُس کا عروج ہمیں دفاع مقدس میں دکھائی دیتا ہے، لیکن ایثار کرنے کی حقیقت یعنی خود کو بھلا دینا۔ اس اپنی ذات سے صرف نظر کرنے کیلئے ذہنی آمادگی کی ضرورت ہوتی ہے، یعنی ہمیں ایک تجزیہ و تحلیل میں احساس کرنا چاہیے کہ اگرمیں یہاں اپنی جان، مال، عزت اور سہولیات قربان کردوں، توکل کرلوں، خوف کو اپنی جان کے بدلے خرید لوں، اپنے دل سے لالچ نکال دوں، ایک بڑے عمل میں، بلند و بالا چیزیں مجھے نصیب ہوں گی، میں خدا سے معاملہ کرتا ہوں اور خداوند متعال سے بڑی بڑی چیزیں حاصل کرتاہوں۔ انقلاب کے کامیاب ہونے کی یہ وجہ ہے کہ اپنے آپ کو نہیں دیکھا گیا۔ایثار گری کی روح خودسے گزرجانا ہے۔ انقلاب کی شناخت ایثار گری سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں یہ کام موثر باقی رہے، ہمیں اس پہلو کو اپنے وجود کے اندر پروان چڑھانا ہوگا اور پہلے خود سے شروع کریں۔

انقلاب بہت عظیم ہے اور یہ عظمت اُس شخص کی نگاہ میں جو اسے باہر سے دیکھ رہا ہے اُس شخص سے کئی گناہ زیادہ جو اسے اندر سے دیکھ رہا ہے۔ اس عظمت کی علت ہے اور وہ یہ ہے کہ انقلاب کے اندر ایک شناخت نے سر اٹھایا جس کا نام ایثار ہے اور یہ ایثار ایک شناخت اور حقیقت ہے اور اس حقیقت کی تعریف یہ ہے کہ ہمیں خود سے صرف نظر کرنا چاہیے اور امام نے معاشرے میں ایثار کی روح پھونکی۔"

 

ہماری بہترین نشستوں میں سے ایک

حوزہ ہنری کے سربراہ محسن مؤمنی شریف نے پروگرام کے آخر میں کہا: "گذشتہ سالوں میں ایک موقع نصیب ہوا کہ ہم محترم مؤلفین کے ساتھ، رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کے انقلاب اسلامی سے متعلق واقعات لینے جائیں۔ ایک دن جب  وہ واقعہ سنانے آئے، تو پتہ چل رہا تھا کہ اُنہیں کسی بات پہ شکوہ ہے۔ میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سمجھ گیا تھا کہ جب رہبر حضرت امام کے بارے میں بات کرتے ہیں، اُن کی حالت بدل جاتی ہے اور وہ خود سے بے خود ہوجاتے ہیں اور جہاں تک کہ میں نے اُن سے سوال کیا تھا، میں نے اُن سے حضرت امام کے بارے میں پوچھا تھا۔ انھوں نے اس سوال کے بعد اپنے شکوہ کو بھلا دیا اور ایک خاص شیدائی کی طرح امام کا واقعہ سنایا۔ ہماری وہ نشست ہونے والی نشستوں میں سے بہترین  نشست تھی؛ ایساکہ اذان کی آواز سننے سے وہ اپنی حالت میں واپس آئے۔"

یادوں بھری رات کے "مبشر صبح" نامی پروگرام کے آخر میں آرٹ شعبوں کے صوبائی مراکز کے دفاتر میں دفاع مقدس کے دلاوروں کے واقعات پر مشتمل 21 تولید شدہ عناوین کی تقریب رونمائی ہوئی اور اُن کے لکھنے والوں اور راویوں کی قدر دانی کی گئی۔



 
صارفین کی تعداد: 4378


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔