عراقی قیدی اور مسلط شدہ جنگ کے راز: 3

تالیف: مرتضی سرہنگی
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ

2022-11-29


"میں رقابیہ کے  جنگی علاقے میں ٹینکوں کی سربراہی پر مامور تھا۔ اس آپریشن کی اہمیت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ آپ کی فوجی مداخلت اور حتی حملہ کو روکنے کی خاطر عراق کے اعلی فوجی افسران بذات خود یہاں کمانڈ کر رہے تھے۔ یہاں ہماری فتح کے تمام لوازم فراہم تھے، جن میں بڑے پیمانے پر بارودی سرنگیں اور کانٹے دار تاریں لگانا شامل تھا۔ اب ہمارے اطمینان کا یہ عالم تھا کہ آپ اگر حملہ کرنا بھی چاہیں تو بھی آپ کو بے شمار فوجیوں کی قربانی دینی پڑے گی اور "رقابیہ" کا علاقہ پھر بھی آپ کے ہاتھ نہ آئے گا۔


خیر اس اطمینان و سکون نے ہماری رفت و آمد اور اسلحہ کی حمل و نقل کے ساتھ ساتھ ہماری نفسیات پہ بھی مثبت اثر ڈالا ہوا تھا۔ 


17 مارچ 1982 کو ایک بہت بڑے حملے کا ہمیں حکم دیا گیا جس کامقصد یہ تھا کہ سرحد کے اس پار "دریاےکرخہ" کے ساتھ "شوش" کے علاقے میں آپ کی فوج پر مسلسل حملے کرتے ہوئے عقب نشینی پر مجبور کریں اور پھر ہم خود وہاں قابض ہوجائیں۔ آپ کے عارضی تیراک پل اور تمام جنگی امداد، جو بستان کے راستے سے آ رہی تھی، ہمارے ٹینکوں کی زد میں تھیں۔ ہم تیار تھے اور دو دن بعد اس حملے کا آغاز کر دیا گیا۔ شروع میں تو "سب اوکے" کی رپورٹ تھی لیکن جلد ہی پانسہ پلٹنے لگا۔ میرے ساتھ میرا ایک شاگرد اور ماتحت افسر بھی تھا اور اس بٹالین کا سربراہ افسر، صدر صدام کا بہت قریبی تھا اور ہر وقت اس کوشش میں رہتا تھا کہ ہر قیمت پر جنگی کامیابی حاصل کرے اور  بعثی گروپ سے پروموشن اور میڈل حاصل کرے۔"

 

جاری ہے


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 1039



http://oral-history.ir/?page=post&id=10901