ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، چھبیسواں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2022-10-21


ادارہ فرہنگ و ارتباطات میں علی کا عہدہ اب تک مشخص نہیں تھا  اور دوسری طرف ادارہ تبلیغات بھی ابھی تازہ تازہ ادارہ فرہنگ و ارتباطات کا رکن بنا تھا اس لئے اس ادارہ کا کوئی مستقل ملازم  نہیں تھا  سو تنخواہوں کا سلسلہ ابھی تک نہ بندھا تھا ۔ دو ماہ ہوئے کہ علی کو بھی کوئی پائی پیسہ نہ ملا تھا آگے بھی تنخواہ کی امید کم تھی مگر اس نے بچوں کے امتحانات ختم ہونے تک صبر کرنے پر رضا مندی ظاہر کردی۔ ابھی اس کے کام کی نوعیت پوری طرح واضح نہیں تھی کہ ہم نے گھر کا سامان بیچنا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتےسارا گھر  خالی ہوگیا اور اب گھر میں دو اٹیچیاں بچی تھیں جن میں ہمارے کپڑے تھے یا کچھ برتن وہ بھی ایک جاننے والے نے ہمیں عنایت کئے تھے یا یوں کہوں کہ ہمارے کچن کے اسٹور میں میں رکھ دیئے تھے۔

سفر سے دو ہفتہ قبل ایک رات ہم سب علی کے گھر والوں کے ساتھ ''پارک ساعی'' گئے۔ رات کا کھانا سب نے مل کر کھایا علی مسلسل اشاروں کنایوں میں کہہ رہا تھا کہ اٹھو کچھ دیر ساتھ میں چہل قدمی کرتے ہیں اور میں مسلسل بچوں کے بہانے اس کو ٹال رہی تھی۔ واقعاً مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ رات کے اندھیرے میں بچے گم نہ ہوجائیں۔ جب وہ اس طرح مجھے راضی نہ کر سکا تو اپنی بہن کو آواز دی  اور بچے اس کے سپرد کرکے فاتحانہ انداز میں میری جانب دیکھاکہ اب میں کوئی بہانہ نہ کرسکتی تھی سو اس کے ساتھ چل پڑی۔

ہم ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ٹہل رہے تھے اس بات سے بے خبر کہ علی کی شیطان بہنیں ہمارا پیچھا کر رہی ہیں میں نے یونہی مڑ کر جو پیچھا دیکھا اور ان پر نظر پڑی تو لگیں قہقہے لگانے:

-پکڑ لیا بچو۔۔۔ تین تین بچوں کے بعد تازہ شادی شدہ جوڑا بنے ہوئے چونچلے کر رہے ہو تم لوگ؟

میں علی کو خوش کرنا چاہتی تھی سو علی کے بازو کو مضبوطی سے تھام لیا اور اس کے اور نزدیک ہو کر کہا:

-ہاں تو اور کیا۔۔۔

علی بھی خوش تھا اور ہنس رہا تھا۔ پارک کا ایک چکر لگا کر ہم واپس آئے تو پتا چلا محمد صاحب گم ۔۔ دس منٹ کی تفریح عذاب بن گئی۔ میں شدید اعصابی تناو کا شکار ہو گئی اور علی پر برس پڑی

-کتنا منع کر رہی کہ نہیں جانا نہیں جانا۔ بس اسی لئے ضد کر رہے تھے؟ اب اس اتنے بڑے پارک میں اتنے گھنے درختوں میں رات کے اس وقت میں بچے کو کہاں ڈھونڈوں؟

جس کو جہاں کا راستہ ملا محمد کو ڈھونڈنے نکل پڑا۔ میں نے علی پر ایسی چڑھائی کی تھی کہ بے چارہ  محمد کو جو ڈھونڈنے گیا تو اس کو تلاش کرکے اپنے ساتھ لئے بغیر واپس نہ پلٹا۔ علی نے شاید تھوڑا بہت بچے کو ڈانٹا بھی تھاکہ دور کیوں چلا گیا تھا۔ بچے کے سفید گال سرخ تھے، پسینہ میں ڈوبا ہوا تھا اور ایک ہونٹ باہر کو نکالے رونے کے لئے بالکل تیار تھا جیسے ہی مجھے دیکھامیری طرف دوڑا اور میری چادر کے نیچے چھپ کر رونے لگا۔



 
صارفین کی تعداد: 1177



http://oral-history.ir/?page=post&id=10820