ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، چوبیسواں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2022-10-21


انہی دنوں مختلف اداروں کے بین الاقوامی شعبے جن میں ادارہ تبلیغات، وزارت ثقافت اور مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام شامل تھے، ایک نئے ادارےمیں مدغم ہوگئے تھے جس کا نام ادارہ فرہنگ و ارتباطات تھا۔ علی بھی اب اسی ادارے کا ایک رکن تھا۔

اس ادارے کا ایک کام غیر ملکی مسلمانوں کو مختلف مذہبی و ثقافتی سرگرمیوں کے لئے ایران مدعو کرنا تھا تاکہ ایران  سے  جو خوف لوگوں کے دل میں ہے اس کو دور کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اکثر مشہد اور اصفہان کے زیارتی اور تفریحی  سفر تشکیل دئیے جاتے تھے۔  ان پروگرامز کو رو بہ عمل کرنے میں جن لوگوں کا بڑا ہاتھ تھا ان میں ایک شخص انگلستان کے رہائشی تھےجو برطانیہ کے تازہ مسلمانوں کو مختلف جگہوں سے جمع کر کے ایران لے آتے تھے  علی ان کے اور ادارے کے درمیان رابطے کا کام کرتا تھا اور لازمی رقوم اور منصوبہ بندیاں ان کو فراہم کیا کرتا تھا۔ جن لوگوں کو ایران مدعو کیا جاتا ان میں اردو بولنے والے بھی ہوا کرتے تھے، ایسے ہی ایک سفر میں مجھے بھی اردو زبان خواتین کے لئے مترجم کے طور پرمشہد  بھیج دیا گیا۔ میں ان خواتین کے حجاب ، ایران ، اسلام اور انقلاب کے بارےمیں سوالات کے جوابات دیتی تھی چونکہ یہ لوگ تازہ مسلمان ہوئے ہوتے تھے سو ان کو اسلام اور ایران کی جزئیات سے زیادہ آگاہی نہ ہوتی تھی۔

یہ چند روز جو مشہد میں گذرے انہوں نے مجھے ہندوستان کی یاد دلا دی۔ علی بغیر کی تعطل کے مسلسل کام میں لگا رہتا میری اور اس کی ملاقات بہت کم ہی ہو پاتی تھی۔ کھانے کے کمرے میں ہم سب جمع تھے اور میری نظریں اس کا تعاقب کر رہی تھیں۔ وہ آخری شخص تھا جو کھانے کے کمرے میں داخل ہوا اور بچا کچا ٹھنڈا کھانا بڑی رغبت کے ساتھ تناول کرنے لگا۔ اسکی آنکھیں پھر سے اندر دھنسی ہوئی اور سرخ ہورہی تھیں یعنی وہ پھر سے کم خوابی کا شکار تھا ۔ اس کا یہی دستور تھا جب بھی اس کے پاس کام ہوتا تھا نیند اس کے لئے بے معنی ہوجایا کرتی تھی۔

ہمیں گھر کرایہ پر لئے ایک سال ہوا ہوگا کہ ہم ایک عدد فولکس[1] خریدنے کے قابل ہوگئے۔  افف اس گاڑی کی رسوا کر دینے والی گڑ گڑاھٹ۔۔۔۔ ایک دن حیدر پور صاحب نے ہمیں اپنے گھر دعوت پر بلایا۔ ان کا گھر تہران کے شمالی علاقے میں تھا۔ کیا پرفضا علاقہ تھا۔ خاموش اور پر سکون محلہ۔ اچانک ہی ہماری فولکس کے شور نے سارے محلے کو سر پر اٹھا لیا حیدر پور صاحب بھی کہنے لگے:

۔اس گاڑی نے تو سارے محلے میں ہماری عزت پر پانی پھیر دیا۔

واپسی پر رات کافی گذر چکی تھی ۔ فولکس پھر سے شور مچائے تو کہیں محلے والے ناراض نہ ہوجائیں بس یہی سوچ کر حیدر پور صاحب نے اپنے دو بیٹوں کے ساتھ ہماری گاڑی کو گلی کے کونے تک دھکا دیا اور سڑک پر آکر کہا:

جناب اب اسٹارٹ کریں اور جائیں خدا حافظ۔

گاڑی میں بیٹھے ہنس ہنس کر ہمارے پیٹ میں بھی بل پڑ گئے تھے۔

مہدی ،اعلیٰ تعلیمی اسکول[2] میں تھا، فہیمہ ثانوی [3]میں اور محمد ابتدائی[4] میں زیر تعلیم تھا۔ ابھی تعلیمی سال ۱۳۷۴[5] ختم نہ ہوا تھا کہ علی نے ملتان جانے کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ ملتان ، پاکستان کے صوبہ پنجاب کا چھوٹا سا شہر ہے۔

 

[1] ایک گاڑی کا نام

[2] High school

[3] secondary

[4] primary

[5] ۱۹۹۵-۹۶



 
صارفین کی تعداد: 1073



http://oral-history.ir/?page=post&id=10818