حاجی حسین فتحی کا حج سے واپسی پر اظہار خیال
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ
2025-08-26
ستمبر 1980 میں ایران عراق سرحد پر کشیدگی پیدا ہوئی اور بتدریج بڑھنے لگی۔ قصر شیرین سرحد کی حفاظت کے لیے رضاکاروں کی ضرورت تھی۔ میں رضاکاروں کی صف میں شامل ہو گیا، لیکن آپریشن کمانڈر نے، چونکہ مجھے کچھ دنوں میں حج پر جانا تھا، اس لیے میرا ہاتھ پکڑا اور اصرار کیا کہ میں مکہ جاؤں اور ان کے لیے دعا کروں۔ میں نے بہت اصرار کیا، مگر وہ نہ مانے، کیونکہ وہ یہ بات بھی جانتے تھے کہ میں پچھلے سال سے خانہ خدا کی زیارت کا انتظار کر رہا تھا۔
میں بازار گیا اور حج کی تیاری کے لیے کچھ ضروری چیزیں خریدیں۔ 22 ستمبر بروز اتوار صبح 10:30 بجے جدہ کے لیے ہماری فلائٹ روانہ ہوئی۔ جہاز کی گنجائش چار سو ستر افراد کی تھی جبکہ ہمارا گروپ چار سو اٹھاسی افراد پر مشتمل تھا، اس لیے طے پایا کہ باقی اٹھارہ افراد اگلے جہاز میں آئیں گے۔ ہم جدہ پہونچ کر دوسرے جہاز کا انتظار کرنے لگے، فلائٹ میں تاخیر ہوئی جس نے ہمیں پریشان کر دیا۔ رات آٹھ بجے سعودی ریڈیو نے ایران پر عراق کے حملے کی خبر سنا دی۔خبر سنتے ہی تمام ایرانی مسافروں میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی، اور وقت کے ساتھ ساتھ حاجیوں میں تشویش بڑھ رہی تھی۔ رات کے بارہ بجے ہمیں یقین ہو گیا کہ خبر سچ ہے اور ہمارے ساتھی تہران میں رہ گئے ہیں۔ بظاہر تہران کے ہوائی اڈے پر بمباری کی گئی تھی اور پروازیں منسوخ کر دی گئی تھیں۔
ہم نے قافلہ سالار سے بات کی اور اپنی حالیہ ذمہ داری کے بارے میں جاننا چاہا ۔ میں نے ان سےبات کی اور کہا کہ امام حسین (ع) حج کے دوران عرفات سے کربلا کے لیے روانہ ہوئے تھے تو اب اگر ضروری ہوا تو ہم بھی ایران واپس جانے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے منطقی بات کی اور کہا کہ"اس صورتحال اور اس قسم کی خبروں سے ہم یہاں صحیح فیصلہ نہیں کرسکتے، ہم دوسرے ملک میں ہیں،یہاں اجنبی ہیں، جو فیصلہ بھی طے ہوگا سب مل کر ہی اس پر عمل درآمد کریں گے"۔
آخرکار ہم مناسک حج ادا کرنے چلے گئے۔ اس سال، لوگوں کی کم تعداد، ایرانیوں کی تشویش اور سعودیوں کی کڑی نگرانی کی وجہ سے برائت از مشرکین کے پروگرام پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ سعودی پولیس والے ہم پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ وہ قافلہ کے علماء کی تقریروں میں خلل ڈالتے اور حتی ان میں سے چند ایک کو گرفتار بھی کیا ۔ یرانیوں کو 12ویں ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ جنگ کی وجہ سے پریشانی اور اپنے اہل خانہ کے بارے میں معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ہر کوئی اپنا روزانہ چھ گھنٹے سے زیادہ کاوقت ٹیلی فون کی لمبی قطاروں میں لگ کر گزار دیتا۔ ٹیلی فون پر بات کرنے کے لیے صرف دو سو افراد کی گنجایش تھی لیکن دو ہزار لوگ قطار میں لگ جاتے۔ نماز کے وقت قطاریں ٹوٹ جاتی تھیں اور وقت بھی ضائع ہوتا تھا اور ہمیں کم نتائج ملتے تھے۔ وقت بہت آہستہ اور اعصابی تناؤ کے ساتھ گزرتا تھا۔
آخر کار 5نومبر کا دن آیا اور ہم تہران واپس پہونچے۔ ہم شام کے قریب جہاز سے اترے اور گھر کی طرف روانہ ہوئے۔شاہراہ آزادی مکمل طور پر تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا، "شہر کی لائٹس کیوں بند ہیں؟" وہ تلخی سے ہنسا اور بولا، "کیا تم نہیں جانتے! جنگ ہے، سارا ایران اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔"
ہم گھر پہنچے۔ شہر کا ظاہری حلیہ مختلف تھا، اپنا ہی شہر ہمیں اجنبی لگ رہا تھا ۔ گویا ہم ایک دوسرے شہر آگئے، ایسا شہر جو تاریکی میں ڈوبا ہے[1]۔
[1] آقا میرزایی، محمد علی، سرای سلیمان خان، خاطرات حاج حسین فتحی، پیش کسوت بسیج اصناف بازار، نشر فاتحان، 2012، ص96۔
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 13
http://oral-history.ir/?page=post&id=12759