زندان سے رہائی

تالیف: غلامعلی مهربان جهرمی
ترجمہ: سید محب رضا

2022-12-13


تفتیش کے دوران ہم نے تفتیشی افسررحیم خانلی کو جو کچھ کہا، اس کا اُس پر بہت اثر ہوا۔ایک روز علی الصبح،  وہ بتائے بغیرقید خانے میں داخل ہوااور حکم دیا کہ تمام سیاسی قیدیوں کو فوراًلائن حاضر کیا جائے۔سب لائن میں کھڑے ہو گئے۔ غیر سیاسی قیدیوں کو بھی حکم دے دیا گیا کہ وہ  اپنی کوٹھڑیوں میں چلے جائیں۔متعدد کانسٹیبلوں نے ،  جو ۱۰ فروردین ۱۳۵۷ کے جھگڑوں میں زخمی ہوئے تھے، ہمارے خلاف شکایت درج کروائی تھی کہ  انہیں جھڑپوں کے درمیان ہم نے زخمی کیا ، اور اب ان شکایتوں کی فائلیں خانلی کے پاس تھیں۔ اس نے جھڑپ کے دوران زخمی ہونے والے تمام کانسٹیبلوں کو حکم دیا کہ وہ ہمارے سامنے آکر کھڑے ہوں۔پھر وہ ان کی طرف رخ کر کے مخاطب ہوا،"ان کو اچھی طرح دیکھو اور بتاوَ کہ ان تئیس افراد میں سے کس کس نے ، جھڑپ والے دن تم پر پتھراوَ کیا اور مختلف چیزیں ماریں اور بینکوں کے شیشے بھی توڑ ے؟"کانسٹیبلوں نے  اس خوف کے مارے کہ کہیں جہرم کے انقلابی افراد ان سے انتقام نہ لے لیں ، کسی کا نام نہیں لیااور بولے،"ان افراد میں سے نہ کسی نے ہمیں زخمی  کیا اور نہ ہی بینکوں کے شیشے توڑے"۔

عدالت میں تفتیش کے دوران، ہم میں سے  محمد قناعتیان نامی صرف ایک فرد نے، تفتیشی افسررحیم خانلی کو بتایا کہ اسے پولیس افسران کے خلاف شکایت ہے۔اسی شکایت کی وجہ سے اسے سرکاری ڈاکٹر کے پاس بھیجا گیا ۔ اس شکایت کی وجہ سے ، جو اس نے کی تھی ، ایک روز تھانے کا انچارج ، انسپکٹر تصاعدی، سب انسپکٹر دہقانی کے ساتھ قید خانے میں داخل ہوا  اور ان سے پوچھا"تمہارے ساتھ کیا ہوا تھا کہ تم نے شکایت لگائی؟"۔ انہوں نے اپنی پتلون اونچی کی تاکہ اپنی ٹانگیں دکھا  سکیں جو تشدد کے باعث زخمی تھیں۔ تھانیدار اسے دیکھ کر بولا،"یہاں کوئی تار وغیرہ نہیں ہے )کہ جس سے مارا جائے(، یہ پلنگ پر لگ کر زخمی ہوئی ہے"۔ جب میں نے اس اللہ کے بندے کو دیکھا ،جو تھانے کے  انچارج کے گرد جمع ہونے والے  تمام سیاسی اور غیر سیاسی قیدیوں کے سامنے بہت شرمندہ تھا، میں ، جس نے ابھی تک اپنی کمر اور پیروں پر موجود تشدد کے نشانات اپنے ساتھی قیدیوں تک کو نہیں دکھائے تھے، سوچا،"یہاں کربلائی کے شرمندہ   ہونے کا مقام نہیں ہے"، میں نے اپنی پتلون ذرا اوپر اٹھائی اور انچارج کی جانب رخ کرکے بولا،" یہ کیا ہے؟کیا  یہ بھی پلنگ سے ہوا ہے؟"میں نے دیکھا  کہ انچارج ان سب کے سامنے شرمندہ ہو کر بولا،" تمہارا مسئلہ الگ ہے، میں معذرت خواہ ہوں!البتہ میں نے پہلے بھی تمہیں بتایا  تھا کہ تمہیں مارنے سے منع کیا ہوا  ہے"۔اب وہ خود اس بات کا اقرار کر رہا تھا کہ مارا گیا تھا، کس طرح وہ اس بات کا انکار کر تے تھے کہ عموماً  مارپیٹ نہیں کی جاتی۔

اس  کے بعد سب انسپکٹر دہقانی بولا،"میں نے چِلا رہا تھا کہ 'مہربان 'کو کیوں مار رہے ہو، کس نے کہا ہے کہ 'مہربان 'کومارو؟"

میں نے جواب دیا،" بالکل  میں دیکھ رہا تھا ، اس وقت جب میں مار کھا رہا تھا، تم چلا چلا کر کہہ رہے تھے کہ " نہ مارو"، مگر ساتھ اشارہ بھی کر رہے تھے کہ اور مارو۔"

بہرالحال اس قسم کی گفتگو کرنا، انکے لیے حیرت انگیز تھا، کیونکہ اب ہم انکے قیدی تھے اور مار بھی کھا چکے تھے اور اس طرح کھل کر بحث بھی کررہے تھے۔ البتہ اس قسم کی گفتگو،اس طرح کی عمومی محفل میں ہی ہو سکتی تھی جہاں سب موجود ہوں؛ اگرا کیلےمیں ایک لفظ بھی بولتے تو اس سخت خمیازہ بھگتنا پڑتا تھا۔

تفتیشی افسر رحیم خانلی نے تھانیدار اورسب انسپکٹر دہقانی کی موجودگی میں جیل کا دورہ کرنے کے بعد اس مضمون کی حامل  ایک رپورٹ تیار کی:>>قیدی، شکایت کرنے والوں کے سامنے پیش ہوئے،   کوئی ایک ملزم بھی مجرم ثابت نہیں ہوا<<۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر ، کچھ عرصے بعد، ۱۲ دن گزار کر  ۲۲ فروردین کے روز، ہم میں سے ۲۲ افراد کو آزاد کر دیا۔ البتہ میرے اور 'میمنہ' کے لیے دولاکھ تومان کی ضمانت مانگی ، جو اس زمانےمیں ایک بڑی رقم تھی،میرے تقریر کرنے کی وجہ سے اور میمنہ کے قراداد پیش کرنے کی وجہ سے۔پھرکہا گیا کہ میرے رشتہ داروں یا خاندان میں سے کوئی ایک ضمانتی دستاویز جمع کروا کربھی مجھے آزاد کروا سکتا ہے۔ بہت سے رشتہ دار، خاندان والے حتی  ٰاجنبی افرادضمانتی  کاغذات لے آئے۔ آخرکار میرے ماموں زاد، جو کویت میں کام کرتے تھے اور میں نے ان کے لیے زمین خرید کر گھر بنایا تھا ، اسی گھر کےکاغذات لے آئے جنکی اتنی قیمت بھی نہ تھی)شاید اس  کی قیمت ۵۰ ہزار تومان بھی نہ تھی(۔ انہوں نے منت سماجت کی کہ" یہ میرے پھپھی زاد  ہیں اور انہوں نے میرے لیے بہت زحمت اٹھائی ہے،   یہ گھر بھی انہوں نے میرے لیے بنایا تھا اور میں بھی  ان کا ضامن بننا چاہتا ہوں اور۔۔"تفتیشی افسر نے یہ کاغذات قبول کر لیے اور میں بھی آزاد ہوگیا؛ لیکن مجھے پابند کیا گیا کہ میں جہرم کی حدود  سے باہر نہیں جا سکتااور سیاسی سرگرمیاں بھی انجام نہیں دوں گا۔

 

منبع: آقای مهربان: خاطرات غلامعلی مهربان جهرمی، تدوین وحید کارگر جهرمی، شیراز، آسمان هشتم، 1392، ص 141 - 146.

 

 

 



 
صارفین کی تعداد: 999


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔