تنہائی والے سال – تیئیسواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-11-13


جب ناشتہ ختم ہوا، نگہبان دوبارہ آگئے۔ ایک دروازے کے سامنے اور بقیہ  بھی راہداری میں ٹوائلٹ تک  کھڑے ہوگئے۔ جاتے اور واپس آتے وقت ہماری مار پیٹ سے پذیرائی ہوئی۔ اس دفعہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے ساتھ ایک چیز لے گیا؛ ایک سوپ کا پیالہ دھونے کیلئے، کوئی پانی کا جگہ پانی بھرنے کیلئے اور ۔۔۔ اسی ترتیب سے، تمام کمروں  والے ٹوائلٹ گئے۔

ہمارے کمرے میں کھڑکی کے سامنے سےزندان کا کھلا احاطہ اور دوسرے کمرے اچھی طرح سے دکھائی دیتے تھے۔ تقریباً ۶۰ سے ۷۰ لوگ جن کا تعلق مختلف طبقات سے تھا، وہاں پر قیدی تھے؛ بوڑھے اور جوان، مختلف شکل و صورت اور مختلف شخصیات کے حامل کہ ہر کسی نے الگ طرح کا لباس پہنا ہوا تھا۔ زیادہ تر عرب تھے پھر بعد میں ہمیں پتہ  چلا کہ اُن کے درمیان دو انگریز بھی ہیں۔ زندان میں موجود زیادہ تر قیدی عراقی فوجی تھے۔ صرف ایک ایسا قیدی تھا کہ جس کے ساتھ نگہبان  بڑے احترام سے پیش آتے تھے  اور اُس کی کوٹھڑی میں بیڈ بھی رکھا ہوا تھا۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک عراقی جرنل ہے! بعض کی شکل و صورت سے پتہ چل جاتا تھا کہ وہ پڑھے لکھے  افراد  ہیں۔

اُس دن واش روم سے فارغ ہونے کے بعد، ایک قیدی جس کے ہاتھ میں جھاڑو تھا اور وہ صفائی کرنے میں مشغول تھا، وہ آہستہ سے ہمارے کمرے کے  سامنے آیا  اور سلام اور تعارف کروانے کے بعد اُس نے بڑی احتیاط اور دردمندی سے کہا:

- اگر آپ کے پاس قرآن یا کوئی دعا کی کتاب ہے تو برائے مہرانی مجھے دیدیں! اگر نہیں ہے تو مجھے آیت الکرسی لکھ کر دیدیں۔

میں نے اُس کیلئے آیت الکرسی لکھی اور ایک کونے  سے اُس کے نزدیک پھینک دی۔ بہت زیادہ شکریہ ادا کرنے کے بعد اُس نے اُسے لباس میں چھپالیا۔

کچھ دیر بعد، ایک نگہبان اپنے ہاتھ میں ایک سینی لیکر آیا اور بعض کمرے والوں کو دوائی دی۔ آنے والے دنوں میں ہمیں پتہ چلا کہ ہر کچھ دنوں بعد ایک دفعہ ڈاکٹر آتا ہے  اور نگہبان دوائیوں کو اسی ترتیب سے دن میں صرف ایک دفعہ تقسیم کرتا ہے۔

نگہبانوں میں سے ایک آدمی کے علاوہ باقی سب ہمیشہ چکر لگاتے رہتے تھے اور وہ اپنا کھانا احاطے میں موجود گول میز پر  کھاتے تھے  اور کھانے کے بعد عام طور سے شراب لاتے تھے اور بلند آواز میں قہقہے لگاتے تھے۔ اُن کی آنکھوں سے قساوت اور بے رحمی  بری طرح ٹپک رہی ہوتی تھی۔

ظہر کے قریب، ایک عرب قیدی نے کسی نگہبان کو آواز لگائی، لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ بالآخر چند دفعہ آوازیں لگانے کے بعد، نگہبان نے اُس بیچارے عرب  کو جواب دیا:

-  چپ ہوجاؤ!

اُس عرب قیدی نے ناچاری کی حالت میں کہا:

- میری حالت صحیح نہیں ہے، مجھے ٹوائلٹ جانا ہے۔

نہیں ہوسکتا!

اس دفعہ وہ عرب قیدی درخواست کرنے لگا اور اُس نے التماس کرتے ہوئے کہا:

-  مجھے دست لگے ہوئے ہیں، دروازہ کھولو، میں برداشت نہیں کرسکتا!

نگہبان گویا بہت زیادہ غصے میں آچکا تھا، اُس نے چلاتے ہوئے کہا:

-  نہیں ہوسکتا، جو کرنا ہے وہیں کرلو، ایسا ہوگیا ہے ویسا ہوگیا ہے ۔۔۔

اور اُس نے بھی مجبوراً جو کرنا تھا جگ میں کردیا!مجھے یقین ہے کہ بعد میں اُسی جگ کے اندر پانی اور چائے ڈالی گئی ؛  چونکہ ہر کمرے والے کے پاس ایک سے زیادہ جگ نہیں تھا اور کسی کو ایک سے زیادہ رکھنے کا حق بھی نہیں تھا۔

شام کو ہوا کیلئے چہل قدمی کرنے والی جگہ اور زندان کے سامنے ایک پانی کا ٹینکر  آکر کھڑا ہوگیا اور اُس میں لگے پانی کے بڑے سے نل کو کھول دیا گیا۔ عراقی قیدی کپڑے پہنے ہوئے ایک ایک کرکے پانی کے نیچے  جاتے اور بہت تیزی سے خود کو اور اپنے کپڑوں کو دھوتے اور اُسی حالت میں کمروں میں واپس چلے جاتے! البتہ جاتے اور واپس آتے وقت، نگہبانوں کے ہاتھ میں جو بھی ہوتا وہ اُس سے اُن کے منہ اور سر پر مارتے تھے۔

مجھے آہستہ آہستہ وہاں کے ماحول اور حالات کو پہچان لینا چاہیے تھا۔ کچھ عرصے بعد ایک نگہبان آیا اور چیختے چلاتے ہوئے بولا:

-  دیوار کی طرف منہ کرکے بیٹھو، باتیں کرنے اور باہر کا نظارہ کرنا منع ہے، وگرنہ ۔۔۔۔

ایک دفعہ پھر گذشتہ روز کی طرح سب کو ایک ایک کر کے نکالا، کوڑے، چھڑی اور پائپ سے پٹائی لگا کر واپس  بھیج دیا۔ ہم اس بات کی طرف متوجہ ہوئے کہ جاتے اور واپس آتے وقت ہوئے ہمیں تیزی سے دوڑنا چاہیے۔ اگر کسی قیدی کے ہاتھ سے کوئی چیز غلطی سے گر جائے  تو نگہبان اُسے ایک دوسرے کو پاس دیتے تھے اور قیدی کو مار بھی رہے ہوتے تھے، اُس کا مذاق اڑاتے ہوئے اور ہنستے ہوئے اُس سے کہتے:

-  جاؤ لے لو!

ایسا لگتا تھا  اگر کوئی قیدی زندان کے سخت اور طاقت فرسا قوانین  کے بر خلاف  کسی خطا کا شکار ہوجائے تو اُسے وحشیانہ طور پر سخت سزا دی جاتی ہے۔

میں لوگوں کے کمروں کے ساتھ سے  گزرتے وقت، کم سے کم اُن لوگوں سے اظہار ہمدردی کرتا تھا۔ ایک شخص نے پوچھا:

- داستان (چینل) کا کیا ہوا؟

- میں نہیں لگاتا، خطرناک ہے!

کسی دو سرے شخص نے پوچھا:

- سگریٹ ہے؟

اگر میرے پاس ہوتی تو میں اُسے ضرور دیتا ، لیکن میرے پاس نہیں تھی۔

صفائی ستھرائی کا کام عراقی قیدی انجام دیتے تھے اور اُن میں سے بعض لوگ ہم سے چھپ کر باتیں کرتے تھے۔ جب اُنہیں پتہ چلتا کہ ہم ایرانی  ہیں تو وہ رغبت و دلچسپی کا اظہار کرتے۔ عام طور سے اُنہیں بعث پارٹی کا مخالف سمجھا جاتا تھا کہ جن میں سے بعض لوگوں کا جرم سیاسی تھا اور وہ نظام کے خلاف تھے اور بعض دوسرے افراد کا تعلق بھی ظالم فوج سے فرار کرنے والوں میں سے تھا۔ جناب جرنل کے بارے میں بھی کہا جاتا کہ وہ ایک ایسے لشکر کا کمانڈر تھا جو ایران سے شکست کھا گیا تھا، دراصل اُس کا جرم شکست کھانا تھا!

اگلے دن ہمیں پتہ چلا وہ لوگ کمروں اور سامان کی تلاش لینا چاہتے ہیں۔ ہم سمجھ گئے کہ وہ پہلے افراد کو کمروں سے باہر نکالیں گے  پھر کمرے اور  اُس میں موجود تمام سامان کی مکمل تلاشی لیں  گے۔ اُس کے بعد لوگوں کی دقیق جسمانی تلاشی کے بعد اُنہیں کمروں میں واپس بھیجا جائے گا اور جس کے پاس سے بھی کوئی ممنوعہ چیز ملی تو دالان میں فوٹبال کھیلنے والے نگہبان اُس کے منتظر ہوں گے!

ہم نے خدا سے چاہا کہ چچا (ریڈیو) کو ہمارے لیے بچا کر رکھے؛ کیونکہ وہ اُن سخت حالات اور ہر جگہ سے بے خبری کے عالم میں ہمیں ہمت اور حوصلہ دیتا  تھا اور وہ ہمارے لیے ایران، امام، لوگوں اور رشتہ داروں کی طرح عزیز اور دوست تھا۔ وہاں پر خدا اُس چچا (ریڈیو) کے ذریعے ہماری جسمانی اور نفسیاتی حالت کو بہتر اور محفوظ رکھتا تھا۔

ہمارے پاس بعض ممنوعہ چیزیں جیسے سگریٹ، ماچس، کاٹنے والی دستی چیزیں اور انقلابی اشعار تھے جنہیں ہم نے سطحی اور سادہ طریقے سے چھپا دیا تھا تاکہ اُنہیں جلد ہی ڈھونڈ لیا جائے اور اس طرح وہ دوسری چیزوں کو زیادہ دقت سے تلاش نہ کریں۔

جب ہماری باری آئی اور ممنوعہ چیزیں باہر نکلیں، وہ اپنے کام سے اتنے زیادہ مطمئن ہوگئے تھے کہ پھر انھوں نے ہمارے سامان کو زیادہ دقت سے نہیں ٹٹولا۔ اس کے باوجود  کے  ہم نے – پہلے سے خریدی ہوئی –  ٹھیک ٹھاک مار کھائی، لیکن ہم نے اپنے مہربان خدا کا بہت شکر ادا کیا کہ ہمارے چچا کی حفاظت کی  اور ہم ایک بڑا حادثہ پیش آنے سے بچ گئے۔

دن اسی طرح گزر رہے تھے اور کوئی بھی ہمیں زندان کے مسئولین سے ملانے والی بات پر کان تک نہیں دھر رہا تھا تو جواب کہاں سے دیتے! ہم گندگی میں غوطہ ور تھے۔ پورا جسم سوجھ چکا تھا اور سوجھے بدن پر چوٹ لگنے سے بہت ہی درد ہوتا تھا۔ ہمارے بدن کے کچھ حصوں کا خون منجمد ہوچکا تھا، ہمارے چند لوگوں کے سر اور چہرے پر چوٹیں لگی ہوئی تھی اور ہم بہت تکلیف میں تھے۔

عراقی قیدیوں کے درمیان کچھ بہادر مولانا افراد تھے جن  کے چہرے بہت نورانی تھے اُن کے بات کرنے کے انداز اور اُ ن کے رویے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ پڑھے لکھے  عقلمند لوگ ہیں؛ جب اُنہیں پتہ چلا کہ ہم ایرانی ہیں، وہ ہمارے سامنے سے گزرتے وقت ہم سے محبت اور دوستی کا اظہار کرتے تھے۔ زندان کے تمام افراد کو ملا کر زیادہ تر قیدی شیعہ تھے کہ اس بات کا اذان اور نماز کے وقت صحیح سے اندازہ ہوتا تھا۔

ہم نے وہاں پر بیس سے زیادہ چند روز گزارے اور  اگر ہم آخر عمر تک وہاں رہتے تو  یقیناً کسی کو بھی ہماری خبر نہیں ہوتی۔ احتمالاً کوئی انسان بھی ایسی خوفناک جگہ پر زیادہ عرصے تک نہیں رہ سکتا۔ الحمد للہ ہم میں سے کسی  نے بھی اس عرصے میں ضعف و سستی کا اظہار نہیں  کیااور سب نے بھرپور صبر اور حوصلے سے سختیوں کو برداشت کیا اور ہر کسی کی یہی کوشش تھی کہ وہ دوسروں کو حوصلہ دے اور اُن سے ہمدردی کرے۔

خدا کے لطف و کرم سے کسی کی جان جائے بغیر، ہمیں دوبارہ پہلے والے کیمپ میں اور ہمارے اپنے دوسرے فلور پر واپس بھیج دیا گیا۔

شکنجوں سے باہر نکلتے وقت، ایک نگہبان نے دھمکی دیتے ہوئے رعب دار لہجے میں کہا:

-  اب نماز جماعت نہ پڑھنا اور شور شرابہ نہیں کرنا!

خدایا، تو ہی جانتا ہے اور بس!

ہمارا نماز پڑھنا، عراقیوں سے ضد کی وجہ سے نہیں تھا؛ بلکہ ہم یہ کام اپنے وظائف کی  ادائیگی کی وجہ سے کرتے تھے اور نماز قائم کرنے پر اعتقاد رکھتے تھے۔

واپس آنے کے بعد، ہم نے نیچے والے افراد کو چینل کے ذریعے مسائل سے آگاہ کیا اور وہ لوگ ہم ہر ہونے والے شکنجوں اور سختیوں کا سن کر ہم سے افسوس اور ہمدردی کا اظہار کرنے لگے۔ ہم نے اُن سے خیریت دریافت کی اور وہاں کے حالات کے بارے میں پوچھا۔ کوئی نئی بات نہیں ہوئی تھی؛ سوائے اس کے کہ کچھ لوگوں کو تفتیش کیلئے ہیڈ کوارٹر والے کمرے میں لے گئے تھے۔

اصل میں جب بھی ایران سے کوئی نئی خبر آتی ، بعثی فوراً چند لوگوں کو تفتیش کیلئے ہیڈ کوارٹر لے جاتے۔ مثلاً اگر فوج کا کوئی سپاہی تبدیل ہوجائے، یا فضائی حملوں کی ٹیکنک میں تبدیلی واقع ہوتی، یا میدان جنگ میں کوئی نیا اسلحہ آتا، یا ۔۔۔ عراقی زندان میں پڑے چند قیدیوں کو جمع کرلیتے اور اُن سے معلومات حاصل کرنے کا سوچتے۔

جاری ہے ۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2879


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔