پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 41

مصنف: علی رستمی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2025-04-11


ولہ ژیر

کانی میران گاؤں میں کچھ یوں ہوا کہ ایک دن ماموستا ملا علی افشاری ہم پر غصہ ہوگئے اور انہوں نے کہہ دیا: ’’حجرے کو بند کرکے گاؤں چھوڑ کر چلے جاؤ۔‘‘(یہ کچھ علماء کی عادت تھی کہ وہ کبھی کبھار چھوٹے سے مسئلے پر طلباء کو نکال دیتے تھے؛ ہمیں بالکل سمجھ نہیں آیا کہ جناب ماموستا کے غصے کی وجہ کیا تھی)۔  ہم نے بہت اصرار کیا کہ موسم سرما ہے اور سردی بھی بہت زیادہ ہے۔ ہمیں رکنے کی اجازت دے دیں۔ انہوں نے ہمارے رکنے کی درخواست پر کوئی توجہ نہیں دی اور ہم نے ان کی فرمانبرداری کی اور کانی میران کو چھوڑ کر ہم شہر مریوان کے جنوب میں تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ولہ ژیر گاؤں چلے گئے اور وہاں استاد ملا عارف کی خدمت میں پہنچے۔ موسم سرما میں ولہ ژیر کے ٹھنڈے حجرے کو ہم نے بڑی مشقت سے گرم کیا۔

ہم ولہ ژیر گاؤں میں سکونت پذیر ہوگئے اور ماموستا کی خدمت میں اپنے روزانہ کے ضروری دروس پڑھنے لگے۔ صبح میرا پہلا درس علم معانی، بیان اور بدیع میں ’مختصرالمعانی‘ کا ہوتا تھا اور شام کو شیخ زادہ کے حاشیے والی ’تفسیر بیضاوی‘ کا۔ ماموستا ملا عارف، صوفی مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک متقی اور عارف شخص تھے۔ ماموستا کے گھر سے مسجد کا راستہ ایک کھڑی ڈھلان والی گلی تھی جو موسم سرما میں پوری طرح جم جاتی تھی۔ اس راستے سے گزرنا ہم جوانوں کے لیے ہی اتنا مشکل تھا تو اس عمر میں ماموستا کو تو مزید احتیاط کرنی پڑتی۔ اسی لیے وہ مسجد نہیں آتے تھے بلکہ ہم ان کی خدمت میں پہنچتے تھے۔ شروع میں ان کی زوجۂ محترمہ درس سے پہلے ہمیں چائے دیتی تھیں۔ میں ماموستا اور ان کی زوجہ کے چہرے کو دیکھتا تھا۔ ان دونوں کی عمر قریب پینسٹھ سال ہونے کے باوجود ان کے چہرے جوان اور نورانی تھے۔ میں اپنے کچھ دوستوں سے پوچھتا تھا کہ اس مبارک اور نورانی چہرے کا سبب کیا ہے؟ وہ بتاتے تھے: ’’رزق حلال، پرخلوص عبادت اور نماز شب۔‘‘

جو دروس میں ماموستا کی خدمت میں پڑھ رہا تھا ان کے ساتھ ساتھ میں آہستہ آہستہ ’افتا‘ کے امتحان کے لیے بھی پڑھائی کر رہا تھا جو 1975(1354) میں وزارت تعلیم کی جانب سے منعقد ہونے والا تھا۔ ’افتا‘ کے امتحان میں مختلف مضامین تھے؛ صرف، نحو، منطق، بلاغت، اصول، تفسیر اور فلکیات۔ اکثر مضامین کے لیے ضروری تھا کہ میں اس علم کے ماہر بزرگ علماء سے رجوع کروں۔ اس امتحان کی تیاری کے لیے میں نے دو سال تک بڑی مشقتیں اٹھائیں؛ مثلاً سن 1974 میں، میں کچھ عرصے کے لیے پاوہ شہر آگیا تھا اور میں نے ماموستا ملا زاہد ضیائی کی خدمت میں علم نجوم میں فلکیات کا کچھ درس پڑھا اور خود پوری تیاری کی۔ ایک دن میں نے ماموستا ملا عارف سے درخواست کی کہ وہ مجھے اپنی تعلیم جاری رکھنے  کے لیے شہر مریوان کے مشرق میں واقع گویزہ کویرہ گاؤں میں ماموستا ملا رحیم کی خدمت میں جانے کی اجازت دے دیں۔ ماموستا نے فرمایا: ’’میں اور ملا رحیم دونوں نَصَرَ یَنصُرُ کے باب سے ہیں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے اور علم اور صلاحیت کے اعتبار سے ہم دونوں برابر ہیں اور مجھے تم سے لگاؤ ہوگیا ہے۔ تمہارے لیے رکنا بہتر ہے۔‘‘



 
صارفین کی تعداد: 42



http://oral-history.ir/?page=post&id=12517