ماموستا 13
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2024-02-15
جس ادارہ امن، و امنیت کی جانب سے، فوجی تربیت کیلئے ہر گاؤں میں کچھ اساتذہ (انسٹرکٹرز) بھیجے جاتے تھے یہ انسٹرکٹرز جوانوں کو مختلف تربیتی مشقوں کے ذریعے، قومی مزاحمتی تنظیم کے لئے تیار کرتے تھے تاکہ کشیدہ صورتحال اور ملکی سلامتی کو خطرے کی صورت میں ان جوانوں کو استعمال کیا جا سکے اس تربیت میں داخلہ لینے والے طلباء میں سے زیادہ ترکی عمر پندرہ سولہ سال تھی ۔ اسی طرح ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی ایسے تربیتی پروگرام ترتیب دئیے جاتے تھے جس میں ہر شہر سے تقریباً تین سو سے چار سو لڑکے اس تربیت میں حصہ لیتے تھے۔
ابھی مجھے دشہ گاؤں میں آئے ہوئے ایک سال ہی ہوا تھا کہ مجھے خبر ملی کہ مجھے بھی اس تربیتی پروگرام میں حصہ لینا ہے۔ میں اس کو ضروری اور اہم نہیں سمجھتا تھا لہذا میں نے اس خبر پر کان نہ دھرے اور نہ ہی گیا کہ میرے پاس کچھ طلباء آئے اور کہنے لگے " تم نے نام لکھوایا ہے تو اب تم مجبور ہو کہ ان کلاسز اور مشقوں میں لازمی شرکت کرو" ۔
میں سوچ میں پڑ گیا پھر خیال آیا ، شاید اس نام لکھوانے اور رجسٹر یشن کی وجہ وہ رجسٹریشن ہے جو میں نے اسکا وٹنگ کیلئے کروائی تھی، اسوقت میں نوجوان تھا اور وہ بھی اسوقت صرف نو جوانی کا ایک شوق تھا جو دوستوں کے ساتھ پورا کرنے کیلئے میں نے اسکاؤٹنگ میں اپنا نام لکھوا دیا تھا ۔ اب جبکہ میں جوانی کے اس دور میں تھا جب کافی حد تک فکری پختگی آگئی تھی تو اب میں ان بے فائدہ اور خشک تربیتی مشقوں اور لیکچرز میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ لہذا میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ " میں نے کوئی رجسٹریشن نہیں کروائی ہے شاید میرے بھتیجے نادر قادری نے اپنا نام لکھوایا ہو، میرا نام قادر قادری ہے اور آپ شاید ناموں کے مشابہ ہونے کی وجہ سے غلطی سے میرے پاس آگئے ہیں۔ میں نے نہ جانے کیلئے ہرچال چلی ، کہ کسی طرح مجھے اس تربیتی دورے میں نہ جانا پڑے۔بالا خر میری محنت رنگ لے آئی اور وہ میرے بھتیجے نادر قادری کو ٹریننگ کیلئے اپنے ساتھ لے گئے ۔
ہماری اہل دشہ کے جوانوں سے کافی دوستی ہو چکی تھی۔ ہر رات کچھ جوان ہمارے کمرے میں ہم سےملنے اور گپ شپ لگانے آتے تھے اور اسی گپ شپ کے دوران ہی ہم گہرے دوستوں کی طرح آپس میں کشتی لڑتے ، کشتی دشہ گاؤں کے جوانوں اور نوجوانوں کا پسندیدہ مشغلہ تھی جو زمانہ قدیم سے یہاں کے لوگوں کے درمیان نسل در نسل چلتی آرہی تھی ہم عشاء کی نماز سے لے کر رات گئے تک کشتی لڑتے اور خوب محظوظ ہوتے۔ دشہ گاؤں کی اس مسجد کی تعمیر بہت پرانی تھی اور ہماری رہائش گاہ والا کمرہ اسی مسجد کے بالکل ساتھ بنی ہوئی دو منزلہ عمارت کی پہلی منزل پر تھا ، ہم اسی کمرے میں کشتی لڑتے تھے ایک رات کا واقعہ ہے کہ ہماری کشتی کا مقابلہ، سنجیدہ شکل اختیار کر گیا اور ہم اتنا جذباتی ہو گئے کہ خوب داؤ پیچ ایک دوسرے کو لگائے اور ایک دوسرے کو اتنا پٹخا اور اتنا مارا کہ ہمارے کمرے کا لکڑی کا فرش جو کہ نیچے والے کمرے کی چھت تھا ، ٹوٹ گیا اور فرش میں سوراخ ہو گیا ۔ جب لوگوں کو اور ملا عمر صاحب کو ہمارے فرش میں اور پنیچے والے کمرے کی چھت میں سوراخ کا معلوم چلا تو وہ کافی ناراض ہوئے ۔ اس واقعے کے بعد کمر ےمیں کشتی لڑنا ہمیشہ کیلئے ممنوع قرار دے دیا گیا اور ہمارے کشتی مقابلے ختم ہو گئے۔
ہمارا کمرہ ایک آرام دہ کمرہ تھا جہاں بہت سکون سے میں اپنے درس کو پڑھتا، مشقوں کو انجام دیتا اور یاد کرتا تھا۔ مگر اس سکون میں خلل ڈالنے والی کوئی نہ کوئی خبر مجھے ملتی رہتی تھی جیسا کہ اس فوجی ٹریننگ کے کورس کی رجسٹریشن والے واقعے کے کچھ عرصے بعد ہی مجھے خبر ملی کہ مجھے فوجی خدمات کیلئے منتخب کر لیا گیا ہے اور بلایا گیا ہے۔ اس دفعہ ادارہ امنیت کی طرف سے چو کی پر تعینات کچھ سپا ہی میرے گھر گئے اور میرے گھر والوں سے بات کی کہ "یہ لازمی ہے کہ آپ کا بیٹا فوجی خدمات کیلئے حاضر ہو "۔مختلف وار ننگز (انتباہ) ان کی طرف سے مجھے موصول ہوتی رہیں مگر میں نے ان پر کوئی توجہ نہ دی ، مگر جب کچھ بن نہ پڑا تو میں نے ادارہ امنیت کے نمائندے کو قانع کیا جو ہمارے گاؤں میں تعینات تھے کہ مجھے کچھ مہلت دے دی جائے پھر میں اس فوجی خدمت کیلئے خود کو پیش کردوں گا اور بھرتی ہو جاؤں گا آکر ، میں نے جو بہا نہ بنایا وہ یہ تھا کہ میرے گھر کے خصوصاً میری والدہ کی کفالت جیسے کچھ ضروری کام میرے ذمے ہیں۔ آپ مجھے اتنی مہلت دلوادیں کہ میں یہ فرائض کسی اور کے سپرد کر دوں تا کہ لگن اور یکسوئی سے ٹریننگ پر توجہ دے سکوں۔میں نے بہا نہ تو کر دیا تھا مگر میں جانتا تھا کہ یہ کام اتنا پائیدار نہیں ہے اسکے لئے مجھے کسی جاننے والے کے واسطے سفارش کی ضرورت ہے اور ساتھ ساتھ مشورے کی بھی تاکہ کوئی حتمی حل تلاشکیا جا سکے۔
اُن دنوں ملا عمر صاحب کافی مصروف تھے انہوں نے دشہ گاؤں کے تمام مذہبی امور کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی اسکے علاوہ وہ ہر ہفتے دو دن کے لئے ہمیں سیا سر گاؤں کے موسم گرما کیلئے بنائے گئے گھر میں اور اپنے باغ لے کر جاتے تھے یہ باغ دشہ گاوں کے قریب ہی واقع تھا۔ ہم وہاں صبح سے مغربمزدوری کرتے اور انہی کے ساتھ واپس آجاتے تھے۔ ملا عمر صاحب نے دشہ گاؤں میں پنجگانہ نمازوں کی جماعت کروانے کے علاوہ نماز جمعہ کی امامت اور گاؤں کے بچوں کی مذہبی تعلیم بالخصوص ہم پانچ طلبہ کی الگ الگ درجوں اور مختلف کتابوں کی مدد سے ہماری ظرفیت اور صلاحیت کے حساب سے ، ہماری تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی بھی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی۔ وہ درس و تدریس میں کوتاہی بالکل برداشت نہیں کرتے تھے اور تعلیم کے معاملے میں سختی سے پیش آتے تھے وہ ان سختیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں امید بھی دلاتے رہتے تھے۔ وہ ان تمام سختیوں کی وجہ اور سبب بتاتے ہوئے کہتے تھے " میری یہی عادت ہے۔ اور یہی سلوک میرا پچھلے طلباء کے ساتھ بھی تھا کہ طالب علم آتے تھے تو میں ان کو ایک کمرے میں بند کر دیتا تھا اور نئے آنے والے طلاب سے کہتا تھااس بند کمرے میں آرام سے سوچ لو اور بتاؤ کہ تمہارا ارادہ کیا ہے اب تاکہ ہمارا وظیفہ اور فرض بھی واضح ہو جائے یا تو دل لگا کر شوق سے درس حاصل کرو یا پھر تمہیں اختیار ہے کہ اس تعلیم اور درس کو خیر باد کہہ دو اور جامع المقدمات کو چومو، یہاں رکھو اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹجاؤ۔
اس چھوٹے سے کمرے میں گھر سے دور ، زندگی گزارنا واقعی بہت مشکل تھا۔ اور اس طرز زندگی کو گزارنے کیلئے شیر جیسے دل اور صبر ایوب کی ضرورت تھی۔ ان سخت و دشوار حالات میں رہ کر تعلیم حاصل کرنا بعض طلبہ کے لئے بہت مشکل تھا جو بعض گزرتے وقت کے ساتھ پیش آنے والی اقتصادی مشکلات کی وجہ سے تعلیمی سلسلے کو جاری نہیں رکھ پاتے تھے اور ان سب کو چھوڑ کر واپس اپنے اپنے علاقوں کو لوٹ جاتے تھے ۔ ہم پانچ طلباء کے ساتھ بھی ایسی ہی مشکلات پیش آئیں جسکی وجہ سے آہستہ آہستہ سب چھوڑ کر جاتے رہے اور تحصیل علوم دینی کو خیر باد کہتے رہے۔ یہاں تک کہ آخر میں صرف ہم دو طلباء رہ گئے ایک میں اور دوسرے آغا عبد الرحمان رحیمی (۱) ہم دونوں نے اس سفر کو نہ چھوڑا اور بالاخر علوم دینی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
صارفین کی تعداد: 1002
http://oral-history.ir/?page=post&id=11730