تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – سولہویں قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: ضمیر رضوی

2020-01-30


وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ ہم بھی ہمیشہ کی طرح مریض، دکھاوے کے مریض اور زخمی فوجیوں کا علاج کرنے اور لطیفے سنانے اور ریڈیو کی خبریں سننے میں مصروف تھے۔ سردی کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ لیکن پھر بھی ہماری فورسز، محاز پر موجود یونٹس اور "نشوہ" میں موجود ان کے رسدی مراکز کے درمیان مواصلاتی سڑکوں پر ڈامر ڈال رہی تھیں۔ انہوں نے "جفیر" کے علاقے میں گولہ بارود اور اناج کے کچھ گودام بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ ضرورت کے وقت ان کے کام آئیں۔ یہ ذمہ داری "کردی" فوجیوں کے ایک گروه کے سپرد کی گئی جن کی تعداد دو سو افراد پر مشتمل تھی جو لیفٹیننٹ کرنل "محمد" کی کمانڈ میں تھے جو خود "کرد" اور سلیمانیہ  کا رہنے والا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ لوگ نہ تو فوجی ہیں اور نہ ہی خانہ بدوش۔ اسلحہ اور گولہ بارود اٹھانے کے بجائے بیلچہ اور کھدال اٹھا رہے تھے اور انہیں عربی زبان پر عبور بھی نہیں تھا۔  یہاں تک کہ ان کے درمیان عہدوں کا فرق بھی پتا نہیں چلتا تھا۔ یہ بیچارے لوگ دن رات، پرانی مال گاڑیوں کی بوگیوں سے زمین کے اندر گودام بنا رہے تھے۔

ایک دن کرنل "محمد" ہم سے ملنے آئے اور انہوں نے مجھ سے چاہا کہ میں ان کے ساتھ  دوپہر کا کھانا کھاؤں، کیونکہ وه اکیلے تھے اور فوجی قواعد کے تحت وہ فوجیوں کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکتے تھے۔ ان کے ساتھ کچھ دن گزارنے کے بعد مجھے معلوم ہوا که وه فوج کے ناپسندیده لوگوں میں سے ہیں۔ عام طور پر "بعثی" اس جیسے افسروں کو حساس فوجی مراکز اور اہم مقامات سے دور آسان اور محفوظ ذمہ داریاں دیتے تھے۔ یہ کرنل محاذ کے پیچھے گودام بنانے کے لئے دو سو فوجیوں کی قیادت کر رہا تھا۔

جبکہ "بعثی" افسر اس سے نچلی ریجمنٹ اور بٹالین کی قیادت کر رہے تھے۔

سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی بارش اور برف باری کا سلسلہ شروع ہو گیا اور روڈ کے ناہموار ہونے کی وجہ سے ہمارے لیے مسائل کھڑے ہوگئے۔ آہسته آہسته سپلائی مشکل ہوتی جارہی تھی؛ اور اس سے  زیاده اہم بات یہ کہ زخمیوں کو "بصره" بھیجنے میں بہت دشواری ہو رہی تھی اور وه کئی گھنٹوں بعد اپنی منزل تک پہنچتے تھے۔ اگر روڈیں پکی بنی ہوئی ہوتیں تو یہ وقت ایک گھنٹہ کم ہو جاتا۔ اسی وجہ سے کئی زخمیوں کی راستے میں ہی موت ہو جاتی تھی۔  ہمیں خون کی اشد ضرورت تھی مگر خون کو محفوظ رکھنے کے لئے ہمارے پاس کوئی ریفریجریٹر بھی نہیں تھا، بعض دوسرے زخمی اس وجه سے بھی فوت ہوئے۔

ایک برساتی دن، تین زخمی ہمارے پاس لائے گئے جن کی حالت تشویشناک تھی۔ ان میں سے ایک سیکنڈ لیفٹیننٹ تھا جس کا نام "عارف" تھا۔ باقی دو لوگ سپاہی تھے۔ ان کے جوڑ بارودی سرنگ  میں ہونے والے دھماکے سے ٹوٹ چکے تھے۔ بظاہر یہ حادثہ شہر "ہویزه" کے آس پاس پیش آیا تھا۔ بارودی سرنگیں ایرانی فورسز نے بچھائی تھیں جو رات میں علاقے میں داخل ہو جاتی تھیں۔ ان تین لوگوں کو خون کی اشد ضرورت تھی اور انہیں محاذ کے پیچھے منتقل کرنا ضروری تھا، لیکن یہ دونوں ہی کام ہمارے لیے ناممکن تھے۔ میں نے ضروری تفتیش کے بعد انہیں ایک ایمبولینس میں اس روڈ کے ذریعے جو کیچڑ سے بھرا ہوا تھا، بصره روانہ کردیا۔ لیفٹیننٹ"عارف" نے راستے میں ہی دم توڑدیا لیکن باقی دو لوگ زنده "بصره" پہنچ گئے۔ دو دن بعد ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ یہ کمیٹی لیفٹیننٹ"عارف" کی موت کی وجہ پتا لگائے اور قصور وار کی شناخت کرکے  اسے سزا دے۔ مجھے حیرت ہوئی کیونکہ وه راستے میں مرنے والا پہلا زخمی نہیں تھا۔ اس سے پہلے درجنوں افراد اسی طرح فوت ہو چکے تھے۔  پوچھ تاچھ کے بعد پتا چلا کہ لیفٹیننٹ"عارف" حکومت کا کارکن اور مددگار تھا اور اس کا والد"عبدالسلام عارف" کابینہ کا ایک وزیر تھا۔

اسی دوران مجھ سے بھی پوچھ تاچھ کی گئی، کیونکہ میں ہی اس وقت آن ڈیوٹی ڈاکٹر تھا۔ اس پوچھ تاچھ کے دوران میری بے گناہی ثابت ہوگئی اور ایک ہیلی کاپٹر پائلٹ کو پانچویں ڈویژن کے کمانڈر کے احکامات سے رو گردانی کرنے کی بنا پر سزا سنا دی گئی۔

 میں اور کئی جنگ مخالف طاقتیں، انسانیت کی خاطر، زخمیوں کی امداد کے لئے اپنی پوری کوششیں کر رهیں تھیں۔ جبکہ "بعثیوں" کے ڈاکٹرز اور ان کا اسٹاف، ذمہ داری لینے سے گریز کرتے تھے اور ان کا کام صرف کھانا، پینا اور چھٹیوں سے فائده اٹھانا تھا۔ یہاں آپ کے لئے ان سب باتوں کا ایک نمونه لکھ رہا ہوں: "ایک دن ایک بعثی سرجن آن ڈیوٹی تھا، رات کے دس بجے ایک ایمبولینس آئی جس میں پانچ زخمی فوجی تھے۔ ان کے جوڑ الگ ہو چکے تھے، لیکن وه بعثی ڈاکٹر اور قومی مجاہد انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ چند لمحوں بعد میڈیکل ڈپٹی ڈائریکٹر "غفار" جو "بصره" کا رہائشی اور ایک بہادر انسان تھا میرے پاس آیا اور کہنے لگا: سب لوگ ان فوجیوں کی حالت دیکھ کر فرار ہو گئے ہیں میں گزارش کرتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ آئیں تاکہ ہم انہیں بصره بھیجنے کا انتظام کریں۔"

ہم ساتھ چلے۔ ایمبولینس کا دروازه کھلتے ہی میں نے دل دہلا دینے والا منظر دیکھا۔ اندر گوشت کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا۔ میں ایمرجنسی روم میں گیا اور ڈرائیوروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو بلایا۔ چار چار افراد نے مل کر لاشوں کو نیچے اتارا اور ہر ایک کی لاش کو جمع کرنا شروع کیا۔ رات باره بجے ہم نے ان پانچ فوجیوں کی ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی لاشوں کو کمبل میں لپیٹ کر پانچ اسٹریچروں پر رکھ دیا۔ "غفار" کو ایک دو کلو گوشت کا ٹکڑا ملا اور اس نے مجھ سے کہا: "ڈاکٹر یہ ٹکڑا مجھے ایمبولینس میں ملا ہے۔ اسے کہاں رکھوں؟"

میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا: "کیا تم اس کے مالک کو جانتے ہو؟"

اس نے کہا: "نہیں"

میں نے کہا: "خدا کی قسم! مجھے نہیں پتا کیا کرنا چاهیے۔"

تب ایک پیرامیڈیکل اسٹاف نے آواز دی: اسے اس لاش کے ساتھ رکھ دو جس کا گوشت کم ہے۔"

اس نے بھی گوشت کے اس حصے کو ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی لاش کے ساتھ رکھ دیا۔

جاری ہے۔۔۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2470



http://oral-history.ir/?page=post&id=9037