جنگ شروع ہونے سے پہلے عراق کی سرگرمیاں

روایتِ علی تحیری
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2024-9-10


جس طرح امام نے حکم دیا تھا ہم یہ کوشش کر رہے تھے کہ اس سلسلے میں مختلف افراد کی فوجی تربیت کے ذریعے ان کے حکم کے مطابق افراد پر مشتمل فوج تیار کر سکیں. امام خمینی فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں اس سلسلے میں ایک عمومی رضاکار فورس بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اسے اتنا مضبوط اور طاقتور کر دینا چاہیے کہ دنیا کے بڑی طاقتوں میں سے کوئی بھی ہمارے اس اسلامی ملک , ہمارے دین اور ہماری امت کی جانب اپنی لالچ بھری نظریں اٹھا کر دیکھ نہ سکے. حتی وہ اس بات کی تاکید کرتے تھے کہ ہماری رضاکار فورس کو اتنا طاقتور ہونا چاہیے کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں اور مظلوموں کا بھی دفاع کر سکے۔
میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ان رہنما فرامین پر تکیہ کرتے ہوئے اس فوجی تربیت کے سلسلے کو اپنی اولویت قرار دیتے ہوئے یادوں پر مختلف مراکز اور چھاونیوں میں اسے توسیح دینے کا سلسلہ جاری رکھا لیکن ایک اہم کام کے سلسلے میں مجھے شہید شہرام فر کے ساتھ عراق سفر کرنا پڑا۔
ماجرہ کچھ اس طرح تھا کہ بعض خبریں ہمارے فوجی مرکز تک پہنچی تھی کہ عراقی فوج نے باز مشکوک سرگرمیوں کا اغاز کر دیا ہے اور وہ اس بات کی کوشش میں ہے کہ اس خطے میں بعض تبدیلیاں پیدا کر سکے۔ ان میں سے ایک سرگرمی رات دن ملک کے مغربی علاقوں تک اسلحے کی ترسیل اور اسے سرحدی علاقوں کے باسیوں کے درمیان تقسیم کرنا تھا۔ جس طرح میں نے عرض کیا اس زمانے میں میں فوج میں تھا اور فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سپہ سالار شاد مہر صاحب تھے۔ میں شہید شہرام فر کے ساتھ ان کے پاس گیا اور ہم نے ان سے کہا کہ اس وقت جو خبریں موصول ہو رہی ہیں ہمیں اجازت دیں کہ ہم دونوں اس جگہ کا سفر کریں اور اس علاقے میں گھوم پھر کر صورتحال جاننے کی کوشش کریں۔ 1980 کے بہار کا موسم تھا اور ملک کے اکثر علاقوں میں موسم انتہائی سرد اور برف باری والا تھا۔ موسم اتنا خراب تھا کہ ہمیں خود بھی ملک بھی علاقوں کی جانب جاتے ہوئے ہمدان کے فورا بعد طوفان کا سامنا کرنا پڑا اور ہم واپس ہمدان انے پر مجبور ہو گئے اور ہم نے رات وہیں پر گزاری۔
اگلی صبح ہم واپس ایلام کی جانب نکلے اور ظہر کے نزدیک ہم ایران شہر پہنچ گئے اس رات ہم ایلام کے گورنر کے مہمان تھے۔ اگلے دن ہم وہاں کے مقامی افراد کی مدد سے کہ جو اسلامی نظام کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اور انہیں عراق اور ایران کے درمیان سفر کرنے کی اجازت تھی سرحد پار پہنچ گئے۔ ہم نے عراق میں تین مہینے انتہائی سخت اور مشکل حالات میں گزارے اور وہاں پر اپنی تحقیقات انجام دیں۔ ہمیں دن رات انتہائی برے اور سخت حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں ہم نے خطرات کو انتہائی نزدیکی سے محسوس کیا حتی بعض اوقات ہم پہچانے جانے، گرفتار ہو جانے اور موت کے منہ تک بھی پہنچ چکے تھے۔ لیکن بہرحال خدا کا لطف و کرم شامل حال تھا اور ہم نے اس پوری مدت میں کہ جو ایک طویل مدت تھی عراقی فوج کی سرگرمیوں اور اقدامات کا بخوبی جائزہ لیا۔
اس کے بعد ہم وطن واپس لوٹ گئے اور ہم نے اپنے سفر کی ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی اور ہم نے اپنی اس رپورٹ میں واضح کیا کہ عراقی فوج کی ان مشکوک سرگرمیوں کے نتیجے میں خطہ بہت جلد ایک جنگ کی لپیٹ میں اس سکتا ہے۔ درحقیقت ہم نے ان تین مہینوں میں جنگ کی صورتحال کو بہت نزدیک سے محسوس کیا تھا اور تقریبا ہمارے لیے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ عراق ہمارے ملک پر حملہ اور جنگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ہم نے اپنی رپورٹ میں انتہائی صراحت کے ساتھ اس مسئلے کی جانب اشارہ اور تاکید کی تھی کہ صدام اسلامی جمہویہ ایران سے جنگ کرنے کی خواہش رکھتا ہے اور یہ بات رات کی تاریکی میں سرحدی علاقوں تک مسلسل اسلحہ پہنچائے جانے کی وجہ سے مکمل طور پر واضح اور روشن ہے۔ یہ اسلحہ خوزستان، دشت مہران اور دلیران کے علاقوں میں لوگوں کے درمیان تقسیم کیا جا رہا تھا۔ ہم اس نتیجے تک پہنچے تھے کہ اسلحہ کی اس طرح تقسیم کے ذریعے ان علاقوں کی عوام کو اسلامی جمہوری نظام کے خلاف بھڑکانے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی کوشش کی جا رہی تھی کہ ہمارے ملک کے سرحدی علاقوں میں بسنے والے عوام کو بھی اسلامی نظام کے خلاف بھڑکا کر مصلح کیا جا سکے۔ بات مشخص تھی کہ عراق مستقبل میں ان مسلح افراد کی حمایت کے ذریعے انہیں اپنی فوج کی پشت پناہی کے لیے استعمال کر سکتا تھا۔ البتہ اس اہم نقطے کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اس علاقے میں ضد انقلاب عناصر بھی سرگرم تھے اور اس اسلحہ کا ایک بڑا حصہ ان کے حوالے کیا جا چکا تھا۔ جن میں سے ایک خوزستان کی خلق عرب نامی تنظیم میں موجود گوریلا جنگ لڑنے والے منافقین اور ضد انقلاب عناصر تھے۔
ہم نے یہ تمام باتیں اپنی رپورٹ میں شامل کر لی تھی لیکن افسوس کہ اس پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی گئی حتی ہماری رپورٹ کے بعد فوج کی مرکزی کمانڈ کا اجلاس بھی منعقد ہوا کہ جس میں، بنی صدر شاد مہر صاحب، میجر جنرل ظہیر نجات اور شہید فلاحی سمیت فوج کی اعلی کمان کی بڑی تعداد موجود تھی۔ لیکن بس اس جملے پر اکتفا کیا گیا عراق ہم پر حملہ کرنے کی غلطی اور جرات کبھی نہیں کر سکتا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس زمانے میں سپہ اتنی زیادہ منظم نہیں ہوئی تھی جتنی اج کے دور میں ہے اس لیے یہ تمام امور فوج کے سپرد تھے اور یہ رپورٹیں بھی فوج کے ہی سپرد کی جاتی تھی۔



 
صارفین کی تعداد: 119


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خمینی کا بیٹا کہاں ہے!

میں اٹھا، میں نے دیکھا کہ کوئی پچاس یا ساٹھ مسلح کمانڈوز ، ہمیں آگاہ کئے بغیر یا دروازہ کھٹکھٹائے بغیر، سیڑھیوں سے اندر داخل ہوئے اور صحن کے بیچوں بیچ چیخ کر سوال کرنے لگے، ’’خمینی کا بیٹا کہاں ہے؟‘‘
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔