ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، بائیسواں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2022-07-24


عجیب خوش کن اتفاق تھا عید نوروز، فہیمہ کا جشن تکلیف اور علی کی واپسی۔ میں خود بھی علی کی واپسی کی منتظر تھی اور میرا من بھی یہی تھا کہ علی جلد لوٹ آئے تاکہ ہم پھر ایک ساتھ مل بیٹھیں اور خوشیوں سے لطف اندوز ہوں۔ ہمارا یہ جشن جو پانچ افراد پر مشتمل ہونا تھا ایک گھریلو تقریب میں تبدیل ہوگیا  علی کے سب گھر والے بھی ہمارے کمرے میں آگئے گو کہ میں نے اتنے لوگوں کا انتظام نہیں کیا تھا مگر پھر بھی سب کچھ خوش اسلوبی سے نمٹ گیا اور فہیمہ کا جشن تکلیف ایک یادگار تقریب میں تبدیل ہوگیا۔ ہم سب علی اور اس کی اٹیچیوں کے اردگرد بیٹھے تھے وہ ایک ایک کر کے تحائف نکال رہا تھا اور سب اس کو بصد اشتیاق دیکھ رہے تھے۔ ہماری مالی توان ایسی نہ تھی کہ ہم یہ سب کچھ خرید سکتے اس لئے میں سمجھ گئی تھی کہ کوئی بڑی سیل ہاتھ لگ گئی ہوگی تو علی یہ سب خرید سکا ہر چند تحفے چھوٹے تھے مگر بچوں کی خوشی کے لئے یہ بھی بہت تھے۔ جب سب کی چیزیں ان کو دے دیں تو اب میرے تحفے کی باری تھی ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ علی سب کے لئے کچھ نہ کچھ لائے اور میرے لئے کوئی خاص چیز نہ لائے۔ بعض اوقات تو بچے جھگڑا بھی کرتے تھے کہ ہم میں اور امی میں فرق کیوں کرتے ہیں ان کے لئے سب سے اچھی اور الگ چیز لاتے ہیں۔ علی بھی منہ سے بُھڑ بُھڑ کی آواز نکالتا اوربھنویں سکیڑ کر کہتا:

-کیا کہا؟ ابے امی ہیں تمہاری تو پھر ان کے لئے اچھے اور زیادہ تحفے ہی لاوں گا ناں۔۔۔۔۔

اسے میری بہت زیادہ فکر رہتی تھی ۔ جب کبھی سب گھر والے اکھٹے ہوتے  اور وہ یہ دیکھتا کہ اس کی بہنیں بیٹھی ہیں اور میں کام کر رہی ہوں تو اپنی بہنوں  کو آواز لگاتا:

-اٹھو اٹھو جلدی کرو۔۔۔ آخر مریم کتنا کام کرے گی یا اللہ جلدی اٹھو۔۔۔

میرا ہاتھ پکڑ کر زبردستی مجھے اپنے پاس بٹھا لیتا۔ اس وقت بھی جب ہم ایک ساتھ بیٹھے تھے تو علی کی بہنوں نے مزاحاً کہا:

-مریم۔ تم خدا کے واسطے بیٹھ جاوورنہ علی کا پارا پھر چڑھ جائے گا۔

وہ چاہتا تھا میں ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے رہو۔ وہ گھنٹوں کتاب کے مطالعہ میں غرق رہتا  اور میں بھی اس کے لئے کوئی کام نہ کر رہی ہوتی تھی مگر وہ مجھے اپنے پاس سے اٹھنے نہیں دیتا تھا۔ میں بس اس کے پاس بیٹھی پلکیں جھپکاتی رہتی۔وہ جب آفس سے واپس آتا تو یہ واجب تھا کہ میں ہی دروازہ کھولوں ایک بار مہدی کے اسکول میں تقریب تھی اور مجھے وہاں تقریب کے اختتام تک رکنا پڑ گیا ۔ شام کے پانچ بجے سے زیادہ کا وقت ہو گیا گھر پہنچتے پہنچتے اور خدا کی کرنی کہ اس دن علی جلدی گھر آ گیا اور ہم سے پہلے ہی پہنچ گیا ۔ صرف اس بات پر کہ میں نے اس کے لئے دروازہ کیوں نہیں کھولا اور میں اس کے گھر آنے کہ وقت گھر میں کیوں نہیں تھی ایک فساد برپا ہوگیا اور ایسا جھگڑا ہوا کہ سارا محلہ ہماری آوازیں سن رہا تھا۔ مجھے تو لگتا تھا کہ صبح ہی ہماری طلاق ہو جائے گی۔ میں  نے بہتیرا سمجھایا کہ اللہ بندے انسان کو بعض اوقات ضروری کام درپیش ہوتے ہیں اب ایسا ہر وقت تو ممکن نہیں کہ جب تم آو میں ہی دروازہ کھولوں ایسی توقع رکھنا ہی فضول ہے۔ مگر وہ کسی طرح ماننے کو تیار نہ تھاآخر کار تھک ہار کر مجھے ہی وعدہ کرنا پڑا کہ بابا آئندہ تمہارے گھر پلٹنے کے وقت میں گھر میں ہی ملوں گی اور خود ہی دروازہ کھولوں گی یوں یہ جھگڑا ختم ہوا۔ کبھی کبھی اس کا یہ شدید لگاو مجھے خوفزدہ کر دیتا تھا کہ خدانخواستہ کبھی میں ایک آدھ دن کو نہ ہوئی تو علی پر کیا گذرے گی اس لئے میں ایسا سوچتی بھی نہیں تھی کہ کوئی دن ایسا ہو کہ میں ہوں علی نہ ہو۔

شکراً للہ۔شکراً للہ۔شکراً للہ۔

علی کی دھیمی آواز پر میں بیدار ہوئی ۔ دھندلکی فضا تھی بوجھل پلکوں کو زبردستی اٹھایا اور اپنا ہاتھ سر کے نیچے رکھ لیا۔ مجھے نماز کے بعد علی کی طویل سجدے بہت بھاتے تھے۔میرے پپوٹے پھر بند ہونے لگے اور علی کی تسبیح کی سیں سیں کی آواز دور ہونا شروع ہوگئی۔

-اٹھو مریم جان۔ نماز قضا نہ ہوجائے۔

میں چونک پڑی مجھے کیا معلوم تھا کہ دوبارہ سو جاوں گی بہت مشکل سے جسم کے بوجھ کو بستر سے کھینچا ۔ میری تمام نماز کے دوران علی کمرے کے کونے میں ، گھٹنوں کو سینے سے لگائے بیٹھا رہااور سر کو دیوار سے ٹکائے رہا۔ میں نے نماز کا سلام پھیرا  اور اس کو دیکھا۔

-سونا نہیں ہے کیا؟؟

اس نے اپنا منہ میری طرف کیا ۔ اس کا چہرہ آنسووں سے تر تھا، میں ڈر سی گئی۔

-کیا ہوا؟

اس  نے ہتھیلی ماتھے پر رکھ لی کہ میں اس کا چہرہ دیکھ نہ سکوں۔ اس کے کندھے لرزتے ہوئے محسوس ہوئے۔ میں نماز کی چادر اوڑھے اوڑھے اس کے قریب گئی ۔ میری زبان بے حس و حرکت تھی اور میں کوئی سوال نہ کر پا رہی تھی۔

-مریم۔۔۔۔۔۔ میں بہت زیادہ دن نہیں جیوں گا۔

میرا سر ایک دم چکر اگیا میں نے اس کا ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹایا اس نے مجھے دیکھ کر کہا:

-بہت برا خواب دیکھا ہے میں نے۔

میں نے تھوک نگلتے ہوئے کہا :

-ارے بابا یہ کیا بکواس ہے مریں تمہارے دشمن۔۔

میں چاہتی تھی وہ مزید کچھ نہ بولے ۔ اس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔

-مریم بخدا میں سچ کہتا ہوں اب میں زیادہ دن زندہ نہیں رہوں گا۔

میرے جسم میں جھرجھری آگئی اس کا ماتھا چوما  مگر آج اس کی آنکھوں میں پہلے سا اطمینان نہ تھاسو مجھ میں بھی اب کسی ہنسی مذاق کی ہمت نہ تھی ۔ بمشکل تمام، اندوہگین لہجہ میں کہا:

-خدا نے چاہا تو سب اچھا ہوگا۔ صدقہ ردِ بلا ہوتا ہے ہم صدقہ دے دیں گے۔

اس نے سر زانو میں دے رکھا تھا اور اس کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔ تاریک کمرے میں جان نکلی جاتی تھی اور کچھ سمجھ نہ آتا تھا کیا کروں۔

اس نے اپنا خواب کبھی مجھے نہیں سنایا مگر اس اس کے دن کے بعد وہ ہم سے اور بھی نزدیک ہوگیا تھا اس کی چال ڈھال یکسر تبدیل ہوگئی تھی۔ وہ ایک ساتھ رہنے کے ہر ہر لمحے کو غنیمت شمار کر رہا تھا۔  ایک دن وہ کام سے جلدی گھر آ گیا  تاکہ ہم کوئی گھر ڈھونڈھ سکیں۔ میں بچوں کو بھی ساتھ لے جانا چاہتی تھی مگر علی نے کہا کہ بچوں کے ساتھ گھر ڈھونڈنا بہت مشکل ہوگا اور مجھے بھی بغیر بچوں کے جانے پر راضی کر لیا۔ ابھی ہم کچھ دور ہی چلے ہونگے کہ علی نے کہا چلو ہوٹل استقلال کی طرف چلتے ہیں۔ میں نے کہا:

-ہماری مالی حالت وہاں گھر لینے کی ہے؟

علی نے کہا:

-ہوٹل استقلام میں کافی بہت اچھی ملتی ہے وہ پیتے ہیں۔

میری چھٹی حس بیدار ہوئی اور میں سمجھ گئی کہ ضرور کوئی غیر ملکی مہمان آیا ہوگا اور علی نے اس کے ساتھ کافی پی ہوگی لہٰذا اب مجھے بھی لے جارہا ہے۔ اس کو ہمارے بغیر کچھ کھانے پینے کی عادت نہیں تھی اور جب کبھی اس کو مجبوراً باہر کچھ کھانا پڑ جاتا تو یا تو ہم لوگوں کو بھی اسی جگہ لے جاکر وہی چیز کھلاتا یا پھر وہ کھانا ہمارے لئے گھر لے آتا، آج بھی اس کا یہی ارادہ تھا کہ مجھے ہوٹل استقلال لے جا کر میرے بغیر کافی پینے کا ازالہ کر سکے۔

میرا تمام دھیان بچوں کی طرف تھا اور علی اطمینان سے بیٹھا ان تمام چیزوں کا آرڈر دے رہا تھا جو اس نے مہمان کے ساتھ کھائی ہونگی۔ وہ گھر ڈھونڈنے کو یکسر فراموش کر چکا تھا۔ کھا پی کر ہم فارغ ہوئے تو علی نے میرا ہاتھ تھاما اور ہم نے چہل قدمی شروع کردی۔ بس میں تھی اور علی نہ ہم کسی کو دیکھ رہے تھے نہ کسی کی آواز ہمارے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ میں علی کے شانہ بشانہ بادلوں میں محو پرواز ہوں۔ وہ بچوں کی طرح سے میری ہمراہی کا لطف لے رہا تھااور بہت بہت خوش تھا۔ وہ ہنس ہنس کر بڑے ذوق و شوق سے باتیں کر رہا تھا جیسے ہم مدتوں بعد ملے ہوں آج اس کے  پاس کہنے کو بہت کچھ تھا۔ مجھے لگتا تھا وہ تیز رو وقت اور سخت حالات سے لڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس دوران میں نے بھی گھر اور بچوں کا کوئی تذکرہ نہ کیا تاکہ وہ اطمینان سے رہے اور شاید میں خود بھی ان   فرصت کے لمحات کی متلاشی تھی۔



 
صارفین کی تعداد: 1760



http://oral-history.ir/?page=post&id=10670