شعبہ موسیقی میں انقلاب
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: سیدہ رومیلہ حیدر
2024-05-27
سرکاری ریڈیو اور ٹیلیویژن کے شعبہ موسیقی میں میری ایک بڑی مشکل وہاں موجود افراد تھے۔ ان کی اکثریت نہ ہی انقلاب کی صحیح شناخت رکھتی تھی اور نہ ہی اس پر ان کا اعتقاد تھا۔ دوسری طرف انہیں انقلاب کے طویل عرصہ باقی رہنے کی بھی کوئی امید نہیں تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم زیادہ عرصے تک ٹک نہیں پائیں گے اور بالآخر ہمیں بھاگنا ہوگا۔ اسی تصور کی وجہ سے وہ میرے ساتھ تعاون بھی نہیں کررہے تھے۔ انہیں اس بات کا انتظار تھا کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب میں وہیں چلا جاؤں گا جہاں مجھے جانا ہے!
انکی یہ آرزو میرے لئے درد سر بن گئی تھی ۔ بالآخر ایک اچھے ہنری فن پارے کے لئے ٹیم کا ساتھ ہونا اور ہنری تخصص اور فکر کا ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ ادارے کے ملازمین کا میرے ساتھ تعاون نہ کرنے کا مطلب میں اس میدان میں بالکل تنہا ہوگیا تھا۔ اے کاش میری صرف یہی مشکل ہوتی۔ اس زمانے میں سرکاری ریڈیو ٹی وی کے ادارے کے باہر بھی شعبہ موسیقی پر بہت زیادہ دباؤ تھا۔ ایک طرف تو دینی مدرسوں کا بہت زیادہ دباؤ تھا کہ شعبہ موسیقی کو بند ہوجانا چاہئے اور اگر اسی طرح یہ شعبہ چلانا ہے تو ایسا نہیں ہونے دیں گے! اور اس کے علاوہ سیر پر سوا سیر ادارے میں بائیں بازو خاص طور پر مجاہدین خلق کے نفوذی افراد کی موجودگی! یہ نا مبارک نفوذ آڈیو ڈپارٹمنٹ میں کچھ زیادہ ہی تھا۔
وہ اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ پورے سسٹم کو اپنی جانب منحرف کردیں۔ بعض اوقات ادارے کے موسیقی ڈپارٹمنٹ میں کوئی ایسا ترانہ بنایا جاتا جس میں انحراف بہت واضح نظر آرہا ہوتا تھا۔ مثلا ایک ترانہ بنایا گیا جس کا ایک شعر کچھ یوں تھا:
اگر خدای به من فرصتی دهد یک روز(اگر خدا نے مجھے کسی دن مہلت دی)
کِشم ز مرتجعین انتقامِ آزادی(تو میں قدامت پسندوں سے اپنی آزادی چھیننے کا انتقام لوں گا)
اگر یہ بات صرف پروڈکشن کی حد تک رہتی تب بھی غنیمت تھی، وہ لوگ تو ایسے ترانے بنا کر انہیں سرکاری ٹی وی اور ریڈیو سے براڈ کاسٹ بھی کررہے تھے! عجیب بات یہ ہے کہ یہی افراد کھلے عام یہ باتیں بھی کرتے تھے کہ یہ داڑھی والے، یہ ملا قدامت پسند ہیں! یعنی سرکاری ریڈیو اور ٹی وی سے اس طرح کے ترانے براڈ کاسٹ بھی ہوتے اور کھلے عام ہمارا تعارف بھی کروایا جاتا کہ ہم قدامت پسند ہیں اور بہت جلد ہم سے انتقام لیا جائے گا۔
موسیقی کے پروڈیوسر سے لے کر اسکی دھن بنانے والے، دھن بجانے والوں سے کر گانے والوں میں سے انگشت شمار افراد کے علاوہ سب کے سب انقلاب سے لگاؤ نہیں رکھتے تھے۔ بعض افراد بہت محتاط برتاؤ کرتے تھے تاکہ دیکھ سکیں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اتنا چھوٹا مجموعہ انقلاب کے بعد کے معاشرے میں اچھی موسیقی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے قابل نہیں تھا۔ اس زمانے میں ہم یہ سمجھتے تھے کہ انقلاب سے پہلے کی موسیقی اچھی موسیقی نہیں ہے اور ہمیں اچھی موسیقی تخلیق کرنا ہوگی۔ البتہ گانے وغیرہ کہ جن میں شعر ہوتے ہیں ان کے بارے میں تو معلوم ہوجاتا تھا چونکہ انقلاب کے بعد ہمارے اشعار انقلاب سے پہلے کے اشعار سے کافی مختلف تھے، لیکن جس موسیقی میں شعر نہیں ہوتے تھے ہم سمجھتے تھے کہ یہ سب کی سب ہی طاغوتی رنگ و بو کی حامل ہیں اور شاید ہمارا ایسا سوچنا کچھ غلط بھی نہیں تھا۔ بالآخر اُن سے لوگوں کی یادیں وابستہ تھیں۔ یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ اگر ہم انہیں من و عن براڈکاسٹ کردیں تو تو کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن دوسری طرف نئی موسیقی بنانے میں بھی ہمیں مشکلات کا سامنا تھا۔ دھن بنانے والے دھن بنا کر نہیں دیتے تھے، گانے والے گاتے نہیں تھے۔ کہتے تھے ابھی معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ لوگ رکیں گے بھی یا نہیں ہم کیوں ان لوگوں کے لئے اپنی شخصیت خراب کریں!
مجھے یاد ہے کہ میں نے ان حالات میں مینجمنٹ کی کچھ چالیں استعمال کیں تاکہ شاید کچھ تبدیلی رونما ہوسکے۔ اس وقت تک ادارے میں روزانہ دو تین گھنٹوں کے لئے ایک موسیقی کا گروہ شعبہ موسیقی اور پروڈکشن کے ملازمین کے عنوان سے وہاں آتا تھا جو اپنے گروپ میں کسی اور کو گھسنے نہیں دیتے تھے اور نہ ہی کوئی موسیقی بنا رہے تھے۔ کسی نئے چہرے کو اپنے گروہ میں داخل ہونے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے۔ میں نے اس فضا کو ختم کرنے کے لئے بہت زورلگایا۔ یہ کوششیں دو زاویوں سے جاری رہیں۔ ایک تو یہ کہ جب میں نے دیکھا کوئی بھی نئی موسیقی نہیں بنا رہا تو خود ہی آستینیں چڑھا کر یہ کام شروع کردیا۔ جب میں موسیقی بناتا تو انہیں مجبور ہو کر اسے اجرا کرنا پڑتا۔ اور جب اجرا کرتے تو ان کے مزاج کے برخلاف کہ کوئی نئی چیز نہیں بننی چاہئے ایک نئی موسیقی بن کر سامنے آجاتی۔ بالآخر ان میں سے بعض نے سوچا کہ ہماری یہ مخؒافت کس کام کی ہم کام نہیں کریں گے تو یہ خود ہی کام کرے گا اور نئی پروڈکٹ کے سارے پیسے بھی خود ہی لے لے گا۔ بہتر ہے کہ ہم بھی کام کریں اور پیسے کمائیں۔ آہستہ آہستہ بعض افراد نے ساتھ دینا شروع کیا۔ لیکن دیگر افردا کے لئے میں نے ایک اور طریقہ اپنایا۔ ان میں سے چار افراد جن کی عمریں بھی دوسروں سے زیادہ تھیں انہیں اپنے پاس بلایا مرحوم حسین یوسف زمانی انکے بھائی حسن یوسف زمانی، مرحوم رضا قلی ملکی اور ایک اور صاحب جن کا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ یہ لوگ اس گروہ کے بزرگ افراد تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے بہت شرمندگی ہوتی ہے جب آپ لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ اس عمر میں بھی آُ لوگ روزانہ یہاں آتے ہیں، اپنا ساز اپنے ساتھ اٹھا کر لاتے ہیں اور یہاں اسے بجاتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ آُ اس ملک کا سرمایہ ہیں۔ میرے خیال میں آپ لوگوں کے لئے ضروری نہیں ہے کہ آپ لوگ روزانہ یہاں آنا جانا کریں۔ میں آپ لوگوں کی تنخواہ دوں گا آپ کا جب بھی دل چاہے آئیں جب دل چاہے نہ آئیں۔
اس تجویز سے میرا ایک ہدف تھا۔ ایک ہدف تو یہ تھا کہ یہ لوگ جب نہیں ہوں گے تو ہم ان کی جگہ چار نوجوان لے کر آئیں گے اور جوان خون سے استفادہ کریں گے۔ شاید یہ نوجوان دھن بنانا نہیں جانتے ہوں مگر دھن بجا تو سکتے ہوں گے۔
میں نے اس کے ساتھ ہی ایک اور تجویز ان افراد کو دی کہ آپ لوگوں کو اتنا تجربہ ہے تو آپ لوگ دھن بنائیں اور اگر وہ دھن ہماری شورائے عالی میں تصویب ہوگئی تو آپ کو ایک دھن بنانے کی رقم کے بجائے دو دھنوں کی رقم ادا کی جائے گی۔ اگر دو دھنیں بنائیں گے تو تین دھنوں کی رقم آپ کو دی جائے گی۔ درحقیقت میں نے انہیں یہ شوق دلایا کہ وہ کام پر نہ آئیں، تنخواہ بھی لیتے رہیں اور اگر دھن بناتے ہیں تو انکو اضافی رقم بھی ملے گی، بس ان کا کام دھنیں بنانا ہے۔
میں چاہتا تھا کہ انکے کام کا انداز تبدیل ہو اور یہی ہوا۔ وہ لوگ گھروں میں بیٹھ کر دھنیں بنانے لگے ہم نے ان کی جگہ نوجوان ہنرمندوں کو دے دی۔ آہستہ آہستہ پروڈکشن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ لوگ دھنیں بناتے اور انقلابی شاعر ان دھنوں کے حساب سے شعر لکھتے۔ مجھے یقین تھا کہ اگر یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو موسیقی کی دنیا میں انقلاب برپا ہوجائے گا۔
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 626
http://oral-history.ir/?page=post&id=11912