شیخ عبدالحسین مسجد میں شب عاشور کا خطاب

جو چیز میں بالکل نہیں جانتا تھا وہ یہ تھی کہ اس ٹیپ کی کاپیاں ہونے کے بعد ایک پرجوش عقیدتمند نوجوان نے مجھے بتایا، "جناب، کیا آپ جانتے ہیں کہ اتنے سارے ساواکیوں کی موجودگی کے باوجود یہ ریکارڈنگ کون کر پایا؟"

دزفول میں اعلانات، امام کی تصاویر اور توضیح المسائل کی کاپیاں

جب انہیں پتہ چلا کہ یہ امام کی تصویر ہے، تو انہوں نے خود ہی اسکی کئی بار کاپیاں تیار کیں۔ اس سارے کام کے اخراجات لوگوں نے پورے کیے، خاص طور پر تاجر برادری نے کافی مالی مدد کی

بارہویں محرم کی رات اور میری گرفتاری کا ماجرا

میں جیسے ہی مسجد معیر سے باہر نکلا تو ایک شخص خوفزدہ حالت میں میرے پاس آیا اور کہنے لگا: "مسجد کی تمام دیواروں کے پیچھے پولیس والے کھڑے ہیں۔ دو تین نہیں، دس بیس نہیں، تیس، چالیس بھی نہیں۔ مسجد کے چاروں طرف ہر جگہ اہلکار موجود ہیں۔ چاہتا تھا کہ آپ مطلع رہیں۔"

میں نے 15 خرداد کے شہداء کے خون کی قیمت قبول نہیں کی

وہ اوپر آیا اور جوتے اتارے بغیر کمرے میں داخل ہوکر فرش پر بیٹھ گیا۔ والد مرحوم اس کے دوسری طرف بیٹھ گئے۔ اس نے والد صاحب سے احوال پرسی کی اور کہا: "حضرت آیت اللہ آپ ہمیشہ شہنشاہ اور مملکتی نمائندوں کے منظور نظر رہے ہیں"۔

شاہی جشن کا بائیکاٹ

ہمارا تقسیم کرنے کا طریقہ کار بھی بہت اچھا تھا اور اس کا موجد تقریباً میں ہی تھا، اور یہ وہی، مشہد میں اعلانات تقسیم کرنے والا طریقہ ہی تھا۔ کچھ اعلانات کو ہم جناب مہدوی کنی کے گھر لے گئے۔

نصرت اللہ  محمود زادہ کے واقعات کا ایک ٹکڑا

جنگ کے دروران سڑکیں بنانے کی اہمیت

جنگی امداد کو چوٹی تک پہنچانا بمشکل تمام انجام پایا۔ امداد رسانی کے لئے کچھ خچر ہمارے پاس تھے مگر وہ سب سامان لے جانے کے لئے کافی نہ تھے۔ اس لئے مجاہدین مجبور تھے کہ سامان کو کاندھوں پر لاد کر لے جائیں۔

ڈھائی سو سالہ شاہی جشن کی تقریبات پر ردعمل

فرح کے خلاف نعرے بازی اس لیے کی گئی کہ اس وقت وہ 2500 سالہ جشن کی تقریبات کا ایک اہم جزو اور ملک میں مذہب مخالف رجحانات کے ساتھ ثقافتی سرگرمیوں کا اصلی محور تھی۔ ہمارا خیال یہ تھا کہ لوگ ہمارا ساتھ دیں گے لیکن توقعات کے برعکس، لوگ بھاگ گئے اور اجتماع منتشر ہو گیا!

گوہرشاد مسجد میں کیا ہوا؟

اگلی رات ہم نے گوہرشاد مسجد کے جنوبی دروازے کی جانب دعائے توسل کی محفل سجائی۔ جتنے دن ہم دعا پڑھتے رہے، دعا پڑھنے والوں کو ایک ایک کرکے گرفتار کرتے رہے۔ مشہد اور قم کے طلاب اور دوستوں کی بڑی تعداد کو گرفتار کیا گیا۔ آخرکار، آخری رات میں خود دعا پڑھنے آگے بڑھا اور اسکے بعد گفتگو شروع کی اور امام کی صحت کے لیے دعا کی

آیت اللہ خمینی کے نام پر درود

بظاہر کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس طرح پہلی بار، اور وہ بھی بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی کے، امام خمینی کا نام اس طرح پرجوش انداز میں ذکر ہوگا! بیرجند کے لوگوں کے بارے میں عمومی تصور یہ تھا کہ یہ زیادہ تر تعلیم یافتہ اور خواب آلود افراد ہیں، جنہیں اپنے اردگرد کے واقعات کا کوئی علم نہیں ہوتا! لیکن اس طرح صلوات کے ذکر کے ساتھ، بیرجند میں امام کے حامیوں کو مزید ہمت اور جرات ملی۔

دعائے توسل کی محفل میں کیا ہوا؟ 2

اس سال موسم گرما میں جب یہ پروگرام ہوا، ہمارا پورا خاندان مشہد کے ایک مضافاتی پرفضا مقام آخلمد میں ٹہرا ہوا تھا۔ سوائے میرے، کیونکہ میں اس پروگرام کی وجہ سے انکے ساتھ نہیں گیا تھا، یہاں تک کہ ان راتوں میں سے ایک رات، میں ان سے ملنے گیا اور رات وہاں گزاری۔ اگلے دن جب میں نے وہاں سے نکلنے کا ارادہ کیا تو میری ماں نے کہا، "تم کہاں جا رہے ہو؟ آج رات یہیں رکو۔" میں نے کہا "نہیں! مجھے جانا ہے، مجھے مشہد میں کام ہے"۔ میرا ارادہ یہی تھا کہ دعائے توسل کے اس پروگرام میں شرکت کروں۔
2
...
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔