ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، اٹھائیسواں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-4-22


خانہ فرہنگ میں جب کوئی تقریب ہوتی تو سب مصروف ہو جاتے۔ رات گئے تک کام جاری رہتا کرسیاں میزیں باہر سے منگوائی جاتیں تاکہ تزئین و آرائش کا کام بہتر طور پر ہو اس موقعہ پر مزدوروں کا کھانا پینا میرے ذمہ ہوتا تھا کیونکہ باورچی توصرف آفس کے اوقات تک ہی ہوتا تھا اور علی کا دل نہ مانتا تھا کہ وہ مزدوروں سے دیر تک کام لے اور اس کے بعد مزدور بغیر کھانا کھائے ہی لوٹ جائیں۔ ماہ رمضان میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا اگر کام زیادہ  دیر جاری رہتا تو سب کی افطاری میرے ذمہ ہوتی۔ علی کہتا تھا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ میں سب سے کام لوں اور خود آکر بیوی بچوں کے ہمراہ افطار کروں اور مزدوروں سے کہوں کہ گھر جاکر افطار کرو یا باہر سے کھا کر آجاو۔

مزیدار بات یہ تھی کہ ہر ایک کی الگ الگ پسند ہوتی تھی۔ کسی کو تہہ دیگ[1] پسند تھی تو کسی کو آش رشتہ[2] کا سودا ہوگیا تھا۔ سب پسند اور فرمائش مہدی کے ذریعے مجھ تک پہنچتی تھی اور میں حتیٰ المقدور انہیں پورا کرتی تھی۔

شب ہائے قدر میں ایرانی قاریوں کا گروہ ایران سے پاکستان آیا اور خانہ فرہنگ ملتان کا مہمان ہوا پاکستان کے مختلف شہروں میں ان کے پروگرامز تھے چند دن وہ ملتان میں رہے ۔ جب کبھی مہمان آتے تو علی بازار کے کھانوں کی مخالفت کیا کرتا تھا مجھے ہی مہمانوں کے لئے کھانا بنانا پڑتا تھا ۔ اس بار بھی میں نے ہی کھانا تیار کیا اور مہمانوں کے آگے چن دیا ۔ بے چارے قاری ،علی کا بہت بہت شکریہ ادا کرنے لگے کیونکہ پاکستانی غذائیں تیکھی ہوتی ہیں جس کا اثر ان کے چہروں اور گلے سے ظاہر تھا وہ بے چارے سفر کے دوران کئی بار بھوکے بھی رہے ۔ مسافر تھے اس لئے روزہ نہ رکھتےلیکن ماہ مبارک کے احترام میں سحر و افطار کے درمیان زیادہ کچھ نہ کھاتے۔

پتیلی ڈھکن ہٹایا تو آب گوشت تیار تھا اور میں کھد بدی پڑ رہی تھی سحری میں ایک گھنٹہ باقی تھا کھانے کی خوشبو نے میری بھوک بھڑکا دی۔ مہدی نے مزدوروں کا پیغام مجھے دیا لیکن میں سمجھ نہ سکی کون سا کھانا مانگ رہے ہیں۔

-وہی کھانا جس میں گوشت ہوتا ہے اور پانی۔

اس نے وضاحت کی تو میں سمجھی کہ آب گوشت کا تقاضہ ہے۔ سالاد اور اچار دسترخوان پر رکھ دیا اور روٹیاں بھی سجا دیں تو علی اور مہمانوں کو آواز دی ۔ علی اور مہدی جلدی جلدی آب گوشت کے پیالے لئے جاتے تھے اور دسترخوان سے واہ واہ کی آوازیں آ رہی تھیں جب آخری پیالہ بھی علی کو دے دیا تو میں نے بھگونے [3]میں جھانک کر دیکھا   ،علی نے کہا

۔کچھ بچا ہے یا نہیں؟

میں نے گوشت اور آلو الگ کئے تاکہ ان کو بھرتا کر سکوں  اور پتیلی کو ٹیڑھا کیا تاکہ شوربے کا اندازہ کروں  تو علی نے کہا

-ہاں ہاں کچھ زیادہ ہے

جب اسکو اطمیان ہو گیا کہ میرے  لئے کھانا کافی موجود ہے تو وہ باورچی خانے سے  مہمان سراء میں چلا گیا۔ جب بھی مہمان کھانے پر مدعو ہوتے تو علی کا  ایک پیر مہمان سراء  میں اور دوسرا باورچی خانے میں ہوتا تھا۔وہ بہانے بہانے سے باورچی خانے میں آتا تاکہ جان سکے تمام چیزیں پوری ہیں اور کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا اور میں بھی اطمینان سے ہوں۔

علی کو تنخواہ ملنے میں اکثر دیر ہوجایا کرتی تھی ۔ کھانے پینے کا ہمارا خرچہ تو کیا ہونا تھا مگر علی مزدوروں اور خانہ فرہنگ کے ملازمین کو بھی گھر کا فرد شمار کرتا تھا اس لئے خرچہ زیادہ تھا۔ مجھے بھی اب اس کی عادت ہو گئی تھی سو جو چیز بھی گھر کے لئے بنانی ہوتی اس کو چند گنا کر لیتی تاکہ سب کھا سکیں۔بعض اوقات میں دیکھتی کہ خانہ فرہنگ کے باورچی خانہ میں چہل پہل معمول سے زیادہ ہے اور  کھانے کے پتیلوں کی تعداد بھی کافی ہے ۔ میں سمجھتی تھی کہ خانہ فرہنگ میں کوئی  تقریب یا دعوت ہے اور میں اس سے بے خبر ہوں ۔ میں اس کا علی سے پوچھتی تو علی کہتا تھا کہ یہ کھانا خانہ فرہنگ کا نہیں ہے ۔ نا وہ زیادہ بتاتا نہ میں اس پر زور دیتی۔علی کے شہادت کے بعد آفس البم میں تصاویر دیکھیں تو راز کھلا کہ وہ کھانا کس کے لئے ہوتا تھا۔ پاکستان میں کثیر تعداد میں یتیم خانے تھے علی کی کوشش تھی کہ وہ تمام یتیم خانوں کا دورہ کرے ۔ وسائل کی کمی کے سبب ان سب کی مدد کرنا علی کے بس میں نہ تھا مگر ایک وقت کا یہ کھانا جو علی مہیا کر سکتا تھا اس سے دریغ نہ کرتا تھا۔ اس کھانے کا خرچہ بھی علی کفایت شعاری کے طفیل اس  رقم سے نکالتا تھا جو خانہ فرہنگ کے ضروری خرچوں کے لئے مخٹص تھی ۔

خانہ فرہنگ کے اموال اور رقوم کے بارے میں علی بہت ہی زیادہ حساس تھا۔ گھر کے معاملے میں وہ جس قدر شاہ خرچ تھا خانہ فرہنگ کے معاملے میں اسی قدر سختی سے کا  م لیا کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ تاکید کرتا تھا کہ خانہ فرہنگ کی کسی بھی چیز سے شخصی استفادہ نہ کیا جائے۔ ہمیں جو بھی درکار ہوتا اس کے فہرست بنا کر علی  یا زہیر کو تھما دیتے اور وہ ہمارے لئے خرید لاتے۔ بالخصوص ان آخری ایام میں جب دھمکیاں بہت زیادہ بڑھ گئی تھیں اور ہم گھر سے باہر نہ جا سکتے تھے ۔ مجھے یاد ہے ایک بار بچوں کے پاس ربر نہیں تھی میں نے محمد کو بھیجا کہ باپ کے دفتر سے ربر اٹھا لائے اور اسی وقت میں نے ربر کا اضافہ گھر کے سودے کی فہرست میں کر دیا اور زہیر سے کہا کہ یہ ربر لا کر علی کے دفتر میں رکھ دینا۔  ہم ابھی پڑھ رہے تھے کہ علی غصہ میں بھرا  گھر آیا

۔بچوں نے دفتر سے کچھ اٹھایا ہے؟

بچوں نے کاپیوں سے سر اٹھایا میں نے بھی اطمینان سے کہا۔

۔ربر۔۔۔۔

اس کے باوجود کے بچوں سے اونچی آواز میں بات کر نے کا سخت مخالف تھاایک بار چلا اٹھا۔

۔میں نے نہیں کہا تھا کہ دفتر سے کوئی چیز نہ اٹھانا؟ اگر ربر نہیں تو نہیں تھی بغیر ربر کے گذارا کرتے۔

میں  نے لاکھ وضاحتیں دیں مگر وہ میری ایک نہ سنتا تھا۔

۔کچھ بھی ہو کوئی چیز کسی کے پاس ہو یا نہ ہو مگر ان کو کوئی حق نہیں کہ خانہ فرہنگ کی چیزوں کو اپنے ذاتی استعمال میں لائیں۔ یہ آخری بار ہے کہ ایسی حرکت ہوئی ہے۔ جو چاہئے خود خریدو، زہیر کو کہو یا مجھے کہو۔ مگر دفتر کی کسی چیز کو کبھی ہاتھ نہ لگاو۔

وہ یونہی غصہ میں آگ بگولہ بڑ بڑائے جاتا تھا اورہم حیرت سے اس کا منہ تک رہے تھے۔ میں نے اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کو کہا

۔ یہ چھوٹی اور استعمال شدہ ربر تھی ہم نئی ربر اس کی جگہ رکھ دیں گے۔

اس نے اور زیادہ سخت لہجہ میں کہا

-ایک کاغذ کا ٹکڑا اٹھانے کا بھی حق نہیں ہے۔

اس کی دلیل یہ تھی کہ اس طرح بچوں کو خانہ فرہنگ سے سامان اٹھانے کی عادت ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ کسی وقت وہ کوئی چیز لے لیں اور ہمیں علم نہ ہو سکے تاکہ ہم اس کے بدلے میں چیز رکھ سکیں اور یوں انجانے میں قرض دار اس دنیا سے جائیں تو بہتر یہی ہے کہ بچے کوئی بھی چیز دفتر سے نہ اٹھائیں۔ یہ پہلی اور آخری بار تھا کہ ایسا ہوا اس کے بعد ہم لوگ بہت محتاط ہو گئے تھے حتیٰ کہ محمد اپنی کم عمری کے باوجود اس کے حکم کا لحاظ رکھتا تھا۔ بعض اوقات جب علی فارغ ہوتا تو محمد اس کے دفتر چلا جاتا تھا اور اس سے مصوری کی فرمائش کرتا ۔ علی اسکو گھر روانہ کر دیتا وہ دوڑتا ہوا آتا اور کاغذ پینسل لے کر واپس  جاتا تاکہ علی اس کے لئے نقاشی و مصوری کرے۔

 

[1] کھرچن

[2] مخصوص ایرانی سوپ

[3] پتیلی



 
صارفین کی تعداد: 752


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔