شہید ہاشمی نژاد کے بھائی کی یادداشت

شہادت کیسے ہوئی؟

انتخاب: فائزه ساسانی‌خواه
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2025-12-01


27 ستمبر 1981 کو جب دشمن آبادان کے محاصرے میں شکست سے دوچار ہوا، منافقین نے امریکی حکم پر ملت ایران کے لئے اس عظیم فتح کی خوشیاں تلخ کرنے کے لیے حجت الاسلام ہاشمی‌نژاد کو شہید کر دیا تاکہ دنیا کو دکھا سکیں کہ وہ ملت ایران کو کامیابی حاصل کرنے نہیں دیں گے۔ یہ بالکل فطری تھا کہ آبادان کے محاصرے کے ٹوٹنے اور ہمارے مجاہدین کی عظیم فتح کے بعد منافقین ایسے شخص کو نشانہ بنائیں جو دشمنان اسلام کی آنکھ کا کانٹا اور صریح اور جوشیلی خطابت کا حامل تھا اور منافقین کی پلید حقیقت کو آشکار کرتا تھا۔

27 ستمبر 1981 صبح 8 بجے میرے بھائی کو امریکی منافقین نے شہید کر دیا۔

اگر آپ منافقین کے گھروں سے برآمد شدہ دستاویزات یا امیر یغمایی (معاون اطلاعات سازمان منافقین) کے بیانات پر نظر ڈالیں تو بہت سے حقائق سب پر روشن ہو جاتے ہیں۔ یغمایی نے اپنی تفتیش میں شہید ہاشمی‌نژاد کے بارے میں کہا:

ٹارگٹ کلنگ کا منصوبہ «جلال اور شهاب» دو افراد نے بنایا تھا۔ ارادہ یہ تھا کہ اس پوری کلاس کو نشانہ بنایا جائے جس میں ہاشمی‌نژاد تدریس کرتے تھے (اور میں، شہید کا بھائی، روزانہ اس کلاس میں شریک ہوتا تھا)۔ لیکن بعد میں چونکہ ہادی علویان، شہید ہاشمی‌نژاد کا قاتل، افشا ہو گیا تھا، انہوں نے کہا: طبسی اس وقت مکہ میں ہے اور ہاشمی‌نژاد مشہد میں فردِ اول ہے۔ اگر اسے ماریں گے تو مشہد میں نظام اور حکومت کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ اسی لیے انہوں نے ہادی علویان کو، جو حرم کے  صحن میں کتاب فروشی کی دکان پر کام کرتا تھا، ایک دستی بم دیا اور طے ہوا کہ وہ کتاب یا پوسٹر خریدنے کے بہانے حزب کے دفتر میں جائے، بیت الخلا میں بم کا ضامن کھولے اور جب ہاشمی‌نژاد کلاس سے نکلیں تو انہیں ختم کر دے۔ پہلے اس منصوبے پر اتوار کو عمل ہونا تھا لیکن چونکہ ہاشمی‌نژاد نہیں آئے، منصوبہ مؤخر ہوا اور منگل کو انجام پایا۔ منگل کو ہادی علویان حزب کے دفتر گیا اور جب ہاشمی‌نژاد باہر نکلے تو منصوبہ عملی کر دیا۔

یہ امیر یغمایی کے بیانات کا ایک حصہ تھا، لیکن شہادت کا اصل واقعہ اور طریقہ کچھ یوں ہے:

ہاشمی‌نژاد ہفتے میں ایک دو دن حزبِ جمهوری اسلامی کے مشہد میں واقع دفتر(خیابان عشرت‌آباد سابق، آج کل اس سڑک کا نام خیابان شهید هاشمی‌نژاد ہے) میں کلاس لیتے تھے۔ دفتر کے سامنے محبان‌الرضا(ع) کی عمارت اور پٹرول پمپ تھا۔ اس سے کچھ نیچے ساحل حمام تھا اور بائیں طرف بیمہ کی عمارت تھی۔

منگل کے روز ہاشمی‌نژاد دفتر میں داخل ہوئے اور دفتر کے اراکین نمازخانہ میں موجود تھے۔ میں، شہید کا بھائی، ہمیشہ ان جلسوں میں شریک ہوتا تھا۔ اس روز گاڑی اور ڈرائیور نہیں آئے اور فون پر بتایا کہ گاڑی خراب ہے۔ میں بہت رنجیدہ ہوا کیونکہ کلاس سے محروم رہ گیا تھا۔ دفتر فون کیا، کہا گیا کہ حاج آقا کلاس میں گئے ہیں۔ میں نے کہا: میری یہ صورتحال ہے، کیا کروں؟ جواب ملا: گھر میں رہیں، کلاس کے بعد ڈرائیور آئے گا۔ میں گھر میں رہا۔ چند لمحے بعد، صبح ۸ بجے سے پہلے، ریڈیو نے پروگرام روک کر اعلان کیا: انا لله و انا الیه راجعون، حجت الاسلام والمسلمین هاشمی‌نژاد شہید ہو گئے۔ یہ خبر میرے لیے، جو ڈرائیور کا منتظر تھا، نہایت غیر متوقع اور جھنجھوڑ دینے والی تھی۔

میں فوراً گھر سے نکلا اور سپاہ کی گاڑی آ کر مجھے دفتر لے گئی۔ وہاں پہنچا تو ایک عظیم ہجوم اور گریہ و نالہ کی صدائیں بلند تھیں۔ کہا گیا کہ انہیں امام رضا(ع) اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ جب وہاں پہنچا تو سردخانے میں ان کے خون آلود جسم اور کٹے ہوئے ہاتھوں کو دیکھا۔ یہ منظر حضرت ابوالفضل(ع) کی یاد دلاتا تھا۔ میں بے اختیار چیخ پڑا۔

قاتل ہادی علویان، قوچان کا رہنے والا اور منافقین خلق کا رکن تھا۔ اس نے حزب میں نفوذ کیا اور بعد میں حرم کے صحن کے سامنے کتاب فروشی پر کام کرنے لگا۔ نگہبان اسے پہچانتے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ اتوار کو کلاس میں بم پھاڑے لیکن چونکہ شہید نہیں آئے، پھر منصوبہ منگل کو انجام پایا۔ علویان صبح حزب کے دفتر آیا، بیت الخلا میں بم تیار کیا اور پائیدان پر بیٹھ گیا۔ جب کلاس ختم ہوئی اور شہید باہر نکلے، اس نے انہیں پیچھے سے پکڑ کر بم دھماکہ کیا۔ شہید کے ہاتھ کٹ گئے اور شکم چاک ہوگیا۔ انہیں فوراً اسپتال لے گئے لیکن دیر ہو چکی تھی۔ اس حملے میں علویان بھی مارا گیا تھا۔

رہبر انقلاب حضرت آیت‌الله خامنه‌ای نے اس واقعے کے بارے میں فرمایا: "منافقین نے ساواک کا ادھورا کام، یعنی شہید ہاشمی‌نژاد کو شہید کرنا، مکمل کردیا۔"

شہادت کے بعد، جنازہ اسپتال میں رکھا گیا اور اعلان ہوا کہ تشییع فردا ہو گی تاکہ امام، دولت، مجلس اور دیگر شہروں کے نمائندے شریک ہوں۔ اگلے روز لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ جنازہ کندھوں پر اٹھا کر حرم امام رضا(ع) لے جایا گیا۔ عوام ماتم کرتے ہوئے نعرے لگا رہے تھے:

«عزا عزاست امروز، روز عزاست امروز، امام رضای غریب صاحب عزاست امروز، منافق بیچاره ترور اثر ندارد، تا انقلاب مهدی نهضت ادامه دارد.»

"آج عزا کا دن ہے، آج روز عزا ہے، آج کے دن امام رضائے غریب صاحب عزا ہیں۔ اے بے چارے منافق ٹارگٹ کلنگ کا کوئی اثر نہیں ہوگا، انقلاب مہدی عج تک یہ تحریک جاری رہے گی۔"

اور: «هاشمی، هاشمی، قسم به خون پاکت، راهت ادامه دارد.»

"ہاشمی، ہاشمی، آپ کے پاک خون کی قسم، آپ کی راہ پر چلتے رہیں گے"

پیکر پاک کو حرم امام رضا(ع) کے جوار میں دفن کیا گیا۔ آج بھی زائرین وہاں فاتحہ پڑھتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ ان کا مشن جاری رکھیں گے۔

 


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 3



http://oral-history.ir/?page=post&id=12945