معصومہ رسولی کی یادداشتوں کا ایک ٹکڑا

نقلی گل لالہ کا گلدستہ

دفاع مقدس کے دوران امدادی کارروائیوں کی یادیں

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ

ترجمہ: سیدہ رومیلہ حیدر

2024-05-23


اسکی شہادت کی خبر آئی تھی، اور میں بہترین انتظامات کرنا چاہ رہی تھی۔ ملارد میں کوئی پھولوں کی دکان نہیں تھی۔ مجھے خیال آیا کہ ہمیں خود ہی گلدستہ بنانا چاہئیے۔ میری والدہ چونکہ تہران میں زندگی بسر کرچکی تھیں تو انہیں گلدستے بنانا آتے تھے اور انکے پاس اسکا سامان بھی تھا۔

اپنے گروپ کی ساتھیوں کو جمع کیا۔ لکڑی کے دستے والے تاروں کو مٹی کے تیل والے ہیٹر پر رکھ کر انتظار کرتے تاکہ وہ گرم ہوجائے اور ہم اسے آرام سے ڈیزائین دے سکیں۔ ساٹن کے کپڑے پر جیلیٹن مل کر اسکے سوکھنے کا انتظار کرتے۔ اسکے بعد میرے والدہ اسکے اوپر گل لالہ کی بناتیں اور اسے اپنے پاس موجود سامان سے مخصوص انداز میں موڑ دیتیں اور اس طرح ایک ایک کرکے گل لالہ بنتے چلے گئے۔

اس دن صبح سے لے کر مغرب تک کا وقت لگا تب جا کر ایک خوبصورت گلدستہ تیار ہوا۔ اب گلدستہ تیار تھا اور ہم اسے ہاتھوں میں لئے کھڑے تھے تاکہ شہید کے گھر جا سکیں کہ اچانک میرا ذہن انقلاب کے ابتدائی ایام کی یادوں میں کھو گیا۔

سن ۱۹۷۹ تھا اور جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ اُس وقت فاطمہ سلطان صاحبہ کے بڑے بیٹے نے جو بعد میں میرے جیٹھ بن گئے اپنے گھر کے ایک حصے میں ورزش کا کلب بنایا ہوا تھا۔ وہاں پر تھیٹر لگایا گیا تھا، اس لئے ہم سب فاطمہ سلطان صاحبہ کے گھر جمع ہوئے تھے۔

تھیٹر کا نام " جدوجہد" تھا، اسکے آکری سین میں علی اصغر شفیعی جو شہید کا کردار نبھا رہا تھا اسے گولی لگی اور وہ زمین پر گِر گیا ہم بھی یہ منظر دیکھ کر رونے لگ گئے۔

کچھ عرصۃ گذرا اور جنگ کا مسئلہ بڑھتا چلا گیا۔

اب علی اصغر شفیعی مھاذ جنگ پر چلا گیا تھا اور اس دفعہ وہ حقیقت میں ملارد شہر کا سب سے پہلا شہید بن کر لوٹ رہا تھا۔

جب ہم پہنچے تو شہید کے گھر میں ترانے پڑھتے ہوئے داخل ہوئے اور وہ گلدستہ شہید کی والدہ کی خدمت میں پیش کیا۔


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 654



http://oral-history.ir/?page=post&id=11900