تنہائی والے سال – تیسواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-12-20


عمارت "الف"  بڑی تھی اور اُس کے کمروں کی تعداد زیادہ تھی۔ راہداری کی ابتدا اور انتہا میں دو بڑے کمرے تھے؛ اور راہداری کے وسط میں بھی ایک حمام اور دو ٹوائلٹ بنے ہوئے تھے۔ ہم نے صفائی ستھرائی کیلئے اپنے لیے ایک بڑی جگہ کی ضرورت  کا لحاظ رکھتے ہوئے، ٹوائلٹ کے برابر والے کمرے کو جس کی دیوار مکمل طور پر گیلی تھی، کپڑے دھونے کی جگہ سے مخصوص کردیا تھا اور انتظامیہ سے کہا کہ وہاں تک پائپ لائن بچھا دیں اور ہم نے بھی خود ہی ، وہاں پر موجود سیمنٹ بجری کی مدد سے کونے میں ایک چھوٹا سا حوض بنالیا۔

عمارت "الف" میں منتقل ہونے کے بعد ہماری صورتحال بہتر ہوگئی  تھی اور ہم کچھ حد تک راضی ہوگئے تھے؛ لیکن ابھی تک ہوا کی مشکل موجود تھی  کہ یہ ہماری ہمیشہ کی مشکل تھی۔ ہم نے صرف مسلسل کوششوں، پیچھے لگ کر اور منطقی طور پر اُنہیں مجبور کیا یہاں تک کہ اُنھوں نے دو مناسب جگہوں پر  دو ایگزاسٹ فین لگا دیئے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ، ہمیں تدریجاً نئے  قوانین بنانے کی ضرورت پڑی؛ مثلاً ایک مورد میں، ہمارے مطالبات  اور انہیں عراقیوں کے سامنے پیش کرنے کا مسئلہ تھا جو بہت زیادہ متضاد ہوچکا تھا  اور ہماری یکجہتی اور وحدت کا شیرازہ بکھر جانے کا احتمال  لگ رہا تھا۔

بہت سے بھائیوں کو اعتراض تھا کہ کیمپ کے انچارج کو یہ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ جس چیز میں اپنی مصلحت دیکھے، وہ اُسے تمام لوگوں کے مطالبات کے عنوان سے عراقیوں سے کہہ دے؛  کیونکہ اگر تمام لوگوں کے متعلق کوئی مسئلہ ہے  تو سب لوگوں کو اس کی تصدیق کرنی چاہیے۔

آخر میں یہ مسئلہ اس بات کا باعث بنا کہ تمام لوگوں کی طرف سے تین لوگوں کی انجمن تشکیل دی جائے؛ یہ انجمن – ہاد کے نام سے – اس چیز کی پابند تھی کہ وہ تمام مطالبات اور تجاویز کو دریافت کرے اور اُن میں سے وہ مطالبات  جس میں سب کی مصلحت ہو اور وہ اسلامی شان کے مطابق ہوں، اُسے منظور کرنے کے بعد کیمپ کے انچارج تک پہنچائے؛ اُس کے بعد انچارج اُن موارد کے بارے میں مسئولین یا نگہبانوں سے  بات کرے  اور اس کام کے درپے رہے۔

اس کام سے بہت ساری مشکلات حل ہوگئیں اور تین  لوگوں کی انجمن نے اپنے لیے کچھ بنیادی قوانین  لکھے اور انھوں نے معمولی اور اضطراری کاموں کیلئے ایک خاص وقت اور دن کو معین  کرلیا تھا۔

ہمارے دیگر مسائل میں، جن کے بارے میں بحث ہوتی تھی، ان میں ایک زندگی گزارنے کا طریقہ تھا کہ ماضی میں  گروپ کی  صورت میں  تھا؛ سینئر افسر کو گروپ کے کمانڈر کے عنوان سے انتخاب کرلیتے تھے؛ لیکن بعد میں لوگوں کے مطالبات کی بنیاد  پر گروپ بنانے کا طریقہ یہ ہوگیا کہ لوگوں کی ہماہنگی  کے بعد ایسا ہوتا تھا۔ یعنی کچھ لوگوں نے آپس میں ہماہنگی کرلی تھی کہ تین مہینے کے ایک دورے یا کچھ دوروں  تک ساتھ رہیں گے اور جو اُن میں سے سینئر ہوتا وہ  اسے انچارج بنالیتے؛ دورے کے آخر میں اگر وہ چاہتے تو اسی صورت میں باقی رہتے  وگرنہ دوسرے بھائیوں کے ساتھ گروپ بنالیتے تھے۔

کمروں سے استفادہ کرنا، ان کے چھوٹے اور بڑے ہونے کی وجہ سےوقت کے ساتھ ساتھ تمام گروپس میں تقسیم ہوتا۔ ہر کمرے کا اپنا امتیاز تھا۔ ہم نے اس مشکل کے حل کیلئے "اِدھر سے اُدھر جانے کے قوانین" کے نام سے ایک قانون معین کرلیا اور اس پر عمل درآمد کرنے لگے۔ ہم نے کپڑے دھونے، ورزش، حمام،  عمومی صفائی وغیرہ  جیسے موارد کیلئے بھی قوانین  بنائے ہوئے تھے۔

ہاد کی تشکیل سے پہلے، قوانین کی کوئی اہمیت  نہیں تھی اور اگر کوئی عمومی قوانین پر عمل نہیں کرتا تو انچارج کیلئے سوائے دلیل اور جواز پیش کرنے کے کوئی چارہ نہیں بچتا تھا۔ ایسا بہت دفعہ ہوا تھا کہ کچھ لوگ قوانین کو توڑ دیتے اور جب ہم اس بات پراعتراض کرتے تو وہ تمام چیزوں پر انگلیاں اٹھانے لگتے تھے۔ لیکن یہ گروپ (ہاد) جو ہر چار مہینے میں ایک دفعہ منتخب ہوتا تھا  یہ لوگ کیمپ کی ہدایت اور رہبری کی ذمہ داری سنبھال لیتے۔ اس طریقے سے حالات بالکل بدل گئے۔ یعنی جب ہاد کسی مسئلہ کو سب کے سامنے پیش کرتا، اکثریت کی رائے حاصل کرنے کے بعد، حقیقت میں سب کی منظوری سے، خود تمام لوگ اس پر عمل کرنے کے پابند ہوجاتے۔ اگر اتفاق سے کوئی بھائی کسی قانون کی پابندی نہیں کرتا اور اُس کا احترام نہیں کرتا تو آئین نامہ کے مطابق اُس کیلئے تنبیہ اور سزا کو مدنظر رکھتے تھے۔ مثلاً اگر کوئی حفاظتی امور کے خلاف کوئی کام انجام دیتا  کہ جس میں خدا بخش (ریڈیو) کے راز فاش ہونے کا احتمال ہوتا،  اُسے چند دنوں کیلئے ہوا نہ کھانے کی سزا سنا دیتے اور اُسے اپنے کمرے سے باہر نکلنے کا حق نہیں تھا یہاں تک کے معین وقت پورا نہ ہوجائے۔ یا کسی سے چھوٹی غلطی جیسے داخلی قوانین کی خلاف ورزی ہوجاتی، ایک عمومی نشست میں اُسے سب کے سامنے معذرت خواہی کرنی پڑتی  اور ہم اس کام کو سب کی طرف سے دلجوئی کا نام دیتے تھے۔

اس مسئلے نے نظم و ضبط کے سلسلے میں ہماری بہت سی  مشکلات کو حل اور سکون قائم کرنے میں بہت مدد کی۔ نظم و ضبط اور قوانین  کہ سب لوگ اس کے پابند تھے، اس کی تاثیر اتنی زیادہ تھی کہ عمارت کی حدود سے باہر بھی  اس کا اثر پڑا تھا، تمام لوگ چاہے وہ نگہبان، ڈاکٹر، کمپاؤڈر کوئی بھی ہو، سب اس کی تعریف کرتے تھے۔ البتہ ہم اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے کہ کہیں خدانخواستہ ہم میں غرور کی کیفیت آجائے؛ بلکہ ہم اسے اسلامی سپاہیوں اور ا فواج کی سربلندی کا باعث سمجھتے تھے  اور دراصل ہم نے اس چیز کا اظہار کیا تھا کہ اگر کچھ گروپس ایسے ہیں جو اسلامی اور قومی شان و اقدار کے خلاف عمل انجام دیتے ہیں تو کچھ گروپس اور اشخاص ایسے بھی ہیں جو اسلامی جمہوری اور اپنے ملک کی سرفرازی اور افتخار   پر فخر کرتے ہیں۔

وقت گزرنے کے سا تھ، زندان کی پابندیاں اس بات کا باعث بنیں کہ ہم ایسے کام انجام دیں جو ہماری زندگی کو بہبود بخشیں کہ عام طور سے یہ ایسی خلاقیت اور ایجادات تھیں جو اسیری کے زمانے میں سامنے آئیں تھیں  اور ہماری حتی المقدر یہ کوشش ہوتی تھی کہ ہم دشمن سے مطالبہ کئے بغیر اپنی ضرورت کی چیز یں فراہم کرلیں؛ ضرورت کی ایسی چیزیں جس کا دشمن کے ذریعے حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔

مثلاً ماحول کے اندر آلودہ ہوا کا ہونا جو کمبل کے چھوٹے چھوٹے ذرات کے ہوا میں پھیل جانے کی وجہ سے تھا  اور ہمارا سینہ خراب ہونے کا سبب بنتا، ہم نے اس مسئلہ کو ایک دوسرے کے پرانے لباس سے ایک خوبصورت اور بہترین "رلی" یا "کمبل کا کور" سی کر حل کرلیا۔ افراد نے اُس کو بنانے میں اتنے بہترین سلیقہ سے کام لیا تھا کہ ایک ہنری کام "کڑھائی" کی صورت میں ظاہر ہوا تھا!نگہبانوں کے انچارج نے اس کیلئے ضروری سامان لاکر ہم سے درخواست کی کہ میرے گھر کیلئے بھی اس طرح کا ایک سی دو تاکہ میں اسے اپنے گھر میں بچھاؤں؛ ہم نے اس کی بات کو مان لیا اور وہ نگہبان بہت خوش ہوا اور اس نے ہمارا شکریہ ادا کیا۔

شروع میں ہم نے گوندھے ہوئے آٹے سے تسبیح کے دانے بنائے ، پھر ہمیں احساس ہوا کہ یہ تو خدا کی برکت کی توہین ہے، پھر ہم  نے تسبیح بنانے کیلئے کھجور کی گٹھلیاں ڈھونڈیں۔ کھجور کی گٹھلی کو چند دنوں تک گیلا کر لینے کے بعد ، اُسے ایک کاٹنے والے آلہ سے جو ہم نے بنایا ہوا تھا، ایک خوبصورت شکل میں ڈھال کر اُس میں سوراخ کرلیتے۔ اُس کے بعد پاسٹک سے استفادہ ہونے لگا۔ جیسے ٹوتھ پیسٹ کا پلاسٹک کا ڈبہ، گلاس، پلیٹ اور اس طرح کی دوسری چیزیں جنہیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کرکے اُنہیں گرم کرتے، اور گرم کرتے وقت اُنہیں ایک خاص شکل دیکر بالکل تسبیح کے دانوں کی شکل میں ڈھال لیتے۔ ذکر و  صلوات وغیرہ کیلئے تسبیح بنانا عام تھا۔

دیگر موارد، کاغذ بنانا، فاؤنٹین پین اور سوئی بنانا، ہاتھوں سے بنائی گئی سیاہی فراہم کرنا، سیل بنانا، ہاتھوں سے بنے جوتے فراہم کرنا، پرانے کمبلوں سے کپڑے اور کوٹ بنانا، روشنی پھیلانے والے چھوٹے چراغ بنانا، لائٹر ایجاد کرنا، خبروں کا الارم وغیرہ بنانا تھے۔ جو زیادہ تر بورانی، سلمانی اور سہیلی جیسے بھائیوں کی ذہانت اور خلاقیت کی وجہ سے بنائے جاتے تھے۔

جن سالوں میں ہم "ابی وقاص" زندان میں تھے، خداوند متعال کا لطف و کرم ہمیشہ ہمارے شامل حال رہا۔

زندان کے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ ہےکہ وقت مطلوب اور مناسب انداز میں صرف ہو، جو اس بات کا سبب ہوتا ہے کہ قیدی ان باتوں کی طرف کم توجہ دیتا ہے جو اُس کی روح اور جسم کی تکلیف  کا باعث بنتے ہیں؛ خاص طور سے پر امن  قیدیوں کے بارے میں کہ زندان کے مسئولین، قیدی کے اختیار میں کوئی ایسی چیز نہیں دیتے جس سے وہ اپنا وقت گزار سکے یہاں تک کہ وقت گزارنا اُس کیلئے مشکل اور بھاری پڑ جاتا ہے اور اُس کیلئے آزردگی اورتکلیف کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے بارے میں بھی یہی بات صدق کرتی تھی اور بعث پارٹی نے چند سالوں تک ہمارے اختیار میں حتی قرآن اور کتاب بھی نہیں دیئے؛ اب، ایسے حالات میں جب ہماری سرگرمی کیلئے کوئی وسیلہ ہمارے اختیار میں نہیں تھا، ہم نے جو دقیق منصوبہ بندی کی ہوئی تھی، بغیر مبالغہ کے  ہم میں سے کسی کے پاس بیکار وقت زیادہ نہیں تھا  اور روزانہ بہت سارے مختلف کام انجام پاتے  اور ہر کسی کی زندگی اپنے لحاظ سے منظم اور مرتب تھی۔

وہ کام جن میں ہم اپنے اوقات کو صرف کرتے تھے، دو حصے میں تھے: پہلے، عمومی کام  اور بعد میں، خصوصی کام۔

عمومی کام کہ ہر شخص دلچسپی رکھنے کی صورت میں اُسے انجام دینے کا پابند تھا، ان میں یہ کامل شام تھے: داستانوں (خبروں) کا پڑھنا، تفاسیر، تقریروں، خطبوں کو پڑھنا، مجالس اور محافل کے پروگرام میں شرکت کرنا، قرآن اوردعا کی ہفتہ وار نشتوں میں شرکت کرنا، عمارت کی عمومی صفائی، جس میں حمام ، ٹوائلٹ اور کوریڈور شامل تھا، غذا  کی ذمہ داری قبول کرنا جیسے کھانا لینا، اُنہیں تقسیم کرنا اور برتن دھونے کے بعد اُنہیں تحویل دینا وغیرہ ۔

خصوصی کاموں میں عام طورسے ورزش، ہوا خوری والے حاطے سے استفادہ کرنا، کپڑے دھونا، حمام جانا، مستحب نمازیں اور نماز شب وغیرہ پڑھنا شامل تھا۔

اہم ترین چیز جس کی بہت زیادہ اہمیت تھی  اور جو ہمیں روحانی غذا  فراہم کرتی اور اس بات کا باعث تھی کہ ہم دس سال بعد بھی، اُسی طرح خوش و خرم اور شاداب باقی رہیں، "ریڈیو" کا وجود تھا  کہ جس پر بہت سے حوادث گزرے تھے۔



 
صارفین کی تعداد: 2914


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔