تین بیانات اور چار یادوں کے مطابق

انقلاب کے دوران فیروزآباد کے کوروش سینما کی تباہی(حصہ دوم)

جعفر گلشن روغنی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی

2025-03-27


قریب صبح کے پانچ بجے ساواک والے ہمارے گھر میں گھس آئے۔ وہ پریشانی اور غصے سے مجھے ڈھونڈ رہے تھے۔ جب میرے والدین مجبور ہوکر مجھے ان کے سامنے لائے تو ان کے چیف نے کہا: ’’سیکورٹی افسر سے جھوٹ بولنا سنگین جرم ہے، جلدی بتاؤ ’’قاسم توانائی‘‘ کہاں ہے؟ میرے والد نے جواب دیا: میں آپ سے مزاق نہیں کر رہا اور نہ ہی جس طریقے سے آپ گھر میں گھسے ہیں مجھے اس بچے کو چھپانے کا موقع ملا ہے۔ یہی قاسم ہے۔ [افسر نے کہا] یعنی یہ تخریب کار غدار، بچوں کو استعمال کر رہے ہیں! آپ لوگ کیوں اپنے بچوں کو ان غداروں کے ہاتھوں کا کھلونا کیوں بننے دیتے ہیں؟ وہ میرے والد کے جواب کے بغیر ہی میرا گریبان پکڑ کر گھسیٹتا ہوا گاڑی تک لے گیا۔ ایک اہلکار نے مجھے ہتھکڑی لگائی اور میری آنکھوں پر کالی پٹی باندھ دی۔ تفتیشی کمرے میں جب میری آنکھیں کھولی گئیں تو میں نے دیکھا کہ جلالی[فیروزآباد ساواک کا چیف] میرے سامنے بیٹھا ہے۔ اس نے فوراً تفتیش شروع کردی، وہ کوشش کر رہا تھا کہ وہ میری زبان سے جناب عدالت صاحب کا نام نکلوائے(حجت الاسلام عدالت، فیروزآباد کی مسجد النبی کے امام مسجد اور انقلاب کے زمانے میں شہر کے انقلابی جدوجہد کرنے والوں میں سے ہیں)۔ میں ان مولانا کو تھوڑا بہت ہی جانتا تھا لیکن ان کا ہمارے اس آپریشن سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ خدا نے میری مدد کی اور جلالی کی لاتیں اور گھونسے بھی مجھے مولانا صاحب کے خلاف جھوٹے اعتراف پر مجبور نہیں کر پائے۔ جب وہ لوگ کچھ نہ کر پائے تو انہوں نے مجھے ایک دن وہاں رکھا اور اگلے دن میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر مجھے جیل منتقل کردیا۔ جب مجھے جیل کے سیل میں ڈالا گیا تو سیل کے کونے میں ایک شخص نماز پڑھنے میں مشغول تھا۔ جب میری آنکھیں وہاں کی کم روشنی میں دیکھنے لگیں تو میں نے دیکھا کہ وہ صادق تھا۔ مجھے بہت دکھ ہوا کہ اسے بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس کے حلیے سے پتہ چل رہا تھا کہ ظالموں نے اسے بھی مارا پیٹا ہے۔ جیسے ہی اس نے نماز ختم کرکے مجھے دیکھا تو وہ رونے لگا۔ میں نے کہا: ’’تم کیوں رو رہے ہو؟ کم بخت تم تو ہمارے چیف ہو۔ اس نے پوچھا: کتیرائی یا جعفر؟ میں نے کہا: کیا مطلب؟ اس نے کہا: چھپاؤ مت، مجھے سب پتہ ہے۔ بس اتنا بتا دو کہ کتیرائی کا انتقال ہوا ہے یا جعفر کا؟ کچھ دیر خاموشی کے بعد میں اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکا،  میں نے روتے ہوئے کہا: کیا جعفر کا انتقال ہوگیا ہے؟ میں نے خود دیکھا تھا کہ اس کے والدین اسے اسپتال لے گئے تھے۔ اس نے کہا: اسپتال میں اس کا انتقال ہوگیا۔ میں نے پوچھا: تمہیں کیسے پتہ؟ اس نے بتایا: سینما کے دھماکے کے بعد میں تم لوگوں کی مدد کرنے کے لیے اپنی چھپنے کی جگہ سے باہر نکلا؛ لیکن راستے میں دو پولیس اہلکاروں نے میرا راستہ روک لیا اور مجھے گرفتار کرلیا۔ میں نے بہت شور شرابا کیا تاکہ سڑک کے آخر سے آنے والے پولیس اہلکاروں کا دھیان بھی اپنی طرف کھینچ لوں تاکہ تم لوگ بھاگ سکو۔ وہ لوگ مجھے وہاں سے سیدھا تھانے لے گئے۔ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ وہ لوگ مسجد کے کچھ لڑکوں کو لے آئے ہیں۔ میں مطمئن ہوگیا کہ پولیس، تم لوگوں کو پکڑ نہیں پائی اور ان لڑکوں کو جن پر بظاہر انہیں پہلے سے شک تھا گرفتار کیا ہے، لیکن کچھ دیر بعد پولیس چیف، قربانی ہمارے سامنے بیٹھا تھا اور گالیاں دے رہا تھا اور الٹی سیدھی باتیں کر رہا تھا، اس کا ایک افسر آیا اور اس نے خبر دی: ’’بد قسمتی سے ہم باقیوں کو نہیں پکڑ پائے، ان میں سے صرف ایک کو جو کہ جل گیا تھا اسپتال لایا گیا ہے؛ لیکن ڈاکٹرز اسے بچا نہیں پائے اور اس نے دم توڑ دیا۔ ہم دونوں نے جعفر کی شہادت پر گریہ کیا اور اس کے لیے فاتحہ پڑھی اور دعا کی۔‘‘[1]

محترمہ صغری حسن پور؛ سید محمد صادق دشتی کی والدہ اس واقعے کی دوسری راوی ہیں۔ وہ بھی فیروزآباد میں سینما کے آنے سے اپنے جوان بیٹے کی تربیت کے حوالے سے پریشان تھیں کہ کہیں ان کا بیٹا بھی اس میں نہ پڑ جائے، اس منصوبے پر عمل درآمد کے بعد صادق کے حالات کے بارے میں وہ کچھ ہوں بتاتی ہیں: ’’جب رات کے 12 بج گئے اور صادق کی کوئی خبر نہیں ہوئی تو میری بے چینی بہت بڑھ گئی۔ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ وہ مجھے بغیر بتائے اتنی رات تک گھر سے باہر رہا ہو۔۔۔ رات کے قریب ڈھائی بجے تھے کہ آخرکار دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔ جیسے ہی میں نے دروازہ کھولا تو میری جان نکل گئی۔ میں نے دیکھا کہ پولیس موبائل، گویا جلتے پر تیل چھڑک دیا ہو میں مزید پریشان ہوگئی۔ میں نے پوری کوشش سے اپنے آپ کو سنبھالا اور کہا: السلام علیکم، فرمائیے۔ پولیس اہلکار گاڑی سے اترا اور اس نے کہا: آپ صادق دشتی کی والدہ ہیں؟ جیسے ہی اس نے صادق کا نام لیا، میری آواز نہ چاہتے ہوئے بھی کانپنے لگی۔ [میں نے کہا:] اسے کچھ ہوا ہے کیا؟ اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا: نہیں۔ بس آپ کو خبر دینی تھی کہ کچھ دن وہ ہمارا مہمان ہے۔ جیسے ہی میں پوچھنے لگی کہ کیا ہوا ہے، تو ڈرائیور تیزی سے گاڑی چلا کر لے گیا۔ میں جلدی سے تھانے پہنچی۔ جب میں اندر گئی تو مجھے کچھ تسلی ہوئی۔ صادق اور اس کے کچھ دوست صحیح سلامت وہاں بیٹھے تھے۔ ان کے آگے کچھ کپ چائے رکھی تھی اور پولیس افسر طنزیہ انداز میں انہیں چائے کی پیشکش کر رہا تھا اور لڑکے بھی اپنے جوانی کے غرور میں اسے نظر انداز کر رہے تھے۔ جیسے ہی صادق نے مجھے دیکھا تو اپنے اسی غرور کے ساتھ اٹھا اور کہنے لگا: آپ یہاں کیوں آئیں؟ اگر یہ لوگ مجھے قتل بھی کر دیتے تب بھی آپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ پولیس افسر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اٹھنے سے روک رہا تھا، اس نے کہا: اس کا والد کیوں نہیں آیا؟ [میں نے کہا:] اس کے والد فیروزآباد میں نہیں ہیں۔ صادق نے کیا کیا ہے جو آپ لوگ اسے یہاں لائے ہیں؟ [پولیس افسر نے کہا:] اس کے والد کو خبر بھیج کر بلائیں۔ جب وہ آئے گا تو پتہ چل جائے گا کہ کیا ہوا ہے۔ [میں نے کہا:] جب تک آپ لوگ نہیں بتائیں گے کہ اس نے کیا کیا ہے میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ اس[پولیس والے] نے آواز اونچی کرکے کہا: تخریب کاری، شہر کا امن خراب کرنا۔ اس کا جرم کوئی چھوٹا موٹا جرم نہیں ہے، اور کچھ مت پوچھو یہاں سے چلی جاؤ۔ فوراً پولیس والے کے بعد، صادق نے کہا: امی جان آپ گھر جائیں اور میری بالکل فکر نہ کریں، میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘[2]

صادق دشتی کے والد قاسم علی دشتی جو وزارت داخلہ کے ملازم تھے اور فیروزآباد کے قریب شہر قیر میں خدمات انجام دے رہے تھے، جب وہ پولیس سے رابطے کرکے اپنے بیٹے کو رہا نہیں کروا پائے تو وہ فیروزآباد کے گورنر کے پاس گئے لیکن انہوں نے کہا: ’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ بھی تخریب کار کمیونسٹوں کا حصہ ہیں۔‘‘[3] اس طرح سے وہ بھی مایوس ہوکر وقت کے گزرنے کا انتظار کرنے لگے کہ شاید ان کا بیٹا رہا ہو جائے۔

سینما کو نذر آتش کرنے کے باعث، عوام میں بھی جوش آگیا اور ان چار افراد کے گروہ کی حمایت اور ان کی رہائی کے لیے عوام نے مسلسل تین دن یعنی 25، 26 اور 27 اکتوبر(تین، چار اور پانچ آبان) کو شہر بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ اس کے نتیجے میں پولیس نے اعلان کیا کہ ملزمان کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ ساواک کی 25 اکتوبر کی رپورٹ کے مطابق: ’’صوبۂ فارس کے فیروزآباد شہر میں کچھ طلباء نے سڑکوں پر مظاہرے شروع کردیے ہیں۔ مظاہرین نے ریڈیو ٹیلی ویژن سینٹر اور اسکولوں کے شیشے توڑے ہیں اور پولیس نے مظاہرین کو منتشر کردیا ہے۔‘‘[4] شہریوں کے 26 اکتوبر کے مظاہروں کے دوران پولیس اہلکاروں نے مظاہرین پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں مظاہرین میں سے ایک شخص شہید ہوگیا۔ اس کی وجہ سے احتجاجی مظاہروں کی شدت اتنی بڑھ گئی کہ اس کی شہادت کے ساتویں دن 2 نومبر کو قریب دو ہزار لوگوں کے مجمع نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔[5] قاسم علی رضائی، اس شہید کا نام انقلاب کے دوران، فیروزآباد کے پہلے شہید کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔[6]

عدالت میں ہونے والی سماعت جو قیدیوں کی رہائی کا باعث بنی، اس کے بارے میں میر قاسم علی کچھ یوں بیان کرتے ہیں: ’’جب میں عدالت پہنچا تو صادق اور اس کا ایک دوست بیٹھا ہوا تھا اور جج کو واقعے کے بارے میں بتا رہا تھا۔ صادق نے بتایا: ہمیں نہ کسی نے بھڑکایا ہے اور نہ ہی کسی نے ہمیں کوئی منصوبہ دیا ہے۔ ہم نے خود ہی پیٹرول کا بندوبست کرکے سینما کو جلایا ہے۔ ہم نے یہ طے کیا تھا کہ پہلے ہم پیٹرول ڈالیں گے اور جب باہر آجائیں گے تو ماچس سے آگ لگا کر بھاگ جائیں گے؛ لیکن پتہ نہیں کیا ہوا کہ جب جعفر، سینما کے اندر تھا تو دھماکہ ہوگیا اور وہ خود بھی جل گیا۔ جج نے صادق سے پوچھا کہ تم کتنے دن جیل میں رہے؟ [اس نے بتایا:] تین دن اور دو راتیں تشدد کے ساتھ ۔ جلالی مجھے مارتا پیٹتا تھا اور مجھ سے یہ اعتراف کروانا چاہتا تھا کہ سینما کو نذر آتش کرنے کے لیے ہمیں کس نے کہا ہے۔ جب میں نے اس کے سر کے اوپر دیوار پر لگی شاہ کی تصویر دیکھی تو کہا کہ تمہارا رہبر یہ ہے اور ہمارے رہبر امام خمینی ہیں۔ میں نے ان کی تحریک کی وجہ سے سینما کو نذر آتش کیا ہے۔ مجھے کسی نے کوئی حکم نہیں دیا۔ میں یہی کہوں گا چاہے مجھے مار بھی ڈالو۔ آخرکار جج نے صادق اور اس کے دوستوں کی رہائی کا حکم دے دیا۔ میں خوشی اور فخر سے عدالت سے نکلا اور گھر چلا گیا۔ میں اس کی والدہ اور بھائیوں کے ساتھ گورنر ہاؤس کے سامنے پہنچا۔ صادق اور قاسم کو وہاں لایا جانا تھا۔  جیسے ہی عوام نے ہمیں دیکھا تو انہوں نے راستہ کھول دیا تاکہ ہم مجمع کے سامنے آسکیں۔ جیسے ہی پولیس موبائل پہنچی تو لوگوں کے اللہ اکبر کے نعرے گونج اٹھے۔ ابھی میں اور اس کی والدہ اس کے بوسے لے ہی رہے تھے کہ عوام نے ان دونوں نوجوانوں کو ہیروز کی طرح کندھوں پر اٹھا لیا اور فاتحانہ انداز میں فیروزآباد کی سڑکوں پر مارچ کیا۔ سینما کو نذر آتش کرنے کے بعد روزانہ مارچز کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اب فیروزآباد بھی ایرانی قوم کے ٹھاٹھیں مارتے سیلاب کا حصہ بن چکا تھا۔‘‘[7]

گھر کے بڑے بیٹے، سید نور الدین دشتی جنہیں خود انقلابیوں میں شمار کیا جاتا تھا، اپنے بھائی کی رہائی اور ان کے اقدام کے اثرات کے بارے میں کچھ یوں بتاتے ہے: ’’میں [شیراز شہر میں] اپنے پھپو زاد بھائی، ضیاء کے پاس تھا کہ میں نے فیروزآباد میں مظاہروں کے آغاز اور صادق کی رہائی کی خوشخبری سنی۔ مجھے نہیں لگ رہا تھا کہ انہیں اتنی جلدی رہا کردیا جائے گا۔ ہم بہت خوش ہوئے۔ میں نے ضیاء سے کہا: میں فیروزآباد جارہا ہوں اور صادق کو کچھ دنوں کے لیے شیراز لے آتا ہوں؛ وہ یہاں ہمارے پاس رہے گا تو محفوظ رہے گا۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ دوبارہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر خود کو کسی مصیبت میں نہ ڈال لے۔۔۔ معمولاً ہفتے کی چھٹی والے دن میں ہاسٹل میں نہیں رکتا تھا اور اپنی پھپو کے گھر چلا جاتا تھا اور اپنا زیادہ تر وقت ضیاء کے ساتھ گزارتا تھا۔ وہ اطلاعیوں اور تقریر کی کیسٹوں کو تقسیم کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ مظاہروں میں شرکت میں مشغول رہتا تھا اور میری پھپو کا گھر ہمارے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بن چکا تھا۔ صادق، شیراز شہر آنے پر راضی ہوگیا لیکن وہ زیادہ دن وہاں نہیں رکا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ میں کلاس سے بہت پیچھے رہ گیا ہوں اور وہ دوبارہ فیروزآباد لوٹ گیا۔ وہ عجیب شخصیت کا مالک تھا، اس کے لیے پڑھائی اور اسکول بہت اہمیت رکھتا تھا، واقعی میں مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ اسے فرصت کیسے مل جاتی ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو جمع کرے اور اتنے سارے اطلاعیے اور کیسٹیں تقسیم کرے اور شہر میں جابجا نعرے لکھے۔ پھر وہ سینما کو نذر آتش کرنے کا منصوبہ بنا کر اس پر عمل درآمد بھی کرے، اس سب پر یقین کرنا مشکل تھا؛ لیکن بہرحال یہ سب سچ تھا۔۔۔ فیروزآباد جیسا شہر جو صادق اور اس کے دوستوں کے انقلابی اقدام سے پہلے خاموش تھا اب وہ ناقابل یقین رفتار کے ساتھ انقلاب کی لہر میں شامل چکا تھا۔‘‘[8]

ان چار لوگوں کے گروہ میں سے آج صرف قاسم توانائی صاحب ہی حیات ہیں۔ جعفر اسماعیل زادہ جن کی اس واقعے میں جل جانے کی وجہ سے شہادت ہوگئی تھی، ان کے حالات کے بارے میں کوئی بھی معلومات دستیاب نہیں ہے۔ کتاب ’فرھنگ اعلام شھدا: استان فارس‘ کی دوسری جلد میں اسماعیل کتیرائی کے نام سے صادق کتیرائی کا تعارف کچھ یوں کرایا گیا ہے: ’’وہ 8 مئی 1962(18 اردیبھشت 1341) کو فیروزآباد شہر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ابو القاسم، کسان تھے اور آپ کی والدہ کا نام، رباب تھا۔ انہوں نے اپنی سیکنڈری تعلیم اور میٹرک، ادب و ثقافت میں کیا۔ آپ نے پاسدار کی حیثیت سے محاذ میں شرکت کی۔ 18 ستمبر 1981(27 شھریور 1360) کو دارخوین شہر میں آر پی جی چلانے والے کی پوسٹ پر تھے کہ مارٹر گولہ لگنے سے ان کی شہادت ہوگئی۔ ان کا مزار ان کے آبائی شہر کے بہشت زہرا(قبرستان) میں واقع ہے۔ آپ کو محمد صادق بھی کہا جاتا تھا۔[9] سید محمد صادق دشتی کے بارے میں کافی ساری معلومات دستیاب ہے۔ کتاب ’فرھنگ اعلام شھدا: استان فارس‘ کی دوسری جلد میں، ان کے حالات زندگی کے علاوہ، کتاب ’آقا صادق: روایتی از زندگی جھادگر شھید سید محمد صادق دشتی‘ شہید کے گھر والوں، دوستوں اور جنگ کے ساتھیوں کی یادوں پر مبنی ان کی زندگی کے حالات اور واقعات کا ایک مجموعہ بھی 2020(1399) میں شائع ہوا ہے۔ اس کے مطابق آپ 7 اگست 1963(16 مرداد 1342) کو پیغمبر اکرم (ص) اور امام جعفر صادق (ع) کی یوم ولادت کے دن دستجہ گاؤں میں پیدا ہوئے اور اسی مناسبت سے آپ کا نام محمد صادق رکھا گیا۔ آپ نے سن 1981 میں ہیومینیٹیز میں میٹرک کیا۔ سن 1979 میں ’تعمیراتی جہاد آرگنائزیشن‘ کی تشکیل کے ساتھ ہی آپ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ تعمیراتی جہاد سے منسلک ہوگئے۔ فروری 1982(اسفند1360) میں آپ نے آبادان میں واقع، صوبۂ فارس کے تعمیراتی جہاد کے ہیڈکوارٹر میں تعمیراتی جہادی کی حیثیت سے خدمات انجام دینی شروع کردیں۔ اپنی محاذ پر موجودگی کے دوران آپ نے مختلف ذمہ داریاں انجام دیں جیسے: 1982 میں صوبۂ فارس کے تعمیراتی جہاد آرگنائزیشن کی کمبیٹ انجینیئرنگ بٹالین کے لیے بنکرز بنانے کی ذمہ داری، 1983 میں ملک کے مغربی اور شمال مغربی علاقے میں جنگ کی کمبیٹ انجینیئرنگ کے انتظامات، 1984 میں صوبۂ فارس کی تعمیراتی جہاد کی کمبیٹ انجینیئرنگ بٹالین کی سکینڈ ان کمانڈ، 1984 اور 1985 میں نگرانی ٹاور بنانے کی ورکشاپ کی مینجمنٹ۔ 15 اکتوبر 1985(23 مھر 1364) کو اروندکنار شہر میں سینے پر مارٹر گولہ لگنے سے آپ کی شہادت ہوگئی اور فیروزآباد کے گلزار شہداء قبرستان میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔

                                                                                                           ختم شد۔

 

                             تاریخ شفاھی :: انھدام سینما کوروش فیروزآباد در انقلاب (oral-history.ir)

 


[1]  آقا صادق: روایتی از زندگانی جهادگر شهید سید محمدصادق دشتی، تحقیق و تدوین، محمد رضا حسینی، تهران، راه‌یار، 1399ش، ص28 و 29.

[2]  همان، ص19و20.

[3]  همان، ص 22و 23.

[4]  انقلاب اسلامی به روایت اسناد ساواک، ج14(1 تا 10 آبان1357)، ص143و144.

[5]  انقلاب اسلامی به روایت اسناد ساواک، ج15(11 تا 20 آبان1357)، تهران، مرکز بررسی اسناد تاریخی وزارت اطلاعات، 1383ش، ص39.

[6]  آقا صادق... ، ص 32. اطلاعات موجود در جلد اول کتاب فرهنگ اعلام شهدا: استان فارس، یہ کتاب ان کے نام کی تائید کرتی ہے اور ان کے بارے میں کچھ یوں بتاتی ہے: ’’رضائی، محمد علی، 10 جون 1935(19 خرداد 1314) کو فیروزآباد کے نواحی گاؤں اسلام آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محمد، کھیتی باڑی کرتے تھے اور آپ کی والدہ کا نام قمر تھا۔ آپ نے پڑھائی لکھائی کی حد تک تعلیم حاصل کی ۔ آپ بھی کسان تھے۔ 28 اکتوبر 1978(6 آبان 1357) کو اپنے آبائی علاقے میں شاہی حکومت کے خلاف مظاہرے کے دوران گولے لگنے سے آپ کی شہادت ہوگئی۔ آپ کا مزار اسی گاؤں میں امام زادہ شہزادہ عبداللہ کے گلزار شہداء قبرستان میں واقع ہے‘‘، ص659 .

[7]  آقا صادق... ، ص31و32.

[8]  همان، ص33و34.

[9]  فرهنگ اعلام شهدا: استان فارس، ج2، تنظیم مرکز مطالعات و پژوهش‌های بنیاد شهید و امور ایثارگران، تهران، بنیاد شهید و امور ایثارگران، معاونت فرهنگی و امور اجتماعی، نشر شاهد، 1395ش، ص1199.


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 28



http://oral-history.ir/?page=post&id=12488