عراقی قیدی اور مسلط شدہ جنگ کے راز: 1

تالیف: مرتضی سرہنگی
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ

2022-11-29


"الفضل ما شھدت بہ الاعداء" یہ عربی زبان میں ایک مشہور مقولہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ " فضیلت وہ کہ جس کا دشمن بھی اعتراف کرے اور گواہی دے۔"


اسلامی جمہوریہ ایران پر آٹھ سال تک جو جنگ مسلط کی گئی اس کے حقایق اور واقعات انسانی سوچ سے زیادہ تلخ ہیں۔ جناب مرتضی سرہنگی صاحب نے بے حد زحمتوں اور تکالیف کے ساتھ مختلف مواقع پر عراقی قیدیوں سے انٹرویو لیے اور پھر ان کو 1983 میں کتابی شکل دے کر غیور اور بہادر ایرانی عوام تک پہونچایا۔


آغاز میں تو بے شمار ایسی مشکلات پیش آئی ہیں جنہیں دیکھ کر مصنف کے بقول کہ، "لگتا تھا کہ یہ کام ادھورا ہی رہ جائے گا لیکن اللہ کی مدد شامل حال رہی اور شہدا کے خون کی برکت سے میں سرخرو ہوا اور اس کام کی تکمیل ہو ہی گئی۔ شروع میں ہی یہ کام بہت پھیلا ہوا اور پیچیدہ لگنے لگا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کام کی اہمیت میرے لئے مزید بڑھتی چلی گئی اور جب آغاز میں کچھ انٹرویو تیار ہوئے تو ان کو اخبار میں چھاپنا شروع کیا جس پر ایرانی عوام نے بہت سراہا اور میری حوصلہ افزائی کی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ یہ کتنا اہم اور ضروری کام ہے اور یوں ایک ایک دن کی تکلیف میرے لیے آسان ہوتی چلی گئی۔۔۔"


*ایک سوال:*
 یہ انٹرویوز پڑھنے کے بعد بہت سے افراد نے مجھ سے رابطہ کیا اور مختلف الفاظ میں یہ سوال کیا کہ کیسے ممکن ہے کہ دشمن فوج کے قیدی اتنی شفافیت کے ساتھ انٹرویو دیں اور ہمارے سامنے اپنے ہی مظالم کا اعتراف کریں۔۔۔؟


تو اس کے جواب میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس جنگ کے نقصانات نے جہاں ایران کو متاثر کیا ہے وہیں پہ اسلامی دنیا کے ممالک پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ خود عراق بھی اس جنگ کے بعد ہر شعبہ میں بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ جس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ خود عراقی فوج میں یہ جنگ لڑنے کا دم نہیں تھا۔ در حقیقت غیر ملکی جنگی ماہرین تھے جو اس جنگ کو اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے تھے، ورنہ تو بے شمار جنگی فوجی ابتدائی جنگی مہارت سے بھی آشنا نہ تھے۔ یہ عراقی لوگ اپنے ملک کی آرمی میں رہ کر اپنی نوکری کی ایام پوری کر رہے تھے، اب ان بیچاروں کو جنگی حکم دے کر محاذوں پر بھیج دیا گیا۔ ان کی تو نفسیات ہی جنگ والی نہ تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ جنگ کے ابتدائی مہینوں میں جو عراقی اسیر ہوئے ان کی دعا یہ ہوتی تھی کہ صدام کا قلع قمع ہوجاے اور یہ اپنے بیوی بچوں کے پاس لوٹ کر جائیں، تو زیادہ تر جو جنگی نمائش پیش کی گئی اس کے پیچھے جیش الشعب اور غیر عراقی جنگی نوکر جنہیں آپ کراے کے قاتل کہیں یا کچھ اور، ان کا عمل دخل تھا۔


یہ البتہ عام سپاہیوں کا حال تھا۔ اور افسر طبقے کا حال ان سے الگ تھا۔ اور وہ یہ آج کا عراقی فوج کا سٹاف اس جنگ کے زمانے والا سٹاف نہیں تھا جس نے بارہ بریگیڈز کے ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر اسلامی جمہوریہ ایران پر وحشیانہ حملہ کیا تھا اور پیش قدمی کرتے ہوئے خون کی ہولی کھیلی۔ اسلامی انقلاب کے فورا بعد یہ فوج حملے کے لئے تیار بیٹھی تھی اور صدام اور اسکی بعثی پارٹی نے اس جنگ کو بیسویں صدی کی "جنگ قادسیہ" کا نام دیا تھا، اور اس کے ایک حصہ عرب کا عجم کے خلاف تعصب تھا جسے اس جنگ کی تھیوری میں نمایاں جگہ دی گئی تھی۔ اس تعصب کو عراقی فوج کے سٹاف کے ہر فرد کی رگوں میں اتارا گیا لیکن اسی تعصب نے ہی عراق کو ابتدائی چھے ماہ میں  اس جنگ میں شکست دے دی، اور جب ایرانی افواج نے جم کر جوابی کارروائی شروع کی تو عراقی فوجی مزید پسپا ہونے لگی، حتی ثامن الائمہ آپریشن میں آبادان شہر کا جنگی محاصرہ ٹوٹ گیا اور یہ بڑے پیمانے پر پے در پے عراقی شکست کا آغاز تھا جس میں ایران کی جانب سے فتح المبین اور بیت المقدس آپریشن نمایاں رہے۔ یہ وہ فوج تھی جو اپنے پروپیگنڈوں اور رجز خوانیوں میں بارڈر پر واقع خوزستان نامی ایرانی صوبے کو تین دنوں میں فتح کرنے کے گن گا رہی تھی۔ لیکن پانسہ پلٹنے میں کچھ ماہ لگے اور صدام کے حامی اب جنگ کو، جذبات و خواہشات کی بجائے زمینی حقائق کی بنیاد پر دیکھنے پہ مجبور ہوگئے اور اس نتیجے پہ پہنچے کہ بعثت پارٹی کے دھوکے میں آگئے۔۔


جاری ہے


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 980



http://oral-history.ir/?page=post&id=10899