فرنگیس،گیلان کی شیر دل خواتین کی کہانی

گفتگو: سارا رشادی زادہ
مترجم: سید محمد جون عابدی

2015-11-24


اشارہ:

متعدد مصنفین کے قلموں نےایران پر عراق کی آٹھ سالہ تحمیلی جنگ کی یادوں کو جاوید بنا دیا ہے۔جنگ نے صرف محاذوں پر ہی اپنے اثرات نہیں چھوڑے تھے بلکہ ملک کے مغربی اورمغربی جنوبی شہروں اوردیہاتوں میں بھی اس کے  تلخ اثرات نمایاں ہیں۔مرد و عورت سب اپنے ملک کے دفاع کے خاطر اپنے گھروں اور آشیانوں سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔مہناز فتاٰحی ایک ایسی مصنف ہیں جنہوں نےاپنی اور ملک کے مغربی محاذوں پر جنگ کے دیگر شاہدین  کے یادداشتوں کو تحریر کرنےکے ساتھ ساتھ  کردی مردوں اورخواتین کی شجاعت کو بھی بیان کیا ہے تاکہ تاریخ یہ نہ بھولنے پائے کہ جنگ کے دوران ایران کن حالات سے دوچار تھا۔

 

محترمہ فتاحی صاحبہ پہلے آپ اپنا تعارف کرائیے اور ہمیں  بتائے کہ آپ کی جائے ولادت کہاں ہے؟

اصالتا میں کرمانشاہ کی رہنے والی ہوں لیکن میری ولادت شہر ہمدان میں ہوئی تھی۔ میرے والد فوج میں تھےاس لئے ہم کو مختلف شہروں میں جاکر رہنا پڑتا تھا۔

 

کس وجہ سےآپنے داستان نویسی کے میدان میں قدم رکھا اورخصوصا آپ کو جنگ کے سلسلہ میں  لکھنے کا ذوق کیسے پیدا ہوا؟

 کیونکہ میرے والد فوج میں تھے۔ اوراس وقت ان کی پوسٹنگ شہر قصر شیرین میں تھی۔میں پانچویں کلاس میں تھی کہ جنگ شروع ہوگئی۔جس وقت ہم نے ایران پر عراقی فوج کے حملےکا مشاہدہ کیا تھااس وقت ہم بچے تھے۔

والد سے دوری،انکا جنگ میں زخمی ہوجانااورہمارا اپنی جائے سکونت سے آوارہ ہوجانا ایسے اسباب ہیں جنہوں نے مجھے احساس دلایا کہ قلم اٹھاؤں اور لکھوں۔میں اسی وقت جنگ سے متعلق پہلی بار کچھ لکھا تھا۔

جب سے جنگ شروع ہوئی تھی میں روزانہ جنگ کی یادداشتیں لکھا کرتی تھی۔اس وقت توپوں اور ہوائی جہازوں سے بمباری ہورہی تھی اورمیرے والد مستقل محاذپر تھے۔میں والد کی دوری اورموجودہ حالات سے بہت پریشان تھی۔میں نے قلم اٹھایااوروہی  باتیں جو میں نے دفاع مقدس کی جنگ کے سلسلہ میں سوچی تھیں میرے لئے جنگ کے سلسلہ میں  کچھ لکھنے میں مشعل راہ بنیں۔یہ باتیں میرے اندر مجسم ہوچکی تھیں۔

میں راہنمائی کےپہلے درجہ میں تھی جب میں نے پہلی بار کچھ لکھا تھا۔اور بارہ سال کی عمر میں میں نے اپنی لکھی ہوی دل کی بات کو’’کیھان بچہ ہا‘‘نامی جریدے اورثقافتی مرکز کو بھیجا تھا۔ان نشریات میں جنگ اوردفاع مقدس سےمتعلق انعامی مقابلہ ہوا کرتے تھے۔مقابلہ میں شرکت کرنےکے بعد میری ایک تحریر’’کیہان بچہا‘‘میں چھپی تھی۔میری دو دیگر تحریریں’’رشد‘‘نامی جریدے میں بھی چھپیں۔میں اس تعلیمی مرکز کی  رکن بھی ہوگئی تھی ۔اسی دوران مجھے سمجھ میں آیا کہ میں قلم دوست ہوں اور مجھے لکھنااچھا لگتا ہے۔

اگرچہ میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی لیکن محل سکونت کی محدودیت کی وجہ سے زبان اور فرانسوی ادب کے موضوع میں،میں نے تعلیم حاصل کرناشروع کردی۔اوریہ امر میرے لئے ادب کی دنیا سے آشنائی کا سبب بنا۔

۱۳۸۷ میں،میں نےپہلی باراپنی پیشہ ورانہ تحریر’’طعم تلخ خرما‘‘کے عنوان سےداستان کی صورت میں شائع ہوئی۔اورمیرا یہ کام ملک کی منتخب تحریروں میں رکھا گیا۔پہلے میں زیادہ تربچوں کے سلسلہ میں لکھتی تھی۔لیکن یہ کتاب دفاع مقدس کے سلسلہ میں ہے اوراس میں میری چنندہ یادداشتیں ہیں جومیں نے اس وقت لکھیں تھیں جب میں پانچویں کلاس میں تھی۔میرے اس کتاب کو ملک میں سال کی بہترین کتاب کا درجہ حاصل ہوا اوراسےجمہوری اسلامی کی بہترین کتاب میں شمار کیا گیا۔اور اس کے بعد پروین اعتصامی کی دوسالہ میں بھی اسے منتخب کیاگیا۔جب میں نے اپنے کام کی مقبولیت کو دیکھا تواپنا دوسرا اثر’’اردیبھشت دیگر‘‘کے نام سے شائع کیا۔اس کتاب میں میرے ان ہم وطنوں کی یادداشتین جو عراق کی سلیمانیہ جیل سے فرار کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔یہ کام میں نے اسلامی انقلاب کے دفتر ادب کے لئے انہیں کے اصرار پرانجام دیا تھا۔ اور اسکے بعد’’قلب کوچک سپہر‘‘اور’’کتاب قلک وقول مردانہ‘‘جیسی دوسری کتابیں بھی منظر عام پرآئیں۔

حال حاضر میں اب تک میری آخری کتاب ’’فرنگیس ‘‘منظر عام پر آچکی ہے۔اور’’پناہ گاہ بی پناہ‘‘کے نام سے ایک دوسری کتاب جو کرمانشاہ پر بمباری کے سلسلہ میں،زیر طبع ہے ۔

فتاحی صاحبہ آپنے فرمایا کہ ’’پناہ گاہ بی بناہ‘‘ابھی زیر طبع ہےاوریہ کتاب کرمانشاہ پر بمباری کےسلسلہ میں ہیں تو آپ ذرا اس کتاب اورکرمانشاہ پر بمباری کےسلسلہ میں وضاحت فرمائیں۔

’’پناہ گاہ بی پناہ‘‘میری تلخ ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ جب اس کا نام آتاہے تومیرے اندرایک خاص احساس پیدا ہوجاتا ہے۔ میرے خیال سے ملک کے دفاع مقدس کے سلسلہ میں یہ ایک بہت اہم کتاب ہے جسمیں بعثی حکومت کے وحشیانہ حملوں اوربمباری کی وضاحت کی گئی ہے۔اس واقعہ میں شیرین پارک کی پناہ گاہ میں پناہگزین 400 خواتین اور بچوں پر بمباری کرکے انہیں شھید کردیا گیا تھا۔

اس کتاب کو لکھنے میں،میں نے بہت زحمت اٹھائی ہےکیوں کہ اس عظیم سانحہ سے متعلق کوئی ماخذ موجود نہیں ہےحتیٰ کہ ایک چھوٹی سی کتاب بھی نہیں لکھی گئی ہے۔اوردلچسپ بات یہ ہےکہ کرمانشاہ کی انٹلیجنس کا ہیڈ آفس اسی جگہ پر بنایاگیا تھا جو موجودہ دور میں دفاع مقدس کا میوزم ہے ۔مجبورا میں گھر گھر گئی اوران طبی خادمین،ڈاکٹر حضرات،بسیجیوں اورفوجیوں کو  تلاش کیا جو اس سانحہ کے وقت موجود تھے اوراس کےشاہد تھے۔ان افراد کو ڈھونڈںا سخت کام تھا اوراسمیں کافی وقت لگا۔مثلا میں ان میں سے بعض لوگوں سے ملنے کے لئےجزیرہ کیش تک گئی۔

 

یہ سانحہ کب پیش آیا اورکیا آپنے اس سانحے کو نزیدک سے دیکھا تھا؟

۲۶اسفند ۱۳۶۶ کادن تھا اس دن ہم اپنے گھر میں تھے جو شیرین پارک سے دو سڑکوں کے فاصلہ پر تھا۔مجھے یاد ہے کہ ایک راکٹ آکر ہماری گلی کے نکڑ پر گرا تھا۔میں بچوں اورعورتوں کی فریاد کی صداؤں کو سن رہی تھی،اب بھی جب میں کبھی شیرین پارک کے پاس سے گزرتی ہوں تو مجھے ان کی چیخ وپکار سنائی دیتی ہے۔افسوس کی بات ہےکہ اس سلسلہ میں ایک مضمون بھی موجود نہیں ہے۔یہ کتاب شیرین پارک کے پناہ گزینوں کے بارے میں لکھنے والوں کے لئے ایک اصلی اورابتدائی مآخذ قرار پاسکتی ہے۔

میں نے متعدد بار خود سے یہ سوال کیا تھا کہ کیوں کسی نے اس عظیم سانحے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔قانون میں لکھا گیا ہے کہ غیر فوجی پناہ گیزینوں پر حملہ نہیں کیا جائیگا۔لیکن کرمانشاہ میں ایسا ہوا۔اگر اس کتاب سے دنیا والے آگاہ ہوجائیں تو آپ دیکھئے گا کہ دفاع مقدس کے سلسلہ میں ان کے نظریات تبدیل ہوجایئں گے۔

 

کیا ایک مؤلف ہونے کے عنوان سے آپ کو یقین ہے کہ یہ کتاب فرنگیس آپ کے ذہن میں موجود مطالب کو مخاطب تک منتقل کرسکتی ہے؟

اس عنوان کو انتخاب کرنے کے پیچھے میرے پیش نظر کئی مقاصد تھے۔ان میں سے ایک مقصد یہ تھا کہ چونکہ جنگ کا بعض حصہ ہمارے ہی وطن سے شروع ہواتھا لھٰذ میں اس کے آخر میں اس علاقہ کی عوام کی مظلومیت ،ہمت اوران کی شجاعت کو منظر عام پر لانا چاہتی تھی اورخدا کے کرم سے میں اس کام میں کامیاب ہوگئی۔

اس کے بعد میں ایک بہت ہی بڑے اوراہم مسئلہ کی  نشاندہی کرنا چاہتی تھی،یعنی عورت کو وہ کردار جو بیان کئے جانےکے لئےمناسب ہے اسے پیش کیا جائے۔اسی لئے میں نے فرنگیس کی یادداشتوں کو تحریر کرنے کے لیے کافی تحقیقات اورکوششیں انجام دیں اوربہت سے لوگوں سے انٹرویو لئے۔کیوںکہ دوسری طرف سے خود رہبرعظیم الشان آیۃ اللہ خامنہ ای کی بهی یه تاکید تهی اس خاتو‌ن کی یادداشتو‌‌‌‌‌ں کو محفوظ کیا جانا چاہئے۔میں نے اس بات کو اپنی ذمہ داری سمجھی اور اس کام کو انجام دیا جائے۔

میرے لئےیہ بات بہت اہمیت رکھتی تھی کہ اس خاتون کے تیس سالہ یادداشتوں کو کتاب کی شکل دوں۔خدا کا شکر ہےکہ منظر عام پر آنے کےبعد علاقہ میں اس کتاب کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اوراس کافی کو سراہاگیا۔

 

 فتاحی صاحبہ آپنے بہت اچھی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کتاب کا اصلی محور ایک خاتون ہیں۔اور آپ بھی ایک خاتون مصنف ہیں اورآپ دونوں کی صنف ایک ہی ہے۔ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ اس  مسئلہ میں کس حد تک منطقی رہی ہیں اور کس حد تک راوی کی یادداشت سے ہم فکری نہیں کی ہے؟

دیکھیں جہاں تک میرا تجربہ ہے میں یہ جانتی ہوں کہ انٹرویو کے وقت ہمیں ہرلحظہ ہم فکر ہونے کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔جیسا کہ میں  پہلے بھی اس میدان میں  کام کرچکی ہوں اوردفاع مقدس کے سلسلہ میں جو مطالعہ میں نے کیا ہے اس میں،میں نے دیکھا کہ مصنف نے خود کو یا اپنے تخیلات کو بھی کتاب میں شامل کردیا ہے۔لیکن جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ شروعات سے ہی میرا اس کتاب کولکھنےکا مقصد ہی یہ تھا کہ فرنگیس کی یادداشتیں اوران کی زندگی کی باتوں کو بیان کیا جائے۔اورمیں اسی مقصد کی خاطر تحقیقات انجام دے رہی تھی۔یعنی میں ہرلحظہ خود سے کہتی رہتی تھی کہ میرا مقصد اس خاتون کی یادداشتیں اوران کے  زندگی کے واقعات بیان کرنا ہے لھٰذا میں نےمکمل طور پر غیر جانبداری سے لکھنے کی کوشش کی ہے۔

 

اس کتاب کا نام فرنگیس ہے اوراس کتاب کی پہلی شخصیت بھی ایک خاتون ہیں اوران کا نام بھی یہی ہے۔لیکن آپ کتاب میں ایک واقعہ کو بیان کرتی ہیں؛ایک مصنف کے عنوان سے آپنے اس پوری بات کو کیسے سمیٹا ہے ؟

دیکھیں میں نے کتاب کے لئے ایک مناسب نام انتخاب کیا تاکہ اس کو پہچانا جائے۔جب رہبرانقلاب اسلامی دامت ظلہ العالی مغربی گیلان تشریف لائے تھے توانہوں  نے ہمارے علاقہ میں مقاومت اسلامی کی سب سے بڑی نشانی محترمہ فرنگیس صاحبہ سےملاقات کی تھی۔ اورلوگوں کے درمیان تقریر کےدوران فرمایاتھا:’’تمہارے درمیان ایک ایسی خاتون ہیں جنہوں دشمن کو دھول چٹا دی تھی؛لھٰذا ان کے واقعات اوریادوں کواپنے اوراپنے شہر کے لئے محفوظ کرلیجئے۔‘‘جب رہبر انقلاب نے علاقہ کی عوام اور فرنگیس کےبارے میں تاکید کی جو واقعی مردانگی سے لڑے تھے؛تو میرا ارادہ مزید پختہ ہوگیا۔لھٰذا جب فرنگیس کا نام آتاہے تواس سے مراد وہی فرنگیس حیدرپور ہی ہوتی ہیں جنہوں نے بہت ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کیا تھا۔

فرنگیس کوئی معمولی خاتون نہیں ہیں کیونکہ اسلامی انقلاب کےرہبر عظیم الشان نے بھی انکے سلسلہ میں تاکید فرمائی،اس بات کے پیش نظر میں اس نتیجہ پر پہونچی کہ اس زمین کی تاریخ کے سلسلہ میں بھی کچھ باتیں بھی کہی جائیں کیوں کہ ان کا نام اس علاقہ کے مردوں اور عورتوں کی شجاعت کی علامت ہے۔

 

کتاب کی سب سے پہلی شخصیت فرنگیس ہیں اوراس کی پوری داستان خواتین کے ارد گرد ہی گھومتی ہے۔تو اسمیں مردوں کے بارے میں کہاں تذکرہ کیا گیا ہےاور ان کا اس میں کیا کردار رہا ہے ؟

اس کتاب میں فرنگیس ہی باتیں کررہی ہیں اوراپنی یادداشت بیان کررہی ہیں؛لیکن گاہے بہ گاہے آپ اس کتاب میں دفاع مقدس کی تاریخ سے بھی رو بہ رو ہوتے ہیں۔ بالخصوص دفاع کے حصہ میں آپ علاقہ کے مردوں سے آشنا ہوتے ہیں اوراس بات کو ملاحظہ کرتے ہیں انہیں کی کوششوں کی وجہ سے مغربی گیلان شہری مقاومت کے دوسرے درجہ کے علاقہ میں تبدیل ہوگیا تھا۔

میں نے اس کتا ب میں لشکر اسلام کےعظیم جان نثاروں اورعوامی طاقت کو روشناس کرانی کی کوشش کی ہے۔اوریہ تعارف مغربی گیلان سے تعلق رکھنے والوں کے لئے بھی بہت دلچسپ موضوع ثابت ہوا ہے۔مثلا میں نے اس کتاب میں شہید حسین بصیری اورشہید حسن بیگی کا تعارف کروایاہےاوراس سلسلہ میں کہا جاسکتاہے کہ یہ افراد علاقہ کی عظیم شخصیتوں کی ہمت وشجاعت کا آئینہ ہیں جنہوں نے علاقہ کے مقدس دفاع میں عظیم کردار ادا کیا تھا۔

یعنی آپ صرف فرنگیس کی یادداشت کو نہیں پڑھتے ہیں بلکہ درحقیقت آپ اس علاقہ کے  ہرہرمرد وعورت کی  زندگی کا مرور کرتے ہیں۔ لھٰذا یہ تصورنہیں کرنا چاہئے کہ ’’کتاب فرنگیس‘‘ صرف خواتین کے سلسلہ میں ہے اوراس میں مردوں کے کردار کو دھندلا بیان کیا گیا ہے۔

ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس کتاب میں فرنگیس کے بھائیوں کا تعارف کیا گیا ہے اوران میں سے ہرایک کی زندگی کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس داستان کا ہیرو ایک عظیم مرد ہے جو بہت بڑا مہارتی اورمرد میدان ہے اورآخر میں شہید ہوجاتا ہے۔

 

کتاب کی جلد کی ڈزائین کے سلسلہ میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟کیا آپ اس سے راضی ہیں اور کیا اس کی ڈزائین اور کتاب کے مطالب کے درمیان ہماہنگی ہے؟

چونکہ فرنگیس کا گاؤں متعدد بار زمین دوز ہوچکا تھا،لھٰذاان کے بچپنے اور جوانی کی کوئی فوٹو ہمیں دستیاب نہ ہوسکی ۔ بچپن میں مشہد مقدس کےسفر کی صرف ایک فوٹو مل سکی تھی جسے ہم نے اس کتاب کی جلد پر رکھا اورآج کی کچھ نئی تصویروں کا اسمیں اضافہ کردیا۔

اگرچہ خود فرنگیس بھی اس بات پر راضی نہیں تھی اور کہرہی تھیں کہ یہ مبہم ہے۔اگرچہ میں نے ان کی ایسی تصویر چھاپنےکا مشورہ دیا تھا جسمیں انہوں مقامی لباس پہنا ہوا ہے تاکہ اس کے ذریعہ ان کی جسارت،شجاعت اورجوانمردی کو بیان کیاجاسکتا۔

 

اس تصویر کو کیوں استعمال نہیں کیا گیا؟

نہیں معلوم،جب کہ میں نے تجویز پیش کی تھی اوریہ بھی کہا تھاکہ اس تصویر سے مقامی زندگی کی جھلک آرہی ہے اوراس تصیویر میں  کردنشین علاقہ کہ علامت بھی سمجھ میں آرہی تھی لیکن ذمہ دار افراد اس بات کو قبول نہیں کیا ۔

 

اس کتاب کی مصنف ہونے کے عنوان سے آپ ہمیں اس کے نشیب وفراز کے بارے میں کچھ بتائیں۔

دیکھیں کتاب کو غور سے پڑھنا چاہئے کیوں کہ کچھ قارئین مجھے فون کرکے کہتےہیں کہ اسمیں بعض الفاظ ایسے ہیں جنکی وضاحت کی ضرورت ہے؛جیسے ’’گل بنی‘‘ جو لفظ سربند یعنی بالوں کا جوڑا باندھنےکا فیتا،کے مرادف ہے۔جو لوگ اس علاقہ کے نہیں ہیں انکے لئے اس قسم کے الفاظ کی وضاحت لازمی ہے؛بہرھال مجموعی طور پر کتاب بہت اچھی لیکن اس کے باوجود بہتر ہوگا کہ اگلی طباعت میں اس کی جلد کی تصویر جو خود کتاب کی راوی کی ہے،کو تبدیل کرکے  مطالب سے ہماہنگ کیاجائے۔

 

کتاب میں فہرست کو کیوں نہیں رکھا گیا ہے؟

میں نے ہر صفحہ پر اس کے حاشیہ میں الفاظ کے بارے میں وضاحت کی تھی لیکن طباعت کے دوران کچھ چیزیں چھوٹ گئیں جنہیں اگلی طباعت میں اصلاح کے ساتھ پیش کیا جائیگا۔ مجموعا کتاب کو بہت پسند کیا گیا ہے۔ صرف کتاب کی تصویروں کی کیفیت کےسلسلہ میں کچھ تنقیدیں آئی ہیں۔جن سے میں خود بھی متفق ہوں۔

 

محترمہ فتاحی صاحبہ فرض کیجئےکہ اگر کبھی آپ کی اس کتاب کا ترجمہ کیا جائے توآپ کی نگاہ میں بین الاقوامی قارئین کو کس حد تک یہ کتاب جذب کرسکتی ہے؟

جب میں اس کتاب کو لکھ رہی تھی اس وقت مجھے یہ خیال آیا تھا کہ شاید کتاب بین الاقوامی سطح پر پہچانی جائے۔ تواگر اس کا ترجمہ ہوتاہے تو یہ خود اپنامقام بنالےگی۔اس سلسلہ میں،میں نے کوشش کی تھی کہ فرنگیس کی اس لطافت اوربچپنےکے واقعات کے ذریعہ مخاطب کو جذب کریں اورمقدس دفاع کے دوران انکی شان ،طاقت اور انکی ہمت کی نشاندہی کی جائے۔تاکہ اس کے ذریعہ ایرانی عوام کی مظلومی کا بھی اندازہ لگایا جاسکے۔

ایک مصنف کے عنوان سے میں مطمئن ہوں کہ یہ کتاب ایک بین الاقوامی مقام پیدا کرلیگی اوراس میں دنیاوی سطح پر آنے کی صلاحیت ہے۔

 

 قومی سطح پر اس کتاب کے سلسلہ میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟

اگر فرنگیس کو صحیح طریقہ سےپہچانوایا جائے تو رفتہ رفتہ انہیں معاشرتی سطح پر بھی پہچان مل جائےگا۔میں نےمشاہدہ کیا ہے کہ اب تک جن لوگوں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے انہوں نے اپنے تاثرات یوں بیان کئے ہیں کہ ہم نےاس کتاب کو اشکوں سے پر آنکھوں سے پڑھاہے۔

میں  نے اس کتاب میں مطالب کو دوستانہ،سلیس اورجذاب بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔اس  کتاب میں فرنگیس کی زندگی کا ہر مرحلہ چاہے وہ بچپن ہو،جوانی ہو یا درمیانی عمر کا حصہ ہو بہت دلچسپ انداز میں  بیان کیاہے ۔اور اس میں جوان نسل سے رابطہ برقرار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

کتاب کے ایک حصہ میں ہم فرنگیس کے عراق لیجائے جانے سے لیکر واپسی تک کے واقعات کو پڑھتے ہیں۔اس ۱۸ سالہ جوان خاتون کی مزاحمت اورمقابلے کی داستان اس قدر دلچسپ ہےجو جوان نسل کو بخوبی اپنی طرف جذب کرسکتی ہے۔مجھے امید ہے وہ لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ پیدا کرلیں گی۔

 

یہ بات تو مسلم ہے کہ فرنگیس کے ساتھ انٹرویو میں آپنے کوئی معیار تو مشخص کیاہی ہوگا،توہمیں بتائیں کہ انسے سوالات کرنے کےلئے آپنےکیا معیار معین کئے تھے۔اورآپ نےان سے کن مسائل کے بارے میں  سوالات کئے تھے؟

جب ہم نے انٹرویو کا کام شروع کیا تھا تواس وقت کی ثقافتی فضا بہت محدود تھی۔ میں چاہتی تھی کہ ان کی زندگی کے بارے ویسے ہی بتائیں جیسی ان کی زندگی تھی۔ لیکن فرنگیس نے بہت ہی محدود گفتگو کی اوروہ اپنی زندگی کی بہت سی باتوں بتانا ہی نہیں چاہتی تھیں۔میں نے اس بات کی کوشش کی کہ ان زندگی کہ اصلی واقعات اورحوادث کو خود ان کی زبان سے سنوں۔

مثال کے طور فرنگیس کا بچپن میرے لئے بھت اہم تھا؛کیوں کہ جس خاتون نے۱۸ سال کی زندگی میں اتنی بہادری سے مسائل کا سامنا کیا ہواس کا بچپن ضرور بہت دلچسپ اورسخت رہا ہوگا۔انہوں نے اپنی زندگی میں عراقی فوجیوں کو مارنے،پہاڑ پرگھر بنانےسے لیکر اپنا پہلا بچہ منی بس میں پیدا کرنے اورحالت حملگی میں شہیدوں کے لاشوں اور زخمیوں کو جمع کرنے تک کا کام انجام دیا تھا۔

میں نے فرنگیس کی مزاحمت کے سوالات کے دوران انکی زندگی کے کچھ جزئی مسائل کو پوچھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ بچپن میں وہ لڑکوں کی طرح رہا کرتی تھیں۔اوراس کے علاوہ بھی میں نے ان کے بارے میں کافی اطلاعات انہیں سے حاصل کیں تھیں۔ وہ چھ سال کی عمرمیں اپنے والد ہمراہ کپاس کی کھیتی کے لئےکھیتوں پرجایا کرتی تھیں۔اور اسی امر نے انہیں پختہ اورمضبوط بنا دیا تھا۔

فرنگیس توبات ہی نہیں کرنا چاہتی تھیں وہ کہتی تھیں جو کام انجام دیا ہے  وہ عام بات تھی کوئی بڑی بات نہیں تھی۔اور کہتی تھی:’’اگر کوئی دوسری عورت میری جگہ ہوتی تو وہ بھی یہی سب کام انجام دیتی‘‘  ۔

فرنگیس کا ایک دوسرا کارنامہ یہ تھا کہ وہ گھر چھوڑنا نہیں  چاہتی تھیں۔وہ مسلسل عراقیوں کو مارتی بھی  رہتی تھیں اور اپنے گھر اور بھیڑوں کی دیکھ ریکھ کے لئے بھی آیا کرتی تھیں اورپھر جنگ کے لئے پہاڑوں کی طرف چلی جایا کرتی تھیں۔جب کہ انہیں معلوم تھا کہ انہین جان کا خطرہ ہے،اور خود سے کہا کرتی تھیں:’’یہاں میرا گھر ہےنہ کہ انکا کہ آکر ہمارے گھر پر قبضہ کرلیں‘‘۔

اس خاتوں کا اپنے گھر اورکاشانہ کی حفاظت کے لئے کوشش کرنا درحقیقت اپنی اقدار اوراہمیتوں کو بچانےکی کوشش کرنا ہے۔میرے  لئےیہ بہت اہمیت کی بات تھی کہ میں اس مسئلہ کو اس کتاب میں بیان کروں۔

 

جیسا کہ آپنے فرمایاکہ اس کتاب کی تالیف کے دوران آپنے تحقیقات انجام دی تھیں،تو اپنے کس قسم کے ماخذوں سے استفادہ کیا ہے؟

مغربی گیلان کے سلسلہ میں بعض کتابیں تھیں جن کے ناموں کو میں نے اس کتاب کے آخر میں ماخذ کی فہرست میں ذکر کیا ہے۔اس کے باوجود جیسی معلومات میں گیلان اوراس کے علاقوں اوراقوام کے بارے میں ان ماخذوں کے توسط سے حاصل کرناچاہتی تھی،اس اعتبار سےان کی اطلاعات بہت محدود تھیں۔اسی لئےمیں جناب کشاورز صاحب جیسےکرمان شاہ کے کچھ مقامی محققین کے پاس گئی اوران سے مغربی گیلان کی گذشتہ تاریخ اور اقوام کے بارے میں بہت سی اطلاعات حاصل کیں۔

اس کے علاوہ مغربی گیلان کی عوام اپنے بعض اسناد،دستاویزات اوریادداشتوں کو ویب لاگ وغیرہ پر بھی ڈالتے ہیں لھٰذا میری اس تحقیق کا ایک بڑا حصہ اس عوام کے مطالعوں، اسناد کے تجزیوں اوردستاویزات سے مختص ہے۔

میں  کبھی کبھی تو ان میں سے صرف ایک  شخص سے ملاقات کرنے یا فوجیوں کی کچھ تصویریں حاصل کرنے کے لئے سات سات گھنٹوں تک مغربی گیلان کا سفر کیا کرتی تھی۔کبھی کبھی تو ان تصویروں کو حاصل کرنے کے لئے صبح پانج بجے تک کام کرنا پڑتا تھا تاکہ ان کو حاصل کرسکیں اوران لوگوں سے ملاقات کرسکیں۔

 

جنگ کے ابتدائی ایام میں آپ کہاں رہتی تھیں؟

جنگ کے شروعاتی دنوں میں ہم قصرشیرین میں رہتے تھے۔

 

چونکہ آپ لوگ مغربی سرحدوں کے نزدیک رتی تھیں  توکیا وہاں سے متعلق جنگ کے زمانہ کی کچھ یادیں آپ کی ذہن میں ہیں؟

جی ہاں میں نےکتاب’’طعم تلخ خرما‘‘میں یادداشتوں کو تحریر کیا ہے۔اس وقت ہم بچہ تھے اورہم اپنے میں مست ومگن تھے۔

سرحد کی طرف سے آنے والی صداؤں کو ہم سنتےتھے اوراس کی طرف متوجہ بھی تھے۔لوگ ہنستے تھے اورکہتے تھے:’’دیکھو وہ لوگ سیٹیاں  بجا رہے ہیں‘‘ان دنوں ہمیں نہیں پتہ تھا کہ یہ سیٹی کی آوازیں خمسہ خمسہ نامی راکٹ لانچروں کی تھیں۔

خمسہ خمسہ یعنی پانچ پانچ۔ وہ راکٹ لانچر جس میں سےایک بار میں  پانچ پانچ راکٹ بم نکلا کرتے تھے۔ لیکن ہم تو بچے تھے ہم ٹیپ ریکارڈر لیجایا کرتے تھے اور دور سے آنے والی خمسہ خمسہ کی آوازوں کو رکارڈ کیا کرتے تھے۔ جب انکی صدائیں نزدیک سے آنے لگیں اس وقت بچوں میں خوف پیدا ہوگیا تب ہماری سمجھ میں آیا کہ یہ آنے والی آوازیں بموں کی ہیں جو آکرعوام کے سر پر گررہے ہیں۔ مجھے قصرشیرین کےاندر کی پہلی بار کی  بمباری یاد ہے جو عوام کی غفلت کا سبب بنی تھی۔ خلاصہ یہ کہ بہت سی یادداشتیں ہیں جنہیں میں لکھ رہی ہوں اوراپنی آیندہ آنے والی کتاب میں انہیں شائع کرونگی۔

 

چونکہ آپ خود ایک مؤلف ہیں اورزبانی تاریخ اوریادداشت نویسی کے میدان میں فعالیت انجام دیتی ہیں تواس قسم کے مسائل کو آپ کس نظریہ سے دیکھتی ہیں؟

زبانی تاریخ وہی تاریخ ہے جو عوام کے درمیان ہوتی ہے۔ جب آپ کتاب فرنگیس پڑھتے ہیں تو ایسا لگتا ہےکہ آپ مقدس دفاع کی یادوں کو ایک خاتون کی زبانی سن رہے ہیں۔جو ابتدا سےانتہا تک جنگ کی راوی ہیں۔ تاریخ شفاہی وہی یاددشاتیں جواس وقت عوام کے ذہنوں میں محفوظ ہیں اوران یادوں کو تحریرکیا جانا چاہئےتاکہ وہ زبانی تاریخ میں تبدیل ہوجایئں۔

 

آپ کی نگاہ میں آج ہم زبانی تاریخ کے میدان میں کس مقام پر ہیں؟

ہم زبانی تاریخ کے سلسلہ میں مقدار اورکیفیت دونوں ہی اعتبار سے ترقی  کررہے ہیں اورامید ہےکہ مستقبل میں بھی یہ ترقی جاری رہیگی۔

میرے جوانی کےدور میں مقدس دفاع کے بارے میں بہت کم کتابیں  شائع ہوا کرتی تھیں۔اور اس وقت میں اس بات کے لئے بہت زیادہ پریشان رہتی تھی کہ کیا لکھوں اورکیا کہوں۔لیکن گذشتہ سالوں میں اس سلسلہ میں  بہت زیادہ کتابیں منظر عام پرآئیں ہیں اوریہ امر مقدس دفاع کے سلسلہ میں عوامی رجحان  اور اس کی ترقی کی علامت ہے۔

جنگ میں خواتین کے کردار کےسلسلہ میں مسلسل خود سے یہی سوال کیا کرتی تھی کہ جنگ کے آغازکو ۳۵ سال ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی فرنگیس صاحبہ کے پاس کیوں نہیں گیا جو خود ہمارے علاقہ میں ہی رہتی ہیں۔اور انہوں ایک عراقی کو مارا اورایک کو قید بھی کیا تھا؟میں مسلسل یہ سوچا کرتی تھی۔ لیکن اب جب ان کی یادداشت کو لکھا جاچکا ہے اور وہ یادیں محفوظ ہوچکی ہیں تواب میں جب بھی ان کے مجسمہ کے پاس سے گذرتی ہوں تو مجھے کوئی اضطراب نہیں  ہوتاہے۔کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ اب لوگ ان کی مقاومت کی داستان اور زندگی کے بارے جان چکے ہیں۔

مجھےامید ہےکہ یہ طریقہ جاری رہیگا اوراسمیں اتنی وسعت ہوجائگی کہ سارے مصفنین کو اپنے ساتھ لے لیگا۔اور ہر مصنف اورمؤلف جنگ کی زبانی یادداشتوں کوخصوصا ملک کے مغربی علاقہ کے بارے میں لکھ سکیں گے ۔

میں نے اپنی تقریر کے دوران بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ جب میں فرنگیس سے باتیں  کررہی تھی تو اس وقت دیگر افراد نے بھی کہا کہ آئیے ہماری داستان اوریادداشت کو بھی لکھئے۔میں کہنا چاہتی ہوں کہ علاقہ کی پوری عوام کی زندگی ایک داستان ہے اورسب کے دلوں میں ایک ہی تاریخ ہے اوران کے بہت سی یادیں محفوظ ہیں۔لیکن کان نہیں جو سنے اورقلم نہیں ہے جو انہیں لکھے۔

 



 
صارفین کی تعداد: 6967


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔