ماموستا 20
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2024-05-24
اس زمانے میں ملا مصطفی کردستان کی فوج کے کمانڈر اور مہاباد کے جرنل تھے ، مگر سوویت افواج کے ایران سے اخراج کے بعد مہا باد تنظیم تحلیل کر دی گئی اور دسمبر ۱۹۴۶ میں اسکے کمانڈرز اور لیڈروں میں سے کچھ کو قید اور کچھ کوپھانسی دے دی گئی ۔ مگر جنرل بارزانی ، عراق جانے میں کامیاب ہو گئے اور پانچ سو بہترین گوریلاز کے ساتھ ترکی اور ایران سے ہوتے ہوئے آذر بائیجان پہنچ کر سوویت افواج سے جاملے۔
بارزانی خود ماسکو گیا اور علوم سیاسی و نظامی کی تحصیل کے سلسلے میں وہاں شہر بدر کئے جانے والے کردیوں سے رابطہ استوار کیا اسکو سال ۱۹۵۸ میں عبد الکریم قاسم نے عراق بلوا لیا اور وہ شایان شان استقبال کے ساتھ دوبارہ عراق آگیا اور عراق کے شمالی حصے میں کرد نشینوں کے استقلال کے حامیان میں شمار ہونے لگا۔
حتی عراقی حکومت بھی یہاں ان کے علاقے میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتی۔ مجھے آزادی کا احساس ہو رہا تھا اور میں خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا میرے پورے وجود کو ایک سکون دینے والے احساس نے گھیر لیا تھا کہ اب بارزانی کردوں سے مجھے کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی کبھی ہوگا،۔سوسکان کے ایک مقامی شخص سے میں نے تو یلہ کا راستہ پوچھا،۔ تو یلہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جو کو ہ پایہ کے دامن میں واقع تھا جس پر سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمکتا تھا
تو یلہ پہنچ کر پوچھتے پوچھتے یہاں کی بڑی جامع مسجد تک پہنچا تو یلہ میں بنی ہوئی زیاد ۔ تر عمارتیں اور گھر پاوہ اور دوسرے کردستانی گاؤں کی طرز کے ہی ہیں جہاں گھر کا کچھ حصہاونچا اور کچھ نیچا ہوتا ہے اور کچھ سیڑھیوں کے ذریعے دونوں کو متصل کر دیا جاتا ہے۔
الغرض مسجد پہنچ کر دیکھا تو دشہ گاؤں کی طرح یہاں بھی مسجد کے ایک گوشہ میں پانچ چھ طلبا کے ایک ساتھ بیٹھے تھے میں ان کی طرف بڑھا تو انہوں نے بہت گرمجوشی سے میرا استقبال کیا اور مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔ میں بھی بہت خوش تھا اور میری اس خوشی کو یہ بات دو گنا کر رہی تھی کہ ان طالب علموں میں زیادہ تر طلباء ایرانی تھے۔
اور جب مجھے یہ معلوم چلا کہ انمیں سے زیادہ تر سینئر مستعد (۱) ایرانی ہیں میری خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا ۔
تویلہ میں طلباء کو دیئے جانے والے کمرے کی حالت ، دشہ گاؤں کے کمرے سے قدرے مختلف تھی۔ اس کمرے کی ایک دیوار پر علاقائی اسلحہ آویزاں تھا، یہاں کے ایک سینئر طالب علم کو دیکھا جس کا نام ملا حبیب ناوی تھا اور وہ ہمیشہ اپنی کمر پر پستول کی بیلٹ باندھے رکھتا تھا ، میں نے جب اتنے کھلے عام اسلحہ کو طلباء کے ہاتھوں میں دیکھا تو ایک طالب علم سے پوچھا: یہ اسلحہ یہاں کیا کر رہا ہے یہ طلباء کا کمرہ ہے یا فوجی چھاؤنی ؟
وہ کہنے لگا : لگتا ہے تم کو کوئی خبر نہیں خصوصاً یہاں کے حالات سے تم بے خبر اور نا واقف لگتے ہو ورنہ یہ سوال نہ کرتے یہ علاقہ ایران سے بہت مختلف ہے ۔ یہاں کے قاضی شرع ملا حبیب صاحب ہیں اور عبد الوہاب اطروشی (۲) اس علاقے کے حاکم ہیں ملا حبیب اور ان کے حمایتی و نزدیکی افراد ہمیشہ اپنی حفاظت کیلئے مسلح رہتے ہیں اور اسلحہ ان کے ساتھ ہوتا ہے تاکہ وہ حفاظت کر سکیں ۔
تویلہ کی کل آبادی تقریباً ڈھائی سو (۲۵۰) گھروں پر مشتمل تھی اور اس پوری جمعیت کیلئے اس علاقے میں صرف ایک مسجد اور ایک خانقاه (کلیسا) تھی جو کہ مرحوم شیخ عثمان نقش بندی اور ان کے جد مرحوم شیخ عثمان دو رود کے مقبرے کے گرد تھی ، یہ دونوں بزرگ نقش بندی طریقت کی روش سے تعلق رکھنے والے مشائخ تھے۔
میری خوشی کی عمر بہت کم تھی وہ اس طرح کہ ایک رات اس کمرے میں باقی طلبہ کے ساتھ گزارنے کے بعد ہی اور ان سے تھوڑی بہت بات چیت کے بعد ہی مجھے اچھی طرح احساس ہو گیا تھا کہ کا یہ مقام مدرسہ کم اور جنگی ہیڈ کوارٹر زیادہ ہے اور یہاں رہ کر تعلیم (دینی) حاصل کرنا ایک مشکل اور دشوار کام ہے. ان سب سے بڑھ کر یہ بات زیادہ تکلیف دہ تھی کہ سینئر طلباء ، عراق سے چائے کی پتی کو خریدکر دز آور گاؤں کے راستے ، پاوہ اور مریوان شہر میں اسمگلنگ کرواتے تھے اور سینئر ہونے کے ناطے بجائے یہ کہ وہ اپنے جو نیئرز اور ابتدائی مرحلوں میں موجود شاگردوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں اور ان کی مدد کریں، ان کی ساری توجہ پیسے کمانے اور اپنی تنظیم کے مسائل پر تھی اور وہ اپنی تمام تر توجہ اسی پر مرکوز کئے ہوئے تھے اور ان کی وجہ سے ان کے جو نیئررز ان سے یہی سیکھ سکتے تھے اور یہی سنتے تھے، میں نے خود سے کہا : یہ جگہ درس حاصل کرنے کیلئے نہیں ہے۔
اس رات حالانکہ پورا دن کوہ پیمائی اور پیدل چلنے کیوجہ سے میرا جسم چور چور تھا اور تھکن سے میرا برا حال تھا۔ مگر کمرے میں موجود طلباء بالخصوص کمرے کے مسئول اور سینئرز کی گفتگو نے مجھے بری طرح مایوس کیا تھا میں شدید غم و غصے میں تھا۔ ان کی باتوں کو سوچتے اور لفظوں کو پرکھتے پرکھتے نہ جانے کب رات ڈھل گئی ہے اور شدید تھکن اور منزل پر پہنچنے کے بعد بھی میں ایک لمحہ بھی نہ سویا اور پوری رات جاگ کر گزاردی، صبح کی نماز کیلئے بستر سے اٹھا. پھر ناشتہ کیا اور کمرے کو چھوڑنے کا اعلان کر دیا طلباء کا بے حد اصرار اور اس کمرے کا مسجد سے متصل ہونا بھی مجھے وہاں روکنے میں کامیاب نہ ہو سکا گویا مجھے کسی چیز کی کوئی اہمیت نظر ہی نہیں آرہی تھی میں نے مودبانہ اور محبت بھرے انداز میں ان طلباء سے عذر خواہی کی اور یہاں سے اپنے جانے کے ارادے سے ان کو مطلع کیا میں نے ان سے کہا"میری تو قعات آپ طلباء سے کچھ اور تھیں اور میں یہاں رہ کر درس حاصل نہیں کر سکتا.
صارفین کی تعداد: 675
http://oral-history.ir/?page=post&id=11901