عراقی مراجع کی جانب سے امام خمینی کا استقبال

وہاں کچھ لوگ سو رہے تھے، ہم بھی سو گئے۔ میں صبح کی اذان کے قریب، ایک آشنا آواز سن کر اٹھا اور متوجہ ہوا کہ وہ کسی سے بات کر رہے ہیں۔ جی ہاں، شیخ نصر اللہ خلخالی، آیت اللہ خمینی سے گفتگو میں مشغول تھے۔ میں ان کے ساتھ حرم مطہر گیا، ان سے بات چیت کی اور بوسہ بھی دیا، جب میں رویا تو آقا خمینی بھی رو پڑے۔

شب عاشور کی مجلس میں اسد اللہ علم کی آمد

محرم کی پہلی رات سے میں نے شیخ عبدالحسین مسجد میں ایک بحث شروع کی۔ اب مجھے یاد نہیں کہ کیا نکات بیان ہوئے تھے، لیکن جو چیز مجھے یاد ہے، وہ یہ ہے کہ اجتماع ہر روز بڑھتا چلا گیا اور یہ اتنا زیادہ ہو گیا کہ مسجد کا صحن، گنبد کے نیچے اور مسجد کا ہال اور مدرسہ شیخ عبدالحسین، جو ایک الگ عمارت اور طلباء کا مرکز تھی، لوگوں سے بھرے ہوئے تھے۔ نہ صرف یہ جگہیں، بلکہ بازار بھی - جو شیخ عبدالحسین کی مسجد اور مدرسہ کے درمیان تھا - لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔

عراق میں ریڈیو پروگرام شروع کرنے کی تجویز

ہ ایک بہت بہترین تجویز ہے کہ ایک شخص روزانہ 15 سے 20 منٹ تک اپنے وطن کے لوگوں سے رابطہ برقرار کرکے بات چیت کر سکے۔ لیکن خطرہ بھی ہے اور یہ بغداد ریڈیو اور عراقی بعثی حکومت کی آپس کی بات ہے۔ ہمیں خود آقا سے مشورہ کرنا چاہیے اور ان کی اجازت سے کام کرنا چاہیے، کیونکہ اس کام کے نتائج، ان پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں

شیخ عبدالحسین مسجد میں شب عاشور کا خطاب

جو چیز میں بالکل نہیں جانتا تھا وہ یہ تھی کہ اس ٹیپ کی کاپیاں ہونے کے بعد ایک پرجوش عقیدتمند نوجوان نے مجھے بتایا، "جناب، کیا آپ جانتے ہیں کہ اتنے سارے ساواکیوں کی موجودگی کے باوجود یہ ریکارڈنگ کون کر پایا؟"

دزفول میں اعلانات، امام کی تصاویر اور توضیح المسائل کی کاپیاں

جب انہیں پتہ چلا کہ یہ امام کی تصویر ہے، تو انہوں نے خود ہی اسکی کئی بار کاپیاں تیار کیں۔ اس سارے کام کے اخراجات لوگوں نے پورے کیے، خاص طور پر تاجر برادری نے کافی مالی مدد کی

بارہویں محرم کی رات اور میری گرفتاری کا ماجرا

میں جیسے ہی مسجد معیر سے باہر نکلا تو ایک شخص خوفزدہ حالت میں میرے پاس آیا اور کہنے لگا: "مسجد کی تمام دیواروں کے پیچھے پولیس والے کھڑے ہیں۔ دو تین نہیں، دس بیس نہیں، تیس، چالیس بھی نہیں۔ مسجد کے چاروں طرف ہر جگہ اہلکار موجود ہیں۔ چاہتا تھا کہ آپ مطلع رہیں۔"

میں نے 15 خرداد کے شہداء کے خون کی قیمت قبول نہیں کی

وہ اوپر آیا اور جوتے اتارے بغیر کمرے میں داخل ہوکر فرش پر بیٹھ گیا۔ والد مرحوم اس کے دوسری طرف بیٹھ گئے۔ اس نے والد صاحب سے احوال پرسی کی اور کہا: "حضرت آیت اللہ آپ ہمیشہ شہنشاہ اور مملکتی نمائندوں کے منظور نظر رہے ہیں"۔

شاہی جشن کا بائیکاٹ

ہمارا تقسیم کرنے کا طریقہ کار بھی بہت اچھا تھا اور اس کا موجد تقریباً میں ہی تھا، اور یہ وہی، مشہد میں اعلانات تقسیم کرنے والا طریقہ ہی تھا۔ کچھ اعلانات کو ہم جناب مہدوی کنی کے گھر لے گئے۔

نصرت اللہ  محمود زادہ کے واقعات کا ایک ٹکڑا

جنگ کے دروران سڑکیں بنانے کی اہمیت

جنگی امداد کو چوٹی تک پہنچانا بمشکل تمام انجام پایا۔ امداد رسانی کے لئے کچھ خچر ہمارے پاس تھے مگر وہ سب سامان لے جانے کے لئے کافی نہ تھے۔ اس لئے مجاہدین مجبور تھے کہ سامان کو کاندھوں پر لاد کر لے جائیں۔

ڈھائی سو سالہ شاہی جشن کی تقریبات پر ردعمل

فرح کے خلاف نعرے بازی اس لیے کی گئی کہ اس وقت وہ 2500 سالہ جشن کی تقریبات کا ایک اہم جزو اور ملک میں مذہب مخالف رجحانات کے ساتھ ثقافتی سرگرمیوں کا اصلی محور تھی۔ ہمارا خیال یہ تھا کہ لوگ ہمارا ساتھ دیں گے لیکن توقعات کے برعکس، لوگ بھاگ گئے اور اجتماع منتشر ہو گیا!
2
...
 
کتاب"در کمین گل سرخ" سے اقتباس

شہید علی صیاد شیرازی کی داستان

اُن لوگوں کی ان کے برتاؤ کے مطابق طبقہ بندی کی تھی۔ پہلے اور دوسرے کمانڈر کے احساسات ہم آہنگ نظر آئے جس سے محسوس ہورہا تھا کہ ان کے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے دو افراد سے الگ الگ بات کرنی چاہئے تھی تاکہ نفسیاتی اعتبار سے کوئی تداخل پیدا نہ ہو۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔