دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

تنہائی والے سال – ۳۷واں حصّہ

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2019-3-7


ہم نے تمام ریڈیوں کو مختلف جگہوں پر چھپا دیا تاکہ مستقبل میں دوسرے لوگ اس سے استفادہ کرسکیں۔ ہم نے بیٹری بنانے کا طریقہ بھی لکھ کر اُس کے برابر میں رکھ دیا تھا۔ اور ہمیں جو آخری دنوں  میں قرآن اور نہج البلاغہ دیئے گئے تھے!  ہم نے اس سلسلے میں افراد کے درمیان قرعہ اندازی کرلی تھی۔ کوئی اپنے ساتھ دوائی اور کوئی چادر اٹھا رہا تھا۔ ہر آدمی  کوئی نئی بات کر رہا تھا۔ کوئی اس جوش و جذبہ پر توجہ دیئے بغیر، احاطے کے ایک کونے میں اپنی فکروں میں گم تھا اور چہل قدمی کر رہا تھا۔ کچھ لوگ ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور مسائل پر بحث و تحقیق کر رہے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا: "شاید ہمیں ہوائی جہاز کے ذریعے ردّ و بدل کریں گے۔" دوسرا کہہ رہا تھا: "ہمیں کیمپ لے جایا جائے گا اور ہم وہاں سے ردّ و بدل ہوں گے۔" کوئی کہہ رہا تھا: "شاید ہمیں چھوڑ دیں اور کہیں آپ لوگ خود واپس چلے جائیں۔" کوئی ۔۔۔

ہم میں سے ہر کسی کو ایک طرح کی جلدی اور بیتابی لگی ہوئی تھی؛ آزادی! جو قابل یقین نہیں تھی۔ نگہبان ہم سے خدا حافظی  کر رہے تھے  اور کچھ دوسرے نگہبان، تفتیش! کوئی چیز بھی ساتھ لیکر نہیں جانا؛ حتی قرآن!

ہم ایک ایک کرکے بس میں سوار ہوئے۔ بس چل پڑی اور ہم دس سال بعد، بغیر آنکھوں پر بندھی پٹی اور ہتھکڑی کے زندان کے احاطے سے باہر نکلے۔ ہم ۲۹ افراد، حرص و اشتیاق کے ساتھ باہر دیکھ رہے تھے۔ آزاد زندگی، آزاد دنیا، مختلف گاڑیاں، اور ایسے انسان جو زندگی کی بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے تھے۔ ہم چند ہائی ویز سے گزرے اور چند گھنٹوں بعد "بعقوبہ" شہر پہنچے۔

ملٹری پولیس زندان کے ایک انچارج نے ہماری ایک کیمپ کے احاطے کی طرف رہنمائی کی۔ ہم نے اُس سے پوچھا:

-  کیا تمام ایرانی اسیروں کا تبادلہ (exchange)ہو رہا ہے،  یا ابھی بھی کچھ لوگ باقی رہ جائیں گے؟

-  شاید آپ لوگ اسیروں کا وہ آخری گروپ  ہیں جن کا تبادلہ ہو رہا ہے!

میں نے کیمپ میں اپنے کچھ خلاء بان دوستوں کو دور سے دیکھا۔ وہاں پر تقریباً دو سو کے قریب افراد تھے کہ جن میں سے میں صرف چند لوگوں کو پہچانتا تھا۔

ہم نے مغرب کے وقت دو کمبل بچھائے اور ہمارے بڑے بھائی "جناب ابو ترابی" کہ جن کی خوبیوں کے بارے میں، میں نے زندان میں سن  رکھا تھا، انھوں نے نماز جماعت کروائی اور نماز کے بعد آدھے گھنٹے تک گفتگو کی۔ میں اُسی تھوڑے سے وقت میں متوجہ ہوگیا کہ میں کس قدر عظیم  انسان کے سامنے کھڑا ہوں؛ میں اُن کے بارے میں جتنا سنتا مجھے اُتنا ہی زیادہ اُن کی عظمت  اور بڑائی کا احساس ہوتا۔ انھوں نے خود قید میں رہنے کے علاوہ، دوسرے افراد کی اسیری کا دوش بھی اپنے کندھوں پر اٹھایا اور بہت سی مشکلات کو حل کیا۔ حتی بہت سی ایسی مشکلات کہ جو خود عراقیوں سے حل نہیں ہوتی تھیں، انھوں نے اپنی تدبیر اور چارہ جوئی سے اُن مسائل کا حل نکالا تھا۔

ایک رات تقریر کرنے کے بعد وہ  صبح تک دو اسیروں سے گفتگو کرنے اور اُن کی رہنمائی میں مشغول رہے  جو منافقین کے ساتھ تعاون کرنے کی وجہ سے ایران واپس جانے سے ڈر رہے تھے اور جناب ابو ترابی اُنہیں بہت ہی مہربانی والے انداز میں نصیحت کر رہے تھے اور اُنہیں توبہ اور ایران واپس جانے کی تشویق دلا رہے تھے۔

میں کچھ لوگوں کے درمیان جاکر بیٹھا کہ جہاں ایک اور عظیم انسان، بہت ٹھہر ٹھہر کر بڑی متانت اور آگاہی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا؛ وہ دوسروں کی طرح نہیں تھے۔ میں نے پوچھا وہ کون ہیں۔ بتایا گیا: "وزیر پٹرولیم کے جانشین انجینئر یحیوی۔"مجھے انہیں دیکھ کر خوشی ہوئی اور میں نے بعد میں تنہائی میں اُن کے وجود سے کئی گھنٹوں تک کسب فیض کیا۔ انھوں نے دس سالہ قید میں انجینئر بوشہری کے ساتھ بہت ہی سخت اور مشقت والے سال گزارے تھے؛ اس کے باوجود اُن کا حوصلہ بہت بلند تھا۔

میں نے اپنی پچھلے کیبن کے خلاء بان – رضا صلواتی – کو دیکھا؛ اُس نے اپنے آپ کو فٹ رکھا ہوا تھا۔ ہم دس سال بعد پہلی مرتبہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔  اُسے دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی۔

رضا نے کہا:

- میں تمہارے گھر والوں سے خط و کتابت کے ذریعے رابطہ میں ہوں اور میں نے اپنی زوجہ کے ذریعے اُنہیں تمہارے زندہ رہنے کی اطلاع دیدی تھی۔ ان لوگوں نے بھی تصویر بھیجی تھی؛ تمہاری بیٹی کی تصویر جو ٹی وی کے پاس کھڑی ہوئی تھی۔ لیکن جیسا کہ میں اپنا سامان بھیج چکا ہوں، متاسفانہ یہاں نہیں ہے۔

میں نے اُس کا شکریہ ادا کیا۔ رضا صلواتی نے ہمدردی کی خاطر اپنی بات کو جاری رکھا:

- تمہیں پتہ ہے ہوشنگ جان! ہم سب لوگ آپ کی فکر میں تھے؛ جو کوئی بھی خط لکھتا تھا،  وہ آپ "گمشدہ!" ہوجانے والی کی طرف ضرور اشارہ کرتا تھا؛ البتہ مخفیانہ انداز میں! چونکہ اگر وہ لوگ متوجہ ہوجاتے، تو پھر کبھی خط نہیں لکھ سکتے تھے۔ میں دو سال تک محروم تھا؛ چونکہ مجھے جن لوگوں کے زندہ رہنے کے بارے میں پتہ تھا ، میں اُن کی خبر دیتا؛ حتی میں نے لسٹ بنائی اور ریڈ کراس والوں کے ایک نمائندے – مجھے اس پر پورا اطمینان تھا – کی ذمہ داری لگائی اور میں نے اُس سے کہا کہ وہ ان ناموں کو ایران کے اعلیٰ عہدیداروں تک پہنچا دے۔

-  میری ماں اور بیوی کے بارے میں تمہارے پاس کیا خبر ہے؟

-  پریشانی کی بات نہیں ہے؛ سب ٹھیک ہیں اور انتظار کر رہے ہیں۔

میں نے رضا کا بہت شکریہ ادا کیا۔

اُس کے بعد میں کچھ دیر تک "انجینئر بوشہری" کے پاس بیٹھا رہا؛ وہ اپنی اسیر ہونے کے بارے میں اور اپنے واقعات کے بارے میں باتیں کررہے تھے ۔۔۔

میں اُس رات تقریباً صبح تک جاگتا رہا اور ہم سب لوگ ایک دوسرے سے باتیں اور درد دل بیان کرتے رہے۔ اگلے دن، شام کے وقت کچھ لوگوں کے ناموں کو پکارا گیا تاکہ وہ لوگ سرحد کی طرف جانے کیلئے تیار ہوجائیں۔ عراقی ایک بسیجی لڑکے کو بھیجنے میں رکاوٹ بن رہے تھے  کہ جس کے سارے دوست جا چکے تھے اور وہ باقی رہ گیا تھا؛ لیکن الحمد للہ ساتھیوں اور خاص طور سے  جناب محمودی کی کوشش سے اُسے بھی ایران بھیج دیا۔ انھوں نے ہمارے بارے میں اعلان کیا:

-   آپ لوگوں کو پہلے ریڈ کراس والے دیکھ لیں اور آپ لوگوں کے ناموں کا اندارج ہو جانے کے بعد آپ لوگوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔

ہم اُس رات بھی وہیں رہے۔ صبح، ریڈ کراس کے نمائندے جن میں ایک انگریز خاتون بھی تھی جس کہ سر پر مقنعہ تھا، ہم میں سے ہر ایک کا انٹرویو لینے کے بعد، ہرکسی کو ایک نمبر اور اُن کا ایک کارڈ بنادیا اور اُس کے بعد ہم نے دوسری ۱۸ بسوں کے ساتھ سرحد کی طرف حرکت کی۔

اسیری کا زمانہ اتنا طولانی ہوگیا تھا کہ ہمیں واقعاً آزادی اور اسیری ختم ہونے کا یقین نہیں ہو رہا تھا۔ ہم بے یقینی کی حالت میں بسوں میں بیٹھے ہوئے تھے اور ہمیں کچھ گھنٹوں بعد اپنے اسلامی وطن کی سرحدوں تک پہنچ جانا تھا۔راستے میں ایک چھوٹی سی نہر کے کنارے ہم نے ڈرائیور سے نماز  پڑھنے کیلئے گاڑی روکنے کا کہا ۔ کچھ اور بسیں بھی رکی ہوئی تھیں۔ افراد وضو اور نماز پڑھنے کیلئے جلدی سے نیچے اترے۔

ایرانی اسیروں میں سے کچھ لوگ جو ہم سے پہلے سے وہاں رکے ہوئے تھے، ہمارے قریب آئے اور بہت ہی اوچھے انداز میں، بس کی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے عامیانہ سے لباس پہنے ہوئے تھے؛ کچھ لوگوں کی پینٹ اونچی تھی کچھ لوگوں کی پوری قمیض کے بٹن کھلے ہوئے تھے ۔۔۔ وہ سگریٹ کا تقاضا کر رہے تھے۔

ہم نے تعجب سے اُن کی وضعیت اور حالات کے بارے میں دریافت کیا۔ ہمیں پتہ چلا کہ یہ لوگ ایسے افراد ہیں جو منافقین کے ساتھ تعاون کرتے تھے اور اب ہمیں ان لوگوں کے ساتھ – کہ انھوں نے توبہ کرلی تھی – تبادلہ کر رہے تھے! دشمن نے حتی ہمارے تبادلے کے وقت بھی ہم سے سوء استفادہ کیا تھا۔

بہرحال اُن کی صورتحال  ناپسندیدہ تھی اور اُن کی گفتگو اور رویے میں اُن کا کسی چیز کا پابند نہ ہونا اچھی طرح دکھائی دے رہا تھا؛ ایسے لوگوں کی طرح جو کسی نہ کسی بہانے دوسروں کا مذاق اڑاتے ہیں، سگریٹ کا تقاضا  کر رہے تھے۔ ہم نے ایران میں داخل ہوتے ہی، سب سے پہلے مسئولین سے درخواست کی کہ انہیں ہم سے الگ کردیا جائے کہ خوش قسمتی یہ کام فوراً انجام دیدیا گیا۔

نرم اور آرام دہ بسیں ہماری امیدوں اور آرزؤں کے گھر کی طرف رواں دواں تھیں۔ ہم لوگ بہت کم بات کر رہے تھے؛ ہر کوئی اپنی فکروں میں غرق تھا اور نظریں کسی خاص جگہ پر ٹکی ہوئی تھیں۔ میں اپنی اسیری کے شروع کے دنوں کو یاد کرنے لگا؛ جیسے کل ہی کی بات ہو، میرے طیارے کو مارا تھا اور مجھے اسی کیمپ میں لے گئے تھے جس پر میں نے بم گرائے تھے۔ ہمدان کی یاد میں اور مہری اور چھوٹی آزادہ سے اُس خزاں کی خوبصورت صبح میں خدا حافظی کے لمحات کی یاد میں تھا۔ دس سال کی دوری، واقعاً اس بارے میں یقین کرنا دشوار ہے۔ میڈیکل ماہرین کے بقول کہ وہ اس بات پر  یقین رکھتے ہیں کہ ہر سات سال بعد انسانی بدن کے تمام سیلول تبدیل ہوجاتے ہیں، شاید ہر چیز تبدیل ہوچکی ہو؟! دس سال جنگی خطرات کے ساتھ، سیلاب، زلزلے، منافقین اور مخفی دشمن، شہروں پر بمباری اور میزائلوں کی بارش و ۔۔۔ کیا کوئی ہے جو میری راہ پر آنکھیں بچھائے ہو؟ کیا میری ماں، اس مہربان سیدہ میں برداشت کرنی کی ہمت تھی؟ کتنی مشکل سے گزارا ہے۔ مجھے ماں کے زندہ ہونے کی کتنی خواہش ہے ، میں انہیں ایک بار پھر دیکھوں اور اُن کے ہاتھوں کا بوسہ لوں۔ میری بڑی بہن؛ اُس کا مجھ سے باتیں کرنے کا کتنا دل چاہتا تھا؛ لیکن فرصت نہیں تھی، میں نے منع کردیا تھا  اور  کہا تھا میں پرواز کے بعد تمہیں فون کروں گا؛ کیا وہ دس سال تک میرے ٹیلی فون کا انتظار کرتی رہی ہے؟! میری چھوٹی بہن، میری بہن کے بچے، میرے بھائی  اور ۔۔۔ میری بیوی، میری بیٹی، اگر وہ زندہ ہوئی تو اس وقت دس سال کی ہوگئی ہوگی، کون سی کلاس میں ہے؟ وہ حتماً مجھے پہچان نہیں پائے گی۔ میں بھی اُسے نہیں پہچانوں گا اُس کے دو مہینے والا چہرہ ابھی تک میرے ذہن میں باقی ہے۔ خدایا! یہ میں کیا کہہ رہاہوں؛  کہاں دو مہینے اور کہاں دس سال؟ میری بیوی! میری بیوی کیا کر رہی ہوگی؟ کیا اُسے پتہ ہے کہ میں زندہ ہوں؟ اور کیا میں پہلے سے زیادہ اُس سے محبت کرتا ہوں؟ اُس نے ان دس سالوں میں کیا کیا ہے؟ ایک چھوٹے سے بچے کے ساتھ، ایک جوان، بیکس اور تنہا ماں۔ مجھے یقین ہے اگر وہ زندہ ہوئی تو اس نے دوسری شادی نہیں کی ہوگی؛ کیسے؟! مجھے پتہ ہے! میں اپنی چھوٹی سے مشترکہ زندگی میں جان گیا تھا کہ وہ واقعاً ہیرا ہے؛ ایک نایاب ہیرا۔ حقیقت کی قسم کی وہ ایک شائستہ بیوی ہے۔



 
صارفین کی تعداد: 4466


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔