دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

تنہائی والے سال – ۳۸واں حصّہ

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2019-3-9


آہ خدایا! جس طرح میں نے اپنی اسیری کے شروع میں نذر مانی تھی، اگر میرے گھر کے افراد صحیح و سلامت ہوئے، تو میں اس کے شکرانے میں  ان سب کو تیرے ولی حضرت امام رضا (ع) کی قدم بوسی کیلئے لے جاؤں گا۔ یا امام رضا! آپ میرے اور خدا کے درمیان واسطہ بن جائیں اور میری شفاعت کریں !اے وہ خدایا جو ہر کسی کے بارے میں بہتر جانتا ہے، اس ٹوٹے دل، پردیس میں اسیری جھیلنے والے اور اشکبار آنکھوں پر رحم کر اور میری آرزؤں اور دعاؤں کو پورا کردے۔ خدایا! اگر تو نے میری تقدیر میں کچھ اور لکھ دیا ہے تو خود مجھے اُسے برداشت کرنے کی ہمت عطا کر دے۔ خدایا! تو بہتر سمجھتا ہے؛ کیا میں اپنے عزیزو اقارب کے بغیر زندگی کو برداشت کرسکتا ہوں؟  خدایا! ۔۔۔

ایک دوست جو میرے شانوں کو ہلا رہا تھا، اُس نے کہا:

-  ہوشنگ، ہوشنگ تم سے بات کر رہا ہوں! کہاں کھوئے ہوئے ہو؟ اتنا مت سوچو، دیکھو دیکھو ہم لوگ پہنچنے والے ہیں!

- ہاں! پہنچنے والے ہیں۔ میرا "خسروی" اور "قصر شیرین" کو دیکھنے کا بہت دل چاہتا تھا۔ تمہیں پتہ ہے؛ پہلے جب میرے ماموں یہاں ڈیوٹی پر ہوتے تھے، میں ان دو شہروں میں کئی مرتبہ آیا تھا۔ واقعی، تمہیں کیسا محسوس ہو رہا ہے؟

اُس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی اور اُس نے آرام سے جواب دیا:

-  میں خدا کی رضا پر راضی ہوں۔ جو وہ چاہے گا، میں بھی وہی چاہوں گا۔ ہم سب کا ایک ہدف ہے؛ ہم خدا کی طرف آئیں ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ جائیں گے۔

اُس کی باتوں سے میرے سینے میں سکون کا احساس ہوا؛ میں نے عمیق سانس لی اور میں نے اُس کی تائید میں سر کو ہلاتے ہوئے کہا:

-  مرحبا! صحیح بات ہے جس نے جتنا زیادہ خدا سے دل لگا لیا، وہ اتنا ہی پرسکون اور صابر ہے۔

ہم سرحد پر پہنچ گئے۔ سڑک کی دائیں طرف بہت سارے بڑے اور چھوٹے خیمے لگے ہوئے تھے کہ جن پر ہلال احمر والوں کا نشان دکھائی دے رہا تھا اور کچھ گروپس رفت و آمد کر  رہے تھے۔ تھوڑا سا اُس طرف کچھ عمارتیں موجود تھیں ، وہاں پر عراقی فوج کے کچھ سپاہی بھی کھڑے ہوئے تھے۔ ہماری بسیں ایک کے پیچھے ایک، لائن سے کھڑی ہوگئیں۔ کچھ فوجیوں کی رفت وآمد کے بعد، کہ جن میں ایک عراقی جرنل بھی تھا، آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ بالکل ہمارے سامنے سے، یعنی بارڈر سے، ایک ایمبولنس – ہلال احمر کے نشان  ساتھ – جس پر ایران کا خوبصورت پرچم لہرا رہا تھا، آگے آئی اور ہم سے تقریباً سو میٹر کے فاصلے پر کھڑی ہوگئی، اُس میں سے کچھ لوگ نیچے اُترے۔ میری تو نگاہیں ایران کے جھنڈے اور "اللہ" کے نشان پر جمی ہوئی تھیں، اُسے دیکھنے سے مجھے خوشی کا بہت زیادہ احساس ہو رہا تھا؛ چونکہ جنگ سے پہلے جھنڈے پر "اللہ" کا یہ نشان موجود نہیں تھا۔

-  دیکھو، دیکھو! ہماری اپنی گاڑیاں؛ ہمارا جھنڈا ہے؛ وہ ایرانی ہیں۔ اُس ٹیلے کے اوپر دیکھو! لکھا ہے "اسلامی جمہوریہ ایران میں خوش آمدید" واقعاً اگر خدا چاہے تو جس طرح یہ کام ختم ہوا ہے۔ اس طرح اب ہمیں آہستہ آہستہ یقین کرنا پڑے گا۔

-  صبر کرو! ہم ابھی تک ایران میں داخل نہیں ہوئے ہیں؛ کیا تم نہیں معلوم کہ ایک دفعہ جناب ابو ترابی کو یہاں تک لائے تھے اور پھر دوبارہ واپس لے گئے تھے؟!

- عجب!

جو لوگ ایران سے آئے تھے وہ عراقیوں سے بات چیت کرنے میں مصروف تھے اور تھوڑی دیر بعد وہ لوگ گاڑیوں کی طرف آئے۔ اُن میں سے ایک واپس چلا گیا اور بقیہ افراد چند عراقیوں کے ساتھ بس کے اندر داخل ہوئے اور خوش آمدید کہنے لگے۔ جیسے فضا میں آشنائی کے عطر کی خوشبو پھیل گئی ہو۔

تقریباً ایک گھنٹے اور قانونی کاموں کی انجام دہی کے بعد، بسیں چل پڑی اور ہم آرام سے سرزمین ایران میں داخل ہوئے اور فراز و نشیب سے بھرے سخت اسیری کے دس سالوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔۔۔

شاید ایک نئی زندگی؛

جیسے ایک موقع غنیمت

کہ جس کے لمحہ لمحہ کو

میں اچھی طرح جانتا ہوں اور

اچھی طرح محسوس کرتا ہوں۔

سلام مادر

سلام ایران

امام کی کمی ہے ، وہ نہیں ہیں۔

اے عاشقوں کے امام

سلام

دوبارہ زندگی

کنویں کی گہرائی سے

آسمان اور ستارے تک ۔۔۔

راستے میں، چند بسیں جن کی لائٹیں جل رہی تھیں اور وہ ایران اسلامی کے مقدس پرچم سے سجی ہوئی تھیں، وہ عراقی اسیروں کو بارڈر کی طرف لے جانے کے لئے آرام آرام سے ہمارے برابر میں سے گزر رہی تھیں۔ میں حسرت و اشتیاق سے اپنے دائیں بائیں دیکھ رہا تھا؛ جیسے مجھے ڈر ہو کہ کوئی چیز گزر جائیگی اور میں اُسے دیکھ نہیں پاؤں گا۔ میں سائن بورڈ، نعروں اور جنگ کے باقیماندہ آثار کو دیکھ رہا تھا، لوگوں کی مقاومت اور جدوجہد کی علامتوں کو دیکھ کر لذت محسوس کر رہا تھا۔ خدایا تیرا شکر ہے! وطن کی ہوا اور رنگ  و بو دوسری جگہوں سے الگ ہوتی ہے۔ آشنائی کا احساس میرے پورے وجود کو پرسکون کر رہا تھا۔

میں اطراف میں دیکھتا؛ آدھا اٹھ کرسامنے کی طرف دیکھنے لگتا۔ ہر بلند جگہ پر ایران کا خوبصورت پرچم لگا ہوا تھا؛ کتنا خوبصورت! میں نے ایک عمیق سانس لی؛ کتنی اچھی ہوا ہے! پھولوں کی خوشبو آ رہی ہے! ہر جگہ مہک رہی ہے۔

تقریباً دس منٹ اور چند موڑ کاٹنے کے بعد،  ہم ایک نشیب میں اترے۔ بہت ہی صاف علاقہ تھا اور ہمارے سامنے بہت زیادہ بسیں کھڑی ہوئی تھیں۔ لوگوں کا طوفان تھا اور دور سے فریاد اور ھیاھو کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ بسیں ایک ایک کرکے اُن لوگوں کے پاس جاکر روک گئیں جن کے ہاتھوں میں "خوش آمدید" کے پلے کارڈ، تصاویر اور پوسٹر تھے۔ ایک ایرانی بھائی بس کے اندر آیا اور اُس نے بلند اور جذبات سے بھرپور آواز میں سلام کرتے ہوئے خوش آمدید کہا اور ہم لوگوں سے اترنے کی درخواست کی تاکہ باقی راستہ ہم اپنی بسوں پر طے کریں۔ لوگوں نے تقریباً سو میٹر کے فاصلے تک ایک راہداری سی بنائی ہوئی تھی جس میں ہنستے ہوئے اور پلے کارڈ اٹھائے لوگ کھڑے تھے۔ ہر چیز تصور سے باہر تھی، وہ ہمیں مسلسل چوم رہے تھے،اور ہماری گردن میں پھولوں کے ہار ڈال رہے تھے  اور صلوات بھیج رہے تھے۔ ہم رو رہے تھے، ہم پر پھولوں اور محبتوں کی بارش ہو رہی تھی؛ خدایا تیرا شکر ہے! خدایا، یہ لوگ کتنے اچھے اور مہربان ہیں، خدایا، یہ لوگ انسان کو کتنا  شرمندہ کر دیتے ہیں۔

ہم لوگ بس میں بیٹھے اور بس چل پڑی۔ سب لوگ رو رہے تھے اور خوشی، شکر اور اشتیاق کے آنسواس قدر جوش و جذبات اور استقبال کی خاطر رخساروں کو بھگو رہے تھے۔ میری ہچکیاں نہیں رک رہی تھیں؛ خدایا تیرا شکر کہ میں کبھی بھی تیرے بے شمار لطف و کرم  سے محروم نہیں رہا اور میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے اپنے اسلامی وطن میں واپس آنے کی نعمت عطا کی، ایسے مسلمانوں لوگوں کے پاس واپس بھیجا جنہوں نے غیرت اور ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے تجاوز کرنے والے کے ہاتھوں کا کاٹ دیا۔ اے امام آپ پر سلام، آپ پر  خدا کی رحمت ہو، آپ پر سلام اور رحمت ہو کہ آپ نے اسلام کو زندہ کیا اور اس بات کا سبب بنے کہ ہم اپنے مسلمان ہونے پر فخر کریں۔

میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جو زمین پر گرے ہوئے تھے، زمین کو چوم رہے تھے اور آنسو بہا رہے تھے۔ مجھے آزر کی یاد آئی کہ وہ کس طرح وطن پرستی اور ملک دوستی کے نام پر، ہر چیز  حتی اپنے آپ سے خیانت کرتا تھا۔

بسوں کے رکنے کے ساتھ ہی، چند مولانا صاحب جو لائن میں آگے کھڑے ہوئے تھے، وہ گاڑی میں داخل ہونے کے بعد ہمیں خوش آمدید کہنے کے ساتھ ساتھ ہماری سلامتی اور سعادت کی آرزو کر رہے تھے ۔ اسلامی مشاورتی کونسل کے نمائندے جناب "فخر الدین حجازی"  بس کے اندر آئے اور انھوں نے وطن واپس آنے پر مبارک باد دیتے ہوئے، منظم شیڈول کی وضاحت دی:

-  آپ لوگ بس کے ذریعے "اسلام آباد" جائیں گے اور وہاں ایک رات ٹھہرنے کے بعد، باختران – کرمانشاہ – اور اُس کے بعد آپ لوگ تہران کی طرف روانہ ہوں گے و۔۔۔

آخر میں انھوں نے بہت گرم جوشی اور محبت کے ساتھ ہم میں سے ہر ایک کو پیار کیا اور خدا حافظی کی۔

بس روانہ ہوئی۔ راستے  میں مسلط کردہ جنگ کے باقیماندہ آثار دکھائی دے رہے تھے۔ ہم لوگ قصر شیرین پہنچے؛ واقعاً وہاں پر کچھ نہیں بچا تھا اور پورا شہر تباہ ہوگیا تھا۔ افراد کی درخواست پر ہم اصلی شہر کی ایک ویران سڑک پر نماز کیلئے رکے کہ جس کے کچھ حصوں کی تعمیر کی گئی تھی، وہاں پر ہم نے ایک مسجد کے کنارے وضو کیا۔

کچھ لوگ – آزادی کے ساتھ – اپنے چہرے اور سر پر پانی ڈال رہے تھے۔ کچھ لوگ اِدھر اُدھر ٹہل رہے تھے۔ کچھ فوجی جو شاید وہی رہتے تھے، ہمارے اردگرد چکر لگانے لگے۔ ان میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا:

- اگر آپ لوگوں میں سے کوئی تہران کا رہنے والا ہے تو مجھے بتائے؛ جیسا کہ میں آج تہران جا رہا ہوں، اگر کوئی کام ہو یا کوئی پیغام دینا ہو تو میں بہت خوشی سے انجام دوں گا۔

-  میں خود تہران کا ہوں؛ لیکن آپ کا شکریہ!

اُس نے مسکراتے ہوئے دوستی میں کہا:

-  تکلف نہ کریں، میرے لئے کوئی مسئلہ نہیں۔

میں نے اُسے ایک فون نمبر دیا اور کہا:

-  پس میرے آنے کے بارے میں بتا دیں۔ اور ہاں مجھے نہیں معلوم اس وقت کوئی وہاں ہے یا نہیں؟ یا شاید ٹیلی فون نمبر بدل چکا ہو؟ ۔۔۔

فوجی بھائی کہ جس کا قد لمبا، بال خوبصورت اور وہ تیس سالہ سارجنٹ تھا، اُس نے بہت ہی پرسکون اور مودبانہ لہجہ میں کہا:

-  اگر آپ کے دوسرے دوستوں کو بھی کوئی پیغام دینا ہو تو بتا دیں۔

-  میں آپ کو ابھی بتاتا ہوں۔

میں بہت تیزی سے بس کے اندر واپس آیا اور لوگوں کو اس بارے میں بتایا؛ ہر کسی نے کچھ نہ کچھ کہا۔ اسی موقع پر، ایک مسئول بس کے اندر آئے اور وہ ہم سب کی طرف دیکھ  کر کہنے لگے:

بھائیوں، مہربانی کرکے کسی کو فون نہ کریں! چونکہ اگر آپ لوگوں کے آنے کی خبر آپ لوگوں کے گھر والوں تک پہنچ گئی، تو وہ لوگ سرحدوں کی طرف چل پڑیں گے اور رش ہوجانے کی وجہ سے کام اچھے طریقے سے انجام نہیں پاسکے گا۔

منطقی اور صحیح بات تھی؛ کیونکہ ہم نے پورے راستے میں عجیب اور غیر قابل تصور مناظر دیکھے تھے۔

جاری ہے ۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 3166


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔