جب فوجی ٹینک نے جیپ کو روند دیا!
ترجمہ: محب رضا
2023-08-15
15 خرداد 1342 )شمسی سال (کے روز ہم اپنے دو دوستوں کے ہمراہ اسکول جا رہے تھے۔ اس دن ہمارا امتحان تھا۔ جب وہاں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ انہوں نے اسکول کو چاروں طرف سے گھیررکھا ہے۔ جب ہم مزید قریب پہنچے تو دیکھا کہ پولیس اور فوجی اہلکار اپنے ہاتھوں میں بندوقیں لیے اس جگہ کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔ ہم اندر داخل ہونے ہی والے تھے کہ ایک اہلکار بولا: "الگ الگ داخل ہو!" اور انہوں نے ہمیں ایک ایک کرکے اندر بھیجا۔ جب ہم داخل ہوگئے تو پتہ چلا کہ باہر نکلنا منع ہے۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اسکول جانا پھنس جانے کے مترادف ہے، تو حتیٰ اگر میں امتحان بھی نہ دے پاتا، مگر وہاں نہ جاتا۔ جب ہم نے صبح کا پہلا امتحان دے دیا اور باہر نکلنا چاہتے تھے،تو انہوں نے ہمیں جانے نہیں دیا اور کہا: "دوپہر کا کھانا ادھر ہی کھاوَ!"
پھر، اگرچہ اس دن ہمارا کوئی اور امتحان نہیں تھا، لیکن انہوں نے دوپہر کے کھانے کے بعد ہمارا ایک اور امتحان رکھ دیا۔ وہاں ہم نے سنا کہ شہر میں ہنگامہ برپا ہے۔ اسکول کی عمارت سات منزلہ تھی۔ ہم اسکول کی چھت پر گئے کہ دیکھیں کیا ہو رہا ہے، ہم نے دیکھا کہ شہر کے وسط میں گاڑھا دھواں اٹھ رہا ہے۔ بتایا گیا کہ بازار والوں نے وہاں مظاہرہ کیا ہے اور عدالت اور تھانے کو آگ لگا دی ہے۔ مظاہرین ریڈیو کی عمارت پر قبضہ کرنے آئے تھے۔ اس مظاہرے کا مرکز "ارگ" کا چوک تھا، جہاں لوگوں پر گولی چلائی گئی۔ یہ ہنگامہ شام تک جاری رہا اور ہم نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح اسکول سے نکل سکیں مگر کوئی کامیابی نہ ہوئی۔
ساواک نے ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل کو اسکول کا منتظم مقرر کیا تھا۔ اس دن اختیار صرف اس کے ہاتھ میں تھا۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹر اور استاد وغیرہ کچھ نہیں کر سکتے تھے اور ہر ایک کو صرف اس کی اجازت سے داخل ہونا یا باہر جانا ہوتا تھا۔
اس دن، صبح کے وقت میرا بھائی کرامت میرے پاس آیا تھا اور مجھے بتایا تھا کہ وہ سینما جانا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ، جب سے گھر سے نکلا تھا، مجھے اس کی کوئی خبر نہیں تھی۔ چونکہ ہم ایک دن پہلے ایک ساتھ مظاہرے میں گئے تھے تو میں نے سوچا شاید وہ آج بھی مظاہرے میں گیا ہوگا اس لیے میں بہت پریشان تھا۔ البتہ مجھے ابھی اس سانحے کی اتنی تباہی کا علم نہ تھا اور میں ہر چیز سے بے خبر تھا۔ بہرحال میں اسی بریگیڈیئر کے پاس گیا اور کہا: "میرا ایک بھائی ہے جو شہر گیا تھا، سینما دیکھنے۔ میں اس کی خبر لینا چاہتا ہوں۔"
اس نے کہا: نہیں؛ یہ ناممکن ہے!"
میں نے کتنا ہی اصرار کیا اور منت سماجت کی کہ باہر جا سکوں اور شہر جا کر دیکھ سکوں کہ کیا ہوا ہے، اس نے مجھے اجازت نہیں دی۔ امتحان ختم ہونے کے بعد میں نصیری لاری کے ساتھ دوبارہ بریگیڈیئر کے پاس گیا اور بہت درخواست کی۔ آخرکار وہ بولا: "تم اکیلے جا سکتے ہو."
میں اکیلا باہر نکلا۔ نصیری لاری میرا کلاس فیلو تھا۔ اس کی اور میری اتنی دوستی کی وجہ سے لڑکے ہمیں ’’دو کبوتر‘‘ کہتے تھے۔ اس نے بھی میرے ساتھ جانے پر بہت اصرار کیا لیکن اسے اجازت نہیں ملی۔
میں اسکول سے باہر آیا اور بڑی مشکل سے ایک ٹیکسی لی۔ کیونکہ ٹریفک معمول کے مطابق نہیں تھی اور کوئی گاڑی فوزیہ چوک (اب امام حسین سکوائر) کی طرف نہیں جا رہی تھی۔ میں پچھلی گلیوں سے ہوتا ہواچوک پر پہنچا۔ میں نے خیابان شاہ رضا (موجودہ خیابان انقلاب)، جو اسی چوک کی جانب جاتی تھی، پر ایک ایسا منظر دیکھا جو میرے لیے واقعی عجیب تھا۔ میں نے ایک جیپ دیکھی، جس کے نصف حصے کو ٹینک نے کچل دیا تھا اور اسکا ڈرائیور سڑک کے اوپر پچکا پڑا تھا۔ جیپ کا دوسرا آدھا حصہ، پچکے ہوئے حصے کے ساتھ کھڑا تھا۔ ’’یہاں کیا ہوا ہے؟‘‘ میں نے وہاں موجود کسی سے پوچھا۔
مجھے یاد ہے، اس دن اگر صرف دو لوگ بھی کھڑے ہو کر آپس میں باتیں کررہے ہوتے، تو اہلکار انہیں منتشر کر دیتے تھے۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا،"اسی طرح چلتے ہوئے بتائیں کہ کیا ہوا ہے؟"
انہوں نے بتایا، "جیپ جا رہی تھی کہ انہوں نے اسے وارنگ دی کہ سائیڈ پر رک جاوَ"۔ جیپ کے ڈرائیور نے ایسا نہیں کیا۔ ٹینک بھی نہیں رکا اور پلک جھپکتے ہی جیپ پر چڑھ گیا۔ اس کے بعد، فٹ پاتھ کے ساتھ والی بالکونی کے اوپر سے دیہاتی یا خانہ بدوشی کپڑوں میں ملبوس ایک شخص نے، جو نہیں معلوم کون تھا اور کیا کرتا تھا، ٹینک ڈرائیور پر چھلانگ لگا دی اور ٹینک ڈرائیور کے گلے میں بازو لپیٹ کر اس کا گلا گھونٹ دیا۔ وہ خود بھی اسی وقت شہید ہو گیا اور ابھی ادھر ہی گرا پڑا ہے۔
جیسے تیسے میں آگے بڑھا تو دیکھا کہ وہ لاشوں اور زخمیوں کو ڈمپر میں ڈال کر لے جا رہے ہیں۔ یہ زخمی جتنا ہی شور مچا رہے تھے کہ "ہم زندہ ہیں، ہم زخمی ہیں، ہمیں ہسپتال پہنچا دو"، مگر یہ کوئی توجہ نہیں کر رہے تھے۔ بعد میں بتایا گیا کہ انہیں رے شہر میں واقع "ابن بابویہ" قبرستان کے پیچھے کھودے گئے ایک بڑے گڑھے میں پھینک دیا گیا اور پھر اس گڑھے کو پر کر دیا گیا۔
میں اسی طرح آگے بڑھتا جا رہا تھا کہ انہوں نے ایک بار پھر اعلان کیا کہ چھ بجے کے بعد مارشل لاء لگ جائے گا۔ ابھی غروب آفتاب سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے کا وقت تھا۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ آج میں نے اپنے بھائی سے طے کیا تھا کہ سڑک پر کھڑا ہو تاکہ جب میں ٹیکسی سے آؤں تو ہم اکٹھے ریلوے اسٹیشن جا سکیں۔
قریب ہی میرے ایک دوست کا گھر تھا جو رودسر کے علاقے کا تھا، میں اس کے گھر کی جانب گیا تاکہ اپنے بھائی کا پتہ چلا سکوں۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ میرا بھائی وہاں موجود ہے۔ میں نے کہا: "تم کہاں تھے؟! میں اس ہنگامے میں تمہیں ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔"
اس نے کہا: "جب یہ ہنگامے شروع ہوئے تو میں سنیما میں تھا۔ اسی لیے میں سینما سے سیدھا ادھر آیا اور ابھی تک یہاں سے باہر نہیں نکلا۔‘‘
بہر الحال مارشل لاء کرفیو کا وقت شروع ہونے سے پہلے ہم جلدی سے گھر پہنچ گئے۔ اس رات، جو صورتحال میں نے دیکھی تھی، اس کی وجہ سے مجھے تیز بخار ہو گیا۔ اسی حالت میں میں نے یہ شعر کہا:
آج کی رات، اے بخار، اے بلا، اے درد، میری جان کو جلا دو!
مجھے جلا دو، میری ہڈیوں کا بند بند جلا دو!
میری روح، آج کی رات، غم کی آگ میں جل جا، مہربانی کر!
میرے اس زخمی تن اور کمزور جسم کو جلا دو!
میں چاہتا ہوں کہ دنیا میں میرا نام و نشان باقی نہ رہے۔
میرے سارے آثار اور نام و نشان کو جلا دو!
تاکہ کسی کو اس المناک کہانی کا علم نہ ہو۔
میری ڈائری آگ میں پھینک دو؛ میری کہانی کو جلا دو!
پھر میں اٹھا اور بے قابو ہو کر اپنی شاعری کی نوٹ بک سمیت اپنی تمام تحریروں کو آگ میں جلا ڈالا۔ اگلے دن میں نے کرامت کے ساتھ ٹرین کا ٹکٹ لیا اور ہم اپنے ایک اور بھائی کے پاس آبادان چلے گئے۔ جب ہم راستے میں جا رہے تھے تو - "شہناز" چوک سے ریلوے اسٹیشن تک – پورا راستہ ٹوٹے ہوئے شیشوں ، شہیدوں کے کپڑوں، خون اور گوشت کے ٹکڑوں سے بھرا ہوا تھا۔
منبع: آقای مهربان: خاطرات غلامعلی مهربان جهرمی، تدوین وحید کارگر جهرمی، شیراز، آسمان هشتم، 1392، ص 53 ـ 57.
15khordad42.ir
صارفین کی تعداد: 1231
http://oral-history.ir/?page=post&id=11381