رضا امیرسرداری کے بیانات سے اقتباس

مرصاد

انتخاب: زبانی تاریخ کی سائٹ

ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ

2025-08-26


جنگ بندی کی قرارداد کی منظوری کے بعد بہت سے قیدیوں سمیت عراقی عوام کو بھی توقع تھی کہ ایران اور عراق کے درمیان معاملات حل ہونے کے بعد قیدیوں کا معاملہ بھی ایک طرف ہو جائے گا۔ ایران کی طرف سے قرارداد کی منظوری کے اعلان کے اگلے دن عراقی اخبارات نے قرارداد کے آرٹیکل 6 کو مرکزی خبر بنا کر وسیع تشہیر شروع کر دی۔ انہوں نے اعداد و شمار اور جنگ شروع ہونے سے پہلے پیش آنے والے واقعات کی تاریخوں کی لمبی فہرستیں شائع کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جنگ کا آغاز ایران نے کیا تھا۔ وہ قسمیں کھا کھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ اس تمام عرصے میں عراق نے صرف اپنا دفاع کیا ہے اور بارہا ایران کے ساتھ مصالحت کی کوشش کی ہے۔

ہر روز انگریزی زبان کے اخبار ’’بغداد آبزرور‘‘ کے کئی صفحات اسی طرح کے مضامین اور خبروں  کے لیے وقف ہوتے تھے۔ انہیں جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ اس معاملے کو اتنی آسانی سے آرٹیکل 6 تک نہیں لایا جائے گا۔ دوسری طرف، دیگر شقوں کے ارد گرد بحث شروع کرنا ان کے مفاد میں نہیں تھا۔ انہوں نےصلح و مصالحت کی شرائظ میں سے ایک شرط کو ابھی بھی لٹکا کر رکھا ہوا تھا ۔ ان کے پاس اب بھی "آئل سٹی" تھا۔ شق 6 کے حوالے سے اشتہارات کو روک دیا گیا اور اخبارات نے "دریائے اروند پر عراق کے تاریخی حقوق" کے عنوان کو سامنے رکھا  اور "الامان!" کا نعرہ لگا دیا۔ انہوں نے لکھا: ہاں! ایران ایک غاصب ہے جس نے دریائے اروند پر ان کے حقوق کو غصب کیا ہے وغیرہ  وغیرہ۔

مزے کی بات یہ تھی کہ انہوں نے "آئل سٹی" کے مسئلے کو ہر ممکن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی۔ اپنے تجزیے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ "اگر ہم نے ابھی تک "نفت شھر" یعنی "آئل سٹی" کو برقرار رکھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسرے خطوں میں اپنے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور ہم نے کوئی نیا کام نہیں کیا... ایران نے عثمانی دور میں بھی یہی کیا اور شمالی علاقوں کے کچھ حصے پر قبضہ کرکے جنوبی علاقوں میں کچھ مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا"۔

ٹھیک انہی ایام میں منافقین  نے ٹیلی ویژن، ریڈیو، اخبارات اور رنگین اشاعتوں کا استعمال کرتے ہوئے ایران کی جانب سے قرارداد کی منظوری کے بارے میں وسیع پروپیگنڈہ بھی شروع کیا۔ ان کی سوچ کے مطابق اس کا مطلب یہ تھا کہ اسلامی نظام آخری سانسیں لے رہا ہے؛ حتی رجوی نے نام نہاد لبریشن آرمی کے لئے تقریر بھی کی۔ اس نے قرآن کی چند آیات کی تلاوت کی اور پھر اپنا تعارف "موسیٰ" سے تشبیہ دیتے ہوئے کروایا  اوراپنی بہن "مریم" کا تعارف "ہارون" کے طور پر کروایا! اور اس نے بہت سنجیدگی سے کہا کہ وہ اور اس کی بہن  ایرانی قوم کے منجی ہیں!

یقیناً وہ جانتا تھا کہ اسے کسی نہ کسی طرح مہران میں منفقین  کی شکست کا بہانہ تلاش  کرنا ہے۔ اس وجہ سے اس نے دعویٰ کیا کہ "وہ مہران میں سمجھ چکے ہیں کہ اپنی اس  طاقت کو دیکھتے ہوئے وہ تہران پر حملہ بھی کر سکتے ہیں اور اس خیال کے مطابق انہوں نے ’’آج مہران، کل تہران‘‘ کا نعرہ لگایا۔ رجوی کو یقین تھا کہ ایران کے  "خلق قھرمان و دربند" یعنی "بہادر اور اسیر لوگوں" کی مدد سے جو "آزادی کے پیاسے" تھے، وہ کامیاب ہو جائیں گے اور "عوام کی جمہوری حکومت" تشکیل دیں گے۔ آخر میں، اس نے نعرہ لگایا: (ابدی روشن خیالی)"فروغ جاویدان" کی طرف آگے بڑھو![1]

رجوی کی تقریر کے تھوڑی دیر بعد، خبر چلی کہ منافقین نے  حملہ شروع کر دیا ہے۔ اس دوران انہوں نے ٹیلی ویژن پر اصرار آمیز بیان دیاکہ

' اسلام آباد"  اور مغربی کردستان کے لوگوں نے ہر طرح سے ان کا ساتھ دیا، اور انہوں نے بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ یہ دعویٰ  بھی کردیا کہ ایرانی فوج کی "فروغ جاویدان لشکر" کا مقابلہ کرتے ہوئے 60,000 ہلاکتیں ہوئی ہیں!

منافقین کی طرف سے کارروائی  شروع ہونے کے چند دنوں بعد ان کے پروپیگنڈے نے ایک دوسرا روپ دھار لیا۔ بظاہر، انہوں نے اس دوران یہ جان لیا تھا کہ تہران کو فتح کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ منافقین کی اندھی پیش قدمی رک گئی تھی، اور اگرچہ ان کے پاس مہران کو خالی کرنے کا جواز تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ایسا فوجیوں کو جمود سے روکنے کے لیے کیا تھا، لیکن ان کے پاس "فروغ جاویدان آپریشن" کو انجام دینے کے لیے اپنے احمقانہ اقدام اور بھاری اور ذلت آمیز شکست کو چھپانے کا کوئی بہانہ نہیں بچا تھا۔

مجموعی طور پر، منافقین اب بری طرح پھنس چکے تھے اور ان کی ترجیح اب یہی تھی کہ اس  آپریشن کا نام بھی نہ لیا جائے؛ اور تو اور وہ اب اس آپریشن کا انکار کرنے سے بھی رہ گئے تھے ۔ اس شکست کے ایک ہفتہ بعد، "مسعود رجوی" اور "مریم" نے کربلا اور نجف میں ایک تقریب میں اس آپریشن میں مارے گئے منافقین  کی لاشوں کو دفنایا۔ اس تقریب کے بعد، منافقین کے ماہانہ  میگزین نے اسلامی فوج میں 60,000 ہلاکتوں کے دعوے کے ثبوت کے طور پر شہدائے اسلام کی تصاویر شائع کیں (وہ بھی ایرانی اخبارات کے حوالے سے!)۔ البتہ انہیں یہ بات بخوبی یاد رہی کہ اس خبر کے ساتھ یہ اعلان بھی کریں کہ یہ افراد، سپاہ پاسداران کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں [2]؛ڈوبتے ہوئے کو تنکے کا سہارا۔

 

[1] مغربی علاقے میں منافقین  کی جنگی کارروائی کا نام۔

[2] امیرسرداری، رضا، ... شلمچہ تا تکریت، خاطرات روزھای اسارت، تہران، دفتر ادب و ھنر مقاومت، مؤسسہ انتشارات سورہ،، 1996، ص۔ 71.


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 35



http://oral-history.ir/?page=post&id=12769