تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات - چالیسویں قسط

مجتبی الحسینی

مترجم: ضمیر رضوی

2020-12-27


میں چلچلاتی دھوپ اور کھلی فضا میں ان کا علاج کر رہا تھا۔ ہماری فورسز دو کلومیٹر پیش قدمی کرنے کے بعد ایک بند راستے پر پہنچیں۔ وہ ایک ایسے دلدلی علاقے میں پہنچیں جس کے چاروں طرف درخت ہی درخت تھے۔وہاں اہلکاروں اور پرسنل کیریئرز کی مزید پیش قدمی ممکن نہیں تھی۔ "کوہہ" گاؤں کے آس پاس ہماری فورسز کا پاسداران انقلاب کی فورسز کی سخت مزاحمت سے سامنا ہوا جو سادہ ہتھیاروں سے لڑ رہی تھیں لیکن 106 ملی میٹر توپیں، 82 ملی میٹر مارٹرز اور بھاری توپخانے ان کی مدد کر رہے تھے۔ انہوں نے کوہہ گاؤں میں بڑی بہادری سے جنگ کی اور ہمارے اہلکاروں اور ٹینکوں کی پیش قدمی کو روک دیا۔ کچھ ہی دیر میں ایرانیوں نے ہماری فورسز کو دلدلوں کے بیچ گھیرلیا۔ ہماری فورسز پر ایک عجیب حیرانی اور پریشانی طاری ہوگئی۔ زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھنے لگی خاص طور پر جب ہمارے توپخانوں نے اپنے ہی لوگوں پر غلطی سے حملہ کردیا۔ ہم رات تک اسی طرح مشغول رہے۔ زخمیوں کی تعداد 48 تک پہنچ گئی تھی جن میں سے اکثر کی حالت نازک تھی۔ شدید تھکن، بھوک اور پیاس نے ہماری جان نکال دی تھی۔

شام 5 بجے پانچویں ڈویژن کے کمانڈر، بریگیڈیئر "صلاح قاضی" اس علاقے میں آئے اور انہوں نے حالات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے حالات کا جائزہ لینے کے بعد فوراً پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس طرح کا فیصلہ نہ لیا جاتا تو ہم سب کا کام تمام ہو جاتا۔ رات 8 بجے تمام فورسز پیچھے ہٹ گئیں اور ہماری شکست خوردہ بٹالین خالی ہاتھ اپنی پچھلی پوزیشن پر لوٹ گئی۔ اس آپریشن نے دوسری بٹالین کے کمانڈر کے تمام جھوٹوں کو بے نقاب کر دیا۔ اسی لیے اسے پوچھ تاچھ کے لیے بلایا گیا۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ایک بھیڑیا تو کیا ایک ڈرپوک اور مکار لومڑی سے زیادہ کچھ نہیں تھا جو اپنی جھوٹی باتوں کے ذریعے مراعات حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا تھا۔

 10- انفنٹری ریجمنٹ-304:

جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا تھا، "کوہہ" گاؤں کے آپریشن میں ہماری شرکت کے بعد ریجمنٹ-304  نے ہماری جگہ لے لی تھی اور عقب نشینی کے بعد ہماری ہی کمان میں آگئی تھی۔ ایک جگہ پر دو ریجمنٹ کی تعیناتی ایک غیر معمولی بات تھی۔ ریجمنٹ 304 کا کمانڈر، موصل کا رہنے والا ایک کیپٹن تھا۔ اس کے لوگوں کی تعداد 350 تھی اور سب کے سب رزرو سپاہی اور کرد تھے۔ وہ سب کے سب ان کردوں میں سے تھے جنہوں نے 1974ء  میں مرکزی حکومت کے خلاف شمال کی جنگ میں شرکت کی تھی اور نابود شدہ شاہ اور صدام حسین کے مابین صلح کے معاہدے کے بعد عراق واپس آگئے تھے( میں نے پہلے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ان کردوں کو "لوٹے ہوئے کرد" کہا جاتا ہے)۔

دفاعی مورچوں پر ہمارے لوگوں کی تعیناتی کے بعد، ریجمنٹ-304 کو ہمارے پیچھے میڈیکل ٹیم کی پوزیشنز کے پاس تعینات کیا گیا۔ اس یونٹ کے فوجیوں کا برتاؤ کسی بھی طرح سے فوجیوں جیسا نہیں تھا، وہ لوگ جنگ، محاذ اور فوجی قوانین کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ وہ لوگ فوجی جوتوں کے بجائے ایک قسم کی مقامی چپل پہنتے تھے۔ وہ کبھی بھی اپنے سر پر ہیلمٹ نہیں پہنتے ہیں۔ کوئی بھی انہیں دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ  عراقی فوجی ہیں۔ ان کے پاس سازوسامان بھی نہ ہونے کے برابر تھا یہاں تک کہ ان کے پاس نہ ایمبولینس تھی اور نہ پانی پہنچانے والی گاڑی۔

ریجمنٹ-304 کو ہماری بٹالین کے ساتھ تعینات ہوئے دو ہفتے گزر چکے تھے، دن بدن ان کے لوگوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی یہاں تک کہ فرار ہونے والوں کی تعداد 150 تک پہنچ گئی، اسی وجہ سے اس یونٹ کے کمانڈر نے استعفیٰ دے دیا لیکن بریگیڈ کمانڈر نے شدت سے اس کے استعفیٰ کی مخالفت کی اور اس کے بجائے اس نے حکم دیا کہ اسے محاذ کے پیچھے منتقل کردیا جائے۔ حکومت اور فوجی قیادت اس قسم کے یونٹس کی صورتحال  سے بخوبی واقف تھی لیکن انہیں محاذ پر لوگوں کی اشد ضرورت تھی۔ حکومت کے مفاد کے لیے کردوں کو(ان کے جنگ نہ کرنے کے باوجود) فوج میں بھرتی کیا جاتا تھا۔ کیونکہ اس طرح سے انہیں کردستان کے علاقے سے دور رکھا جاتا تھا اور انہیں حکومت کے خلاف گوریلا جنگوں میں شرکت سے روکا جاتا تھا۔

11- نان کمیشنڈ افسران کی ترقی:

 عراقی فوج کے قوانین کے مطابق کوئی بھی نان کمیشنڈ افسر، افسری عہدے تک نہیں پہنچ سکتا تھا، چاہے وہ اعلی ترین صلاحیت کا مالک ہو اور فوج میں خدمات کے دوران ناقابل بیان ہمت اور بہادری  کا مظاہرہ کیا ہو۔ اسی لیے نان کمیشنڈ افسران یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کہ ایک دن وہ افسر بن جائیں گے۔ ایک عراقی افسر اپنی مراعات کے ساتھ فوج میں ایک چھوٹا بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔

 لیکن جنگ اس بات کا باعث بنی کہ حکومت، نان کمیشنڈ افسران کے لیے اس بات کی منظوری دے کہ وہ جنگ کے میدان میں اپنی بہادری اور تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے اور اپنے کمانڈروں کی منظوری کے ساتھ افسری درجے حاصل  کرسکیں۔

اس فیصلے سے حکومت اور فوج دونوں کو فائدہ ہوا کیونکہ اس طرح سے وہ مارے گئے افسران کی کمی کو پورا کرنے اور فوج کی بنیادوں کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اسی طرح سے یہ امر اس بات کا بھی باعث بنا کہ نان کمیشنڈ افسران محاذ پر سنجیدہ ہو کر اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ 29 جولائی 1981ء  کے آپریشن کے بعد پہلی مرتبہ ہماری ریجمنٹ کو یہ اعزاز ملا۔ ہماری یونٹ کو اپنے دو نان کمیشنڈ افسران کو افسری عہدے پر ترقی دینے کی اجازت ملی۔

ترقی پانے والے افراد کا انتخاب بنیادی طور پر ریجمنٹ کمانڈر کے ہاتھ میں تھا اور کمپنیز کے سربراہان صرف اسے مشورہ دے سکتے تھے۔ لہذا ان افراد کے انتخاب میں فوج کے کمانڈروں کے روابط کا اہم کردار تھا۔ ہماری بٹالین میں افسری درجے پر ترقی دینے کے لیے جو پہلا شخص منتخب ہوا وہ دوسری کمپنی سے تعلق رکھنے والا ایک وارنٹ افسر تھا جس کا نام "عدی" تھا اور وہ اپنی کمپنی کے تمام افراد کے مارے جانے کی وجہ سے اس ترقی کا حقدار قرار پایا، دوسرے شخص کا تعلق امدادی کمپنی سے تھا اور اس کا نام "عبد" تھا۔ پہلے شخص کے برعکس ایک ان پڑھ اور سادہ لوح انسان تھا، کمپنی کے لوگ اور خاص طور پر میڈیکل ٹیم کے لوگ اس کا مذاق اڑاتے رہتے تھے۔ وہ فرسٹ سارجنٹ کے عہدے پر تھا اور جنگ شروع ہونے سے پہلے فوج سے بھاگ گیا تھا اور معافی کے اعلان کے بعد دوبارہ فوج میں واپس آ گیا تھا۔ مذکور شخص ایئرڈیفنس کا انچارج تھا۔ اسے دوبارہ عہدہ ملا یہاں تک کہ وہ وارنٹ آفیسر بن گیا۔ وہ بے چارہ پڑھائی لکھائی کے پہلے مرحلے کو بھی کامیابی سے مکمل نہیں کر پایا تھا۔ نیا وارنٹ آفیسر سیاہ فام اور لمبا چوڑا آدمی تھا۔ میری نظر میں اسی چیز نے اسے لیفٹیننٹ کے عہدے کا حقدار بنایا تھا نہ کہ عقل و پڑھائی لکھائی نے۔ میل نرسز اس کی ترقی سے پہلے مذاق میں اس سے کہتے تھے: " تم وہ ہو جس نے ایرانی جہاز کو گرایا اور "سندباد" کے پل کو بچایا اسی لیے تم ترقی کے حقدار ہو۔"( سندباد کا پل بصرہ کے مشرق میں دریائے "شط العرب" پر واقع ہے) اور قسمت سے اسے لیفٹیننٹ کا عہدہ مل بھی گیا، جبکہ 29 جولائی کے آپریشن میں اس کا کوئی حصہ نہیں تھا کیونکہ اس وقت وہ چھٹی پر گیا ہوا تھا۔ پھر اس ترقی کی اصلی وجہ کیا تھی؟ وہ اسی گاؤں میں پیدا ہوا تھا جہاں ریجمنٹ کمانڈر پیدا ہوا تھا، اور اس کے علاوہ اس تاریخ سے کچھ ہی پہلے سارجنٹ عبد ایک بھیڑ اور تازہ پھلوں کا ایک ڈبہ کمانڈر کے گھر لے گیا تھا۔ مذکورہ شخص کی ترقی نے ریجمنٹ کے تمام لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا لیکن مجھے (چھٹی سے واپس آنے پر) یہ خبر سن کر بالکل حیرت نہیں ہوئی۔ میل نرسز افسردگی سے پوچھ رہے تھے: " اس سادہ لوح آدمی نے کیسے افسری درجہ حاصل کر لیا؟"

 میں نے جواب میں کہا: " ایک مذاق حقیقت بن گیا ہے۔ اس ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔"

 خود کمانڈرز کون ہیں؟ صدام کون ہے؟ عزت الدوری کون ہے؟ انقلابی کونسل کے ممبران کون ہیں؟

 یہ لوگ چھرا مار تھے جنہیں انگریزوں نے بغداد کی سڑکوں سے جمع کرکے حکومت میں اونچی پوسٹوں پر بٹھا دیا۔

 چھٹی سے واپس آنے کے ایک گھنٹے بعد میں بنکر میں چلا گیا۔ اچانک مجھے کسی نے آواز دی: "ڈاکٹر صاحب!۔۔۔ ڈاکٹرصاحب!۔۔۔۔ آپ افسروں کے ریسٹورنٹ جائیں گے؟"

 میں نے پوچھا: "مجھے کس نے آواز دی ہے؟"

 اس نے کہا: "میں ہوں لیفٹیننٹ عبد۔۔۔"

 میں نے مسکرا کر کہا: "آجاؤ!"

 لیفٹیننٹ عبد اندر آیا اور اس نے مجھے سلوٹ کیا۔ میں نے اس سے کہا: " تم بھی میری طرح افسر ہو سلوٹ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔"

 اس نے شرمندہ ہو کر کہا: "میں بھول گیا تھا-"

 میں نے اسے مبارک باد دی اور کہا کہ وہ اپنے نئے عہدے کی عادت ڈال لے۔ وہ میرے برابر میں بیٹھ گیا۔ میں نے اس کے کندھے کی پٹی اور اس کے بائیں کندھے پر لٹکے ہوئے تین نئے قلم دیکھے۔ میں نے اس سے پوچھا: "تین قلم ایک ساتھ؟"

 ان میں سے ایک اس نے مجھے دے دیا۔

 میں نے کہا: " میں افسروں کے ریسٹورنٹ نہیں جاتا، میں کمانڈر کے معاون کے ساتھ کھانا کھاتا ہوں۔"

 میں نے اس سے معذرت چاہی اور وہ ریسٹورنٹ چلا گیا۔

جاری ہے۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2177


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔