امام خمینی رح کی رہائش کے لئے علوی اسکول کا انتخاب

راوی: حجت الاسلام والمسلمین محمد جواد کشمیری

ترجمہ: سیدہ رومیلہ حیدر

2024-8-4


رفاہ اسکول میں امام خمینی رح کے رہائش پذیر ہونے کے دو تین بعد اس اسکول کے بعض بانی حضرات اور شورائے عالی کے اراکین جن میں ہاشمی رفسنجانی، شہید باہنر، بادامچیان، اور توکلی صاحبان شامل تھے اور یہ حضرات علوی اسکول کے ذمہ ادروں میں سے بھی تھے، اس نتیجے پر پہنچے کہ علوی اسکول امنیت کے لحاظ سے زیادہ قابل بھروسہ جگہ پر واقع ہے۔کیونکہ اول یہ کہ براہ راست خیابان ایران تک دسترسی تھی اور دشمن کی نگاہوں سے دور تھا دوسرا یہ کہ اس اسکول کے آس پاس بعض انقلابی شخصیات کی رہائش گاہیں بھی تھیں جو خود اطمئنان کا باعث تھا۔ اس لئے امام خمینی رح کو علوی اسکول منتقل کردیا گیا۔ بہرحال رفاہ اسکول بھی انقلابیوں کے پاس ہی تھا اور شورائے انقلاب کی میٹنگیں وہیں ہوا کرتی تھیں۔ اتفاق سے ایک دن جب وہاں میٹنگ ہورہی تھی تو ہم بھی وہیں موجود تھے۔ خبر ملی کہ شاہی رجیم کے کارندے اسکول کا محاصرہ کرکے گرفتاریاں کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہ خبر ملتے ہی شورائے انقلاب کے اراکین ایک دوسرے سے مشورہ کرنے لگے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ چونکہ فی الحال اسلحہ موجود نہیں ہے اور اپنے دفاع اور مقابلے کے امکانات بھی نہیں ہیں تو بہتر ہوگا کہ میٹنگ ختم کی جائے اور جلد از جلد اسکول خالی کردیا جائے۔ یہ فیصلہ بہت تیزی سے کیا گیا اور ایک دوست نے یہ ساری صورتحال امام خمینی رح کے سامنے رکھ دی۔ لیکن خوش قسمتی سے حکومتی اہلکاروں نے اپنے ارادوں کے برخلاف اسکول کا محاصرہ نہیں کیا۔ وہ ایسے ہی رکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے تھے حتیٰ بعض اوقات جو افراد گروہ کی شکل میں امام خمینی رح سے ملاقات کے لئے پہنچتے تھے انہیں واپس لوٹا دیا جاتا تھا۔ فضائیہ کے اہلکاروں کی امام خمینی رح سے ملاقات میں بھی یہی صورتحال تھی، البتہ وہ لوگ مکمل منصوبہ بندی سے آئے تھے کہ کس وقت اور کس طرح وہاں پہنچنا ہے تاکہ شاہی رجیم کے اہلکاروں سے مدبھیڑ نہ ہو اور جہاں تک مجھے معلوم ہے ان لوگوں نے کسی بھی مسئلے سے نمٹنے کے لئے پہلے سے ہماہنگی کررکھی تھی۔ حتیٰ کسی بھی غیر ممکنہ صورتحال اور اہلکاروں سے جھڑپ کی صورت میں بھی تیاری کی گئی تھی۔

بہرحال یہ عزیزان اس تاریخی دن وہاں آئے اور ہم بھی امام خمینی رح کے پیچھے کھڑے یہ ماجرا دیکھ رہے تھے کہ کس طرح ان لوگوں نے اپنے فوجی سلام کے ذریعے امام خمینی رح سے اپنی وفاداری کا اعلان کیا، اور ایک دل نشین اور یادگار منظر خلق کرکے، شاہی رجیم کی کمر توڑ دی اور امام خمینی رح کے چاہنے والوں کے دلوں میں امید کی کرن روشن کردی۔

ان دنوں علوی اسکول میں علمائے کرام، اساتذہ، برجستہ شخصیات وغیرہ ملاقات کے لئے آتے رہتے تھے۔ اسکول میں عجب طرح کا جوش و خروش پایا جاتا تھا اور طلاب، جوان اور انقلابی علمائے کرام عمامہ سر پر رکھے اور جسموں پر قبائیں پہنے بغیر عبا کے حرکت کرتے ہوئے نظر آتے تھے اور اپنے دل و جان سے امام خمینی رح کے فرمان پر لبیک کہتے اور جذبہ خدمت سے سرشار نظر آتے تھے۔ اسکول کے باہر بھی انقلابی جوان ساواکیوں اور رجیم کے اہلکاروں کے حرکات و سکنات پر کڑی نظریں جمائے ہوئے تھے اور ہر کچھ عرصے بعد ایک نہ ایک کو پکڑ لیتے تھے۔ ان دنوں ایک دلچسپ کام تہران کی مختلف مساجد اور محلوں میں امام خمینی رح کے نمائندوں کی ملاقاتیں اور عوام سے گفتگو تھی اور میں بھی ایک دو بار اس فرض کی ادائیگی میں شامل رہا۔



 
صارفین کی تعداد: 269


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خمینی کا بیٹا کہاں ہے!

میں اٹھا، میں نے دیکھا کہ کوئی پچاس یا ساٹھ مسلح کمانڈوز ، ہمیں آگاہ کئے بغیر یا دروازہ کھٹکھٹائے بغیر، سیڑھیوں سے اندر داخل ہوئے اور صحن کے بیچوں بیچ چیخ کر سوال کرنے لگے، ’’خمینی کا بیٹا کہاں ہے؟‘‘
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔