حجت الاسلام محمد حسن طیبی کی شہادت
انتخاب: اکرم صدیقی کلاتہ
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی
2024-06-21
جس دن وہ حزب جمہوری کے دفتر میں شہید ہوئے میں بچوں کے ساتھ اسفرائن گئی ہوئی تھی، سفر سے پہلے، شہید طیبی نے مجھ سے بہت کہا کہ میں بچوں کے ساتھ نہ جاؤں اور رخصت ہوتے وقت کہنے لگے: "فاطمہ تم مت جاؤ" میں نے کہا "میں یہاں اکیلی نہیں رہ پاؤں گی" کہنے لگے: " بڑے بیٹے کو یہیں روک لو، اسکے بعد میں مجلس(پارلیمنٹ) سے جب چھٹی مل جائے گی تو ہم سب ساتھ چلیں گے" لیکن بچوں نے بہت اصرار کیا کہ ہم ملنے کو بے تاب ہیں، میں نے فون کرکے کہا کہ ہمارے لئے ایک گاڑی بھیج دیں تاکہ ہم ٹرمینل پہنچ سکیں لیکن حاج آقا نے کہا: "مجھے باہر نلکنے کی اجازت نہیں ہے چونکہ پارلیمنٹ کے اطراف میں بہت زیادہ شور شرابہ ہے؛ بعض افراد ڈاکٹر بہشتی کے خلاف اور بنی صدر کو ہٹانے کے پارلیمنٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں" بالآخر گاڑی آئی لیکن شہید طیبی ساتھ نہیں آئے تھے، ہم ان سے خداحافظی کے لئے پارلیمنٹ چلے گئے، ہم نے دیکھا کہ شہید طیبی دو خواتین سے باتیں کرنے میں مشغول ہیں جو کسی اور شہر سے آئی ہوئی تھیں۔
ہمیں دیکھ کر آگے بڑھے، بچوں سے ایک ایک کرکے خداحافظی کی اور انکے بوسے لئے اور انکو پیسے دیئے اور کہنے: "انشاء اللہ ساتھ خیریت سے جاؤ، میں بھی دس پندرہ دنوں میں چھٹی لے کر تم لوگوں کے پاس آجاؤں گا"۔ ایک رات میں اپنے بھائی کے گھر پر تھی؛ رات بارہ بجے کا وقت تھا کسی نے فون کیا، بھائی کے سسر نے فون اٹھایا تو معلوم ہوا کہ حاج آقا ہیں؛ شہید طیبی نے بچوں کا حال احوال لیا؛ حتی ہمسایوں اور رشتے داروں کی بھی خیریت دریافت کی، ان کے بارے میں بھی پوچھا جو طلاق لینا چاہ رہے تھےاور طے پایا تھا کہ صلح کرلیں۔ وہ ہر حال میں دوسروں کی فکر میں تھے؛ میں نے کہا: "جی صلح ہوگئی ہے؛ آپ رمضان کے لئے کیا کررہے ہیں؟" مذاق کرتے ہوئے کہنے لگے: "ارے کچھ بھی کھا لوں گا، ہوٹل والوں کو کہوں گا میرے لئے کھانا لے آئیں، تم میری فکر مت کرو"
جس دن یہ واقعہ پیش آیا، میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور میں کلینک گئی ہوئی تھی تاکہ دوا لے آؤں، دیکھا کلینک بند ہے، وجہ دریافت کی تو کہنے لگے پارلیمنٹ میں بم دھماکہ ہوا ہے۔ میں نے دوبارہ پوچھا: "کہاں؟" کہنے لگے: "پارلیمنٹ" میں نے پوچھا: "طیبی صاحب بھی حتما ہوں گے؟" ایک شخص جو وہاں مجھے پہچانتا تھا کہنے لگا: "حاج خانم آپ پریشان نہ ہو، بعض افراد کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے جن میں طیبی صاحب کا نام نہیں ہے، آقائے بہشتی کا نام ہے لیکن طیبی صاحب کا نہیں ہے"۔
مجھے معلوم تھا کہ یہ غیر ممکن ہے کہ حاج آقا حزب جمہوری کی میٹنگ میں شرکت نہ کریں۔ میں نے کہا: "اگر ان کا نام نہیں لیا ہے تو وہ ضرور زخمیوں میں ہوں گے۔ مجھے کل ضرور تہران جانا ہوگا۔ وہ ضرور زخمی ہوگئے ہیں اور مجھے کسی نے خبر بھی نہیں دی"۔
ابھی میں تہران جانے کے لئے تیار ہی ہورہی تھی کہ میں نے ریڈیو چلایا جس میں دو بجے کی خبروں میں حزب جمہوری کے شہداء کے ناموں کا اعلان کیا جارہا تھا؛ ان تمام وزیروں کے نام لئے گئے جو ہماری بلڈنگ میں ہی رہائش پذیر تھے، شہید بہشتی، دہقان، چراغی، حسینی، نائین کے نمائندے اور جیسے ہین محمد حسن طیبی کے نام کا اعلان ہوا اسکے بعد پھر مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا، جب میں اٹھی تو دیکھا کمرے میں رش لگا ہوا ہے اور سب ہی گریہ کررہے ہیں۔
ہم نے تین دن اسفرائین میں عزاداری کی، تین دن بعد تہران آگئے، جب میں اپنے گھر میں داخل ہوئی تو میری نظریں حاج آقا کی عبا اور عمامے پر ٹک گئی جو کھونٹی پر آویزاں تھیں۔ ان کے کپڑے ہمیشہ مرتب رہتے تھے۔ اپنے کام وہ خود ہی انجام دیتے تھے اور حکم چلانے والی شخصیت نہیں تھی۔ میں نے انکے کپڑوں کو سنگھا اور آنکھوں سے لگایا۔
شہید محمد حسن طیبی پارلیمنٹ میں صوبہ جنوبی خراسان کے شہر اسفرائین کے نمائندے تھے جو سات تیر ۱۳۶۰ (۲۸ جون ۱۹۸۱) کو حزب جمہوری اسلامی کے دفتر میں ہونے والے بم دھماکے میں شہید ہوگئے۔شہادت کے وقت آپ پچاس سال کے تھے، آپ کا جسد خاکی انکے آبائی گاؤں میں دفن کیا گیا۔
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 383
http://oral-history.ir/?page=post&id=11956