تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – ستائیسویں قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: ضمیر رضوی

2020-7-1


 29 مارچ 1981ء  کو بنی صدر نے ایک بار پھر ایک فوجی آپریشن کے دوران اپنے فوجی منصوبے کا تجربہ کیا،  لیکن اس بار بھی اسے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔  آپریشنل ایریا، گاؤں "کوھہ" کے قریب واقع تھا۔  اس دن ہمارے اور ایرانیوں کے بندوں کے بیچ میں پانی کے ارتکاز نے دونوں طرف کی فورسز کے بیچ ایک رکاوٹ پیدا کردی تھی۔ انجینئرنگ فورسز ممنوعہ علاقے میں پانی کے حجم کو ناپ رہی تھیں اور دن رات اس پانی کی مقدار میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس کے باوجود کہ ایرانی فورسز نے ہماری فورسز کو پانی میں ڈبونے کے لئے اپنی تمام تر سہولتیں استعمال کیں، لیکن انجینئرنگ فورسز  مشینری کی مدد سے مضبوط زمینی بند بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔  ان بندوں کی حفاظت کی ذمہ داری مسلح افواج پر تھی۔  فوجی آپریشن شروع کرنے سے پہلے ایرانی فورسز نے ممنوعہ علاقے میں پانی کی سطح کو بلند ترین حد تک پہنچا دیا اور اس سب کے دو دن بعد ایک بجلی سا پھرتیلا آپریشن شروع کیا تاکہ ایک طرف تو وہ ان مٹی کے بندوں کو خراب کرنے کے ذریعے پانی کے بہاؤ کو ہماری فورسز کی جانب موڑ دیں  اور دوسری طرف انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کریں۔  یہ آپریشن نظریاتی طور سے عراقی فورسز کو "اہواز" شہر سے پیچھے دھکیلنے میں،  اس شہر کو بھاری توپخانوں کی رینج سے دور رکھنے میں اور اہواز کی جانب عراقیوں کی پیش قدمی کو روکنے میں بہت موثر تھا،  لیکن عملی طور پر اس نے ایک دوسری شکل اختیار کر لی۔ ایرانی چاہتے تھے کہ تربیت یافتہ اور پوری طرح سے لیس فورسز کے ذریعے حفاظت کیے جانے والے مٹی کے مضبوط بندوں پر حملہ کریں،  انہیں چاہیے تھا کہ اعلی درجے کا فوجی ساز و سامان استعمال کرتے اور تجربے کار اہل کاروں سے کام لیتے تاکہ متعدد مقامات سے بند توڑنے کے ذریعے پانی کو پوری طاقت کے ساتھ عراقی فورسز کی جانب  بہاتے۔  اب دیکھیں ایرانی فورسز نے کیا کیا؟ 29 مارچ رات 12 بجے،  انہوں نے بھاری توپخانوں،  مارٹرز اور کاتیوشا کے گولوں کا استعمال کرتے ہوئے بیسویں بریگیڈ کی فورسز کے ٹھکانوں پر گولہ باری شروع کر دی۔  اس گولہ باری کے ساتھ پہلی اور تیسری ریجمنٹ کے ٹھکانے بھی شدید فائرنگ کی زد میں آگئے۔  ایرانیوں نے ہمارے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لئے 203 میلی میٹر کی بھاری توپ کا استعمال کیا۔  اس شدید گولہ باری کے نتیجے میں پہلی ریجمنٹ کے  لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں میں چھپ گئے اور حملہ آور فورسز، پلاسٹک کی چھوٹی کشتیوں کے ذریعے آسانی سے ہمارے بندوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں۔  یہ فورسز ایک خصوصی نیول فورسز کی ایک ریجمنٹ پر مشتمل تھیں۔

جب ایرانی فورسز نے مٹی کے بندوں پر قبضہ کیا تو ٹینک، آر پی جی کے گولوں کا ٹارگٹ بننے کے ڈر سے پیچھے ہٹ گئے۔ ایرانی چاہتے تھے کے ٹی این ٹی کا استعمال کرتے ہوئے مٹی کے بند کو مختلف جگہوں سے اڑا دیں، لیکن ٹینکوں کی فائرنگ کے ساتھ ہماری فورسز کے حملے نے پریشانی میں مبتلا ایرانی فورسز کو مہلت نہ دی اور حملہ آور فورسز کو اس بات کا موقع نہیں دیا کہ مٹی کے بند کو پوری طرح اڑا سکیں۔  آخر کار یہ فورسز چار ہلاک اور ایک قیدی چھوڑ کر اپنی چھوٹی کشتیوں کے ذریعے فرار ہوگئیں۔

اس حملہ آور آپریشن کے دوران بند کے صرف ایک حصے کو تھوڑا سا نقصان پہنچا جس کی انجینئرنگ فورسز نے فوراً ہی مرمت کردی اور پانی کے رساؤ کو روک دیا۔  اس مقابلے میں "جیش الشعبی" کے دو افراد بھی مارے گئے اور دوسرے سات افراد بھی زخمی ہوئے۔  اس آپریشن کی ناکامی میں جن عوامل کا عمل دخل ہے وہ درج ذیل ہیں:

حملے کے لیے تجربے کار اور مناسب فورسز کا استعمال نہ کرنا اور 250 افراد پر اکتفا کرنا جنہوں نے ایک ہی محور سے حملہ شروع کیا تھا۔  مٹی کے بند کو اڑانے کے لئے متعدد مقامات سے جو ایک دوسرے سے دور ہوں، اقدام کرنا چاہیے تھا تاکہ ہماری فورسز ان کی فوری مرمت میں کامیاب نہ ہو پاتیں۔  ایرانی فورسز کے مٹی کے بند پر پہنچنے کے بعد آرٹلری یونٹ نے ان کی مدد نہیں کی، جبکہ ضروری تھا کہ بند کے پیچھے ہماری فورسز پر توپ خانے کے شدید حملے اسی طرح جاری رہتے تاکہ عراق جوابی کاروائی نہ کر پاتا۔  اسی طرح سے عراقیوں کو مشغول رکھنے کے لیے ایک وافر فورس تیار کرنی چاہیے تھی تاکہ ایرانی فورسز بند کو متعدد مقامات سے اور صحیح طریقے سے اڑا پاتیں۔  گرفتار ایرانی فوجی سے پوچھ تاچھ کے دوران پتہ چلا کہ بنی صدر خود اس آپریشن کی نگرانی کر رہا تھا۔  اس شکست نے جس نے بنی صدر کی پچھلی شکستوں  میں اضافہ کیا تھا، اس کی سیاسی پوزیشن کو بھی کمزور کر دیا۔

جنگ سے نمٹنے کے مسئلے میں سیاسی اور فوجی اختلافات کے شدت اختیار کرنے اور دوسری طرف محاذ پر فوجی شکستوں نے بنی صدر اور اس کے طرفدار سیاسی گروہ  کی پوزیشن پر برا اثر ڈالا۔  یہی چیز اس کے اور امام خمینی کے طرفدار گروہ کے درمیان اختلافات کے شدت اختیار کرنے کا باعث بنی۔  یہاں تک کہ امام خمینی نے میدان جنگ کی بدانتظامی اور فوجی صورتحال کے انتشار  کی وجہ سے بنی صدر  کی کمانڈر انچیف کے عہدے سے برطرفی کا حکم صادر کردیا۔

معمول کے مطابق مجھے ذمہ داری دی گئی کہ ایک موبائل میڈیکل یونٹ، بیسویں بریگیڈ کے "پ" کیمپ روانہ کروں۔ اس دن  بیسویں بریگیڈ "اہواز" کے جنوب مشرق سے جنوب مغرب میں اور اہواز-خرم شہر کے اسٹریٹجک ہائی وے کے مغرب میں منتقل ہوئی تھی اور نویں ڈویژن کے ماتحت آرمرڈ بریگیڈ کی فورسز کے سابقہ مقام پر ٹھہری تھی۔  ہمارا محور "اہواز-خرم شهر"ہائی وے کے مغرب اور گاؤں "کوھہ" سے لے کر  دریائے "کرخہ کور" کے ساحل پر واقع گاؤں "احمد آباد" کے مشرق تک پھیلا ہوا تھا۔

میں بریگیڈ کے کیمپ سے ایک جیپ کے ذریعے بیسویں بریگیڈ کے کیمپ کے لیے روانہ ہوا۔  پہلے ہم حمید چھاؤنی سے سوسنگرد جانے والی سڑک کے آخر تک گئے پھر صحرا میں آٹھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد مشرق کی طرف مڑے اور پھر ہم نے ایک صحرائی روڈ پر ڈرائیونگ کی۔  اس روڈ کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے گاؤں موجود تھے اور مٹی کے کچھ گھروں میں چند خوزستانی گھرانے آباد تھے۔

بریگیڈ کے کیمپ سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہم ایک پست گاؤں سے گزرے جس کے بیچ میں ایک چھوٹا مقبرہ تھا جس "سید خلف کا مزار" کہا جاتا تھا۔ خوزستانیوں کے گھروں کی دیواروں پر بعثیوں کی حمایت کے نعرے اور گھروں کے پاس "جیش الشعبی" کی کچھ گاڑیاں کھڑی دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ وہ ہماری فورسز کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔  ہم گاؤں کو پیچھے چھوڑ کر شمال کی جانب روانہ ہوئے اور کچھ دیر بعد ہم بیسویں بریگیڈ کے "پ" کیمپ کی پوزیشنز تک پہنچے۔  ایک دوسرے کے قریب قریب مضبوط خندقیں بنی ہوئی تھیں اور ان کے چاروں طرف متعدد ٹیلے تھے۔  موبائل میڈیکل یونٹ کی دو خندقیں تھیں ایک بریگیڈ کیمپ کے بیچ میں اور دوسری کمانڈر اور افسروں کی  خندقوں کے پاس۔  ان خندقوں میں سے ایک چھوٹی اور مضبوط خندق ڈاکٹر کے لیے مخصوص تھی اور ایک دوسری بڑی خندق میں دوائیاں اور طبّی سازوسامان رکھا گیا تھا اور پیرامیڈکس اور ایمبولینس کا ڈرائیور اس میں آرام کررہے تھے۔  اسی دن شام کو میں خندق کے پیچھے پہنچا اور دوربین کے ذریعے گاؤں "کوھہ" کے سامنے موجود اپنی فورسز کی فرنٹ لائنز پر نگاہ ڈالی۔  یہ فورسز ایک وسیع میدان میں پھیلی ہوئی تھیں  اور ہمارے کیمپ سے کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھیں۔ تھوڑی بہت گولہ باری کے علاوہ محاذ کا عام ماحول پرسکون تھا۔  کمانڈر کے مطابق ہماری بریگیڈ کا کیمپ محفوظ تھا۔

دونوں طرف کی فورسز کے درمیان پانی کی زیادہ مقدار کا رکاوٹ بننا،  ایرانی فورسز کا انتظامات میں لگنا اور تہران میں سیاسی تنازعہ کھڑا ہونے سے ان کی سہولیات مفلوج ہوجانا، اس بات کا باعث بنا کہ  اس علاقے میں کسی بھی قسم کا فوجی تصادم نہ ہو۔  بریگیڈ کمانڈر، لیفٹیننٹ کرنل "عبدالمنعم سلیمان" نے اس دن میرا گرم جوشی سے استقبال کیا۔  ہمارے درمیان بات چیت ہوئی اور جب اسے پتہ چلا کہ میں "موصل" یونیورسٹی کا فارغ التحصیل ہوں، تو وہ بہت خوش ہوا،  کیونکہ وہ خود موصل سے تھا اور اس کا بھائی بھی اس شہر میں آنکھوں کے ڈاکٹر کی حیثیت سے پریکٹس کر رہا تھا۔  اگلے دن جب ہم کھانے کے دسترخوان پر بیٹھے ہوئے تھے، بریگیڈ کمانڈر نے مجھ سے کہا: " "تم محکمہ صحت کے انچارج ہو  اور تمہیں اس حوالے سے ہر قسم کے اقدامات اٹھانے کا پورا اختیار ہے۔"

اس کی بات جلسے میں موجود افسران کے لیے ایک فوجی حکم کی حیثیت رکھتی تھی۔

اگلے دن،  میں نے لوگوں کے رہنے کی جگہوں کا معائنہ شروع کیا اور انہیں صحت سے متعلق امور میں مشورے دیے۔  خندقوں میں کوڑا کرکٹ جمع ہونے اور فیلڈ ہیلتھ یونٹس نہ ہونے کی وجہ سے صحت کی عمومی صورتحال بہت خراب تھی۔  لیکن مشوروں کے بعد علاقے کی صفائی ہوئی اور متعدد فیلڈ ہیلتھ یونٹس بھی قائم کیے گئے۔

موسم بہار کی آمد کے باوجود اس علاقے کا درجہ حرارت خوزستان سے بہت زیادہ تھا۔ مجھے خندق کے باہر سونا پڑا لیکن دن رات خاص طور پر رات کے وقت ایرانی فورسز کی پوزیشنز پر ہماری توپوں کی وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازوں اور مچھروں نے ہمارا  آرام و سکون چھین لیا تھا۔  دلچسپ بات یہ تھی کہ عراقیوں نے توپخانوں کے رات کے حملوں کو " رات کے خلل" کا نام دیا ہوا تھا،جس کا یقیناً ہمارے لیے بھی یہی مطلب تھا۔   ایک ہفتہ گزرنے کے بعد ایک خاص قسم کی توپ کی آواز جو ظاہری طور پر دوسری توپوں سے مختلف تھی، نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کی۔  میں نے ایک آفیسر سے اس زوردار آواز کے بارے میں پوچھا۔  تو اس نے جواب دیا: " یہ آواز 180 ملی میٹر کی بھاری توپ کی ہے جسے حال ہی میں روس سے خریدا گیا ہے اور اس کی رینج تقریبا 45 کلومیٹر ہے۔"

میں نے اس سے کہا: " اس توپ کی کیا خاصیت ہے؟"

 اس نے کہا: " یہ توپ جو ایک کیپٹن اور بارہ اعلی افسروں کی نگرانی میں فائر کی جاتی ہے،  آسانی سے "اہواز" شہر کو نشانہ بنا سکتی ہے۔"  اور اس نے مزید کہا کہ عام طور پر اس کے بارود کو زیادہ رکھا جاتا ہے تاکہ اپنی دورترین رینج تک پہنچ سکے۔   یہ توپ دن کے وقت اور خاص طور پر رات کے وقت وقفے وقفے سے متعدد گولے فائر کرتی تھی۔  میں خود اپنی آنکھوں سے شہر میں ہونے والے دھماکوں کی روشنی کو دیکھتا تھا۔  ایک دن میں نے آپریشن آفیسر سے اس توپ کی خاصیت کے بارے میں اور اس شہر پر گولہ باری کے مقصد کے بارے میں پوچھا جس میں ایران کی فوج موجود نہیں تھی۔  اس نے جواب دیا: " گولہ باری کا حکم بغداد سے یعنی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کی جانب سے صادر ہوتا ہے،  اور اس کا مقصد شہر کو اس کے رہائشیوں سے خالی کرانا ہے تاکہ ایک طرف تو "اہواز" شہر کی معاشی نقل و حرکت مفلوج ہو اور دوسری طرف محاذ پر ایرانی فورسز کی امداد کے عمل کو کمزور کیا جائے،  کیونکہ یہ شہر ایرانی جنگجوؤں کی امداد میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔"

میں نے اس سے کہا:  "اس شہر کے اکثر رہائشی عرب اور ہمارے بھائی ہیں۔ ہم نے انہی کے دفاع کے لیے میدان میں قدم رکھا ہے۔"

 اس نے کہا: " اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم جنگ جیت جائیں چاہے اس کے لیے سعودیہ عرب کے سارے عرب ہی کیوں نہ ہلاک ہو جائیں!"

 مجھے بعثیوں کے اس انداز فکر سے بہت حیرت ہوئی۔  وہ اس اصول کے پابند تھے: " مقصد راستے کی توجیہ کرتا ہے" ، ایک ایسی فکر جو ہر قسم کی انسانی اور اخلاقی اقدار سے عاری ہے۔   وہ لوگ امریکہ اور اسرائیل کے ناپاک اور مذموم مقاصد کے حصول کے لیے بے گناہ اور نہتے لوگوں قتل کر رہے تھے۔

جاری ہے ۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2714


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔