ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، چونتیسواں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-04-20


گھر میں قرمہ سبزی[1] کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ علی بھی گھر آگیا۔ میں سمجھی دوپہر کا کھانا کھانے آیا ہےسو میں برتنوں میں کھانا پروسنے لگی۔

۔ میں ایک مجلس میں جا رہا ہوں چراغ جلے آوں گا۔

یہ کہا اور کپڑے بدلنے چلا گیا میں زہیر کی صبح والی بات یاد کرنے لگی  اس نے کہا تھا کہ جیسے بھی ممکن ہو آج رحیمی صاحب کو باہر نہ جانے دیجئے گا۔ میں نے منہ کو باورچی خانے کے دروازے کی طرف کیا  اور پورے زور سے پکاری تاکہ وہ میری آواز سن لے۔

کھانا نہیں کھاو گے؟

وہ دروازہ کی چوکھٹ پر آیا اور اپنی شرٹ کے بٹن لگاتے ہوئے کہنے لگا

-نہیں تم اور بچے کھا لو  اور ہاں میری واپسی تک دفتر کا دھیان رکھنا۔

میں نے چاہا کہ کچھ کہوں اور اس کو نا جانے دوں مگر یہ سوچ کر چپ ہو رہی کہ وہ میری بات مانے گا نہیں۔ اس نے جوتے پہنے بیگ اٹھایا اور یہ جا وہ جا۔

علی کو جاتا دیکھ کر زہیر نے پھر سرگوشی میں کہارحیمی صاحب ذارا احتیاط نہیں کرتے۔ علی نے دروازہ بند کیا تو میرا دل دہل گیا۔ علی کو جو کوئی جہاں بلاتا وہ چلا جاتا  زہیر لاکھ منع کرتا کہ نہ جائیں نہ جائیں مگر وہ سنتا ہی نہ تھا۔ عموماً وہ محفل کے اختتام سے کچھ پہلے پہنچا کرتا تھا اور بقول زہیر کے انقلاب اور ایران سے متعلق ایک چھوٹی سی تقریر کرتا اور شیعہ سنی اتحاد پر زور دیتا تھا۔

بچے ابھی ابھی اسکول سے آئے تھے  میں دسترخوان چن رہی تھی میرا ذہن طرح طرح کی فکروں اور خیالات سے بھرا ہوا تھا ۔ اچانک دروازہ کھلنے کی آواز آئی ۔ علی کو گئے ابھی ایک گھنٹہ بھی نا ہوا تھا اور وہ کہہ گیا تھا کہ ملتان کے مضافات میں جا رہا ہے سو صرف آنے جانے میں ہی چند گھنٹے لگ جائیں گے۔

-اتنی جلدی لوٹ آئے؟

اس نے کوٹ کو صوفہ پر ڈالا اور چہار زانو دسترخوان پر بیٹھ گیا قرمہ سبزی کی رکابی اٹھا کر سونگھنے لگا

-واہ واہ کیا موقعہ پر پہنچا ہوں دستر خوان سجا ہوا ہے۔

میں سمجھ گئی وہ کچھ بتانا نہیں چاہتا ۔ شام کو میں نے زہیر سے ماجرا دریافت کیا تو بھید کھلا کہ راستے میں اس کو خبر ملی کہ سفر پر خطر ہے لہٰذا علی ، زہیر کے اصرار پر لوٹ آیا۔ اس کے بعد یہ کئی بار ہوا کہ علی کہیں دعوت کے لئے نکلا اور آدھے راستے سے ہی لوٹ آیا اس کے باوجود بھی اس کو کوئی مدعو کرتا تو وہ جانے پر تیار رہتا۔

اسی سال محرم الحرام میں ایک مجلس عزاء پر حملہ ہوا اور تقریباً ۹۰ لوگوں نے جام شہادت نوش کیا یہ وہ وقت تھا جب میں زہیر کی پریشانیوں اور گھبراہٹوں کا سبب سمجھ گئی۔ لوگوں کے درمیان نفرت کی ہوا چل پڑی تھی اور اب بھی ایک مذہبی شدت پسند تنظیم کا نام ہی گردش میں تھابالکل شہید گنجی کے واقعہ کے طرح۔ اب میرے احساسات تبدیل ہو چکے تھے میں خطرے کو گھر میں داخل ہوتا ہوا محسوس کر رہی تھی میں نے لوگوں سے سن رکھا تھا کہ یہ گروہ ہر قسم کی عزاداری اور ماتمی جلوسوں کا مخالف ہے۔ عزاداری کی مجالس اور جلوسوں پر پابندی کے لئے کئی بار ان خبیثوں نے حکومت کو درخواست بھی دی مگر جب وہاں  شنوائی نہ ہوئی تو ان لوگوں نے اس کام کا بیڑا خود اٹھا لیا۔ اب میں ہر گذرتے دن کے ساتھ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی صورتحال کو پہلے سے زیادہ محسوس کر رہی تھی ۔ شیوں کے خون سے زمیں کو سرخ کیا جارہا تھا اور کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ تمام لوگوں کا اس پر یقین تھا کہ پاکستان میں قاتلوں کو سزا دینے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی حکومت کی بھی ان وسائل تک رسائی نہ تھی جن کی مدد سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جاسکے۔

 

[1] ایک ایرانی کھانا ہے جس میں خوشبودار سبزیاں گوشت یا مرغ کے ہمراہ پکائی جاتی ہیں اور اس کو زیادہ تر چاولوں کے ساتھ کھایا جاتا ہے



 
صارفین کی تعداد: 745



http://oral-history.ir/?page=post&id=11157