پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 8
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2023-12-31
یہ ستمبر 1961 کی بات ہے میں چوتھی جماعت میں تھا۔ دیگر دوسرے اسکولوں کی طرح ہمارے اسکول میں بھی طلباء کے ہنر جسمانی صلاحیتوں اور تدریسی مہارتوں کو بڑھانے کیلئے اسکاوٹ تنظیمیں تشکیل دی گئیں جنہیں تنظیم پیش آہنگی/ دانش آموزی کہا جاتا تھا ۔ تنظیم پیش آہنگی کا مقصد نو جوانوں کی مہارتوں کو بڑھانا اور نئی مہارتوں سے نوجوان نسل کو آشنا کروانا تھا تاکہ وہ خاص موقعوں پر ان سے مدد لے سکیں، ان مہارتوں میں فرسٹ ایڈ ، مختلف تفریحی مقامات پر جانے کے انتظامات کرنا، ہیلتھ اور صحت کے بنیادی اصول اور ان کی رعایت کرنا ، کھیل وسرگرمی پینٹنگ، ورزش، ڈرائیونگ اور اسکے اصول، آداب معاشرت، مختلف نغمے و ترانے پڑھنا آرٹ اینڈ کرافٹ (دستی ہنر)اور ادبی کلاسز بھی شامل تھیں اور نہ صرف یہ کلاسزلی جاتی تھیں بلکہ طلباء کی صلا حیتوں کو پرکھنے اور تشویق کیلئے مختلف مقابلے بھی کروائے جاتے تھے۔ جس میں کبھی دشہ کے شاگرد (طلباء) آغا ر حمانی کی سربراہی میں تو کبھی آغا امین زادہ صاحب کی سرپرستی میں نور یاب اور شمشیر (پاوہ کا ایک علاقہ جو روانسر کے راستے میں اور شہر پاوہ سے ۸ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے) کے طلباء مقابلوں کو جیت جاتے۔ آغا امین زادہ صاحب ہمارے استاد تھے جو آغا شیانی کے بعد ہمیں پڑھانے لگے تھے اور بحیثیت استاد ہمارے معاون و مدد گار تھے۔
ہمارا یونیفارم خاکی رنگ کا تھا جسکے ساتھ ایک ٹوپی تھی جس پر تنظیم پیش آہنگی کا مونو گرام لگا ہوا تھا جبکہ جوتے بھی فوجی بوٹ سے ملتے جلتے تھے۔
اسکاؤٹنگ کی تمام ابتدائی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ اسکول کا ایک سال گزر گیا ۔ جس کے بعد آغا امین زاده صاحب نے نوریاب کے طلباء کو فرجی ٹریننگ کیلئے جمع کیا ، پریڈ کیلئے ، ۲۶ اکتوبر کا دن منتخب کیا گیا تاکہ اس دن تک ہم سب تیار ہو سکیں اور بھر پور تیاری کرسکیں۔ ۲۶ اکتوبر در اصل شاہ کی سالگرہ کا دن بھی تھا اور اس دن جشن کی مناسبت سے ہماری طرح دیگر دوسرے شہروں سے بھی (پاوہ کے اطراف سے) تین سو سے چار سو طلباء اسکاؤٹ پاوہ آئے ہوئے تھے یہ اجتماع پاوہ کی مولوی چوک پر منعقد ہوا ، اور ہم نے بھی اسمیں بھر پور شرکت کی ہمارے استاد آغا امین زاده صاحب ہمارے علاوہ دوسرے ارد گرد کے گاؤں میں بھی اس ٹریننگ کو کروانے پر مامور تھے وہ ہفتے میں ایک دن چند گھنٹوں کیلئے ہمارے اسکول بھی آتے اور بقیہ دنوں میں دوسرے اسکولوں میں بھی بحیثیت ٹرینر فرائض انجام دیتے تھے
1961 میں نوریاب کے اور اسکول میں شاگردوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا جس کی بناء پر آغا محمود رسول آبادی بھی آغا محمد امین زادہ صاحب کے ساتھ آغا شیانی کے قائم مقام کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دینے لگےاس سال آغا امین زادہ صاحب نے اسکاؤٹ اور تنظیم پیش آہنگی کی کلاسز کے بجائے ہماری اسکول کی کلاسز لیں اور وہ ان کلاسز کیلئے بھی سفر کی تمام مشکلات کو اٹھاتے ہوئے پوری دلجمعی کے ساتھ نوریاب آتے رہے ہمارا اسکول صرف چوتھی جماعت تک تھا۔ مگر سال کے درمیان میں ہی بہت سے طلباء اپنی مالی حیثیت کی وجہ سے اسکول چھوڑ چکے تھے۔
ایک طرف تعلیمی سہولیات کا فقدان اور دوسری طرف اور اقتصادی ومعاشی پریشانیاں۔ باعث بنی کہ پانچویں کلاس میں صرف ہم دو شاگرد ہی پہنچ سکے ایک میں اور دوسرا محمد ولدبیگی, جن کیلئے پھر یہ اعلان ہوا کہ وہ اپنی پڑھائی اور کلاسز کیلئے پاوہ شہر جائیں گے ۔
یہ ستمبر ۱۹۶۲ کی بات ہے جب میں محمد ولد بیگی کے ساتھ پاوہ گیا اور ہم دونوں نے پانچویں اور چھٹی جماعت ضیائی اسکول سے پڑھی جو کہ مولوی چوک کے پاس تھا، ضیائی خاندان کا شمار پاوہ کے اہم ترین اور اصیل خاندانوں میں ہوتا تھا جن کا جھکاؤ روحانیت کی طرف زیادہ تھا مولانا (ملا) ناصر ضیائی ابن مولانا (ملا) زاہد ابن مولانا (ملا)صلاح الدین ، مولانا محمد زاہد کے پوتوں میں سے تھے جو کہ پاوہ شہر کے مشہورو معروف عالم عارف مولانا اور خدمت گزار ہوں میں شمار ہوتے تھے۔ مولانا ناصر ضیائی صاحب نہ صرف پاوہ کے امام جمعہ تھے بلکہ ادارے تعلیم و تربیت (خانہ فرہنگ) کے مدیر اعلیٰ بھی تھے۔
میری والدہ کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ مجھے دیتیں اور میں گرم کھانا خرید کر کھاتا وہ روزانہ صبح جب میں نوریاب سے پاوہ کیلئے نکلتا تو مجھے ایک کپڑے میں ایک روٹی لپیٹ کر دے دیتیں اور دعاؤں کے سائے میں مجھے رخصت کر دیتیں تھیں میں اور محمدولد بیگی جس کے حالات بھی مجھ سے کچھ مختلف نہ تھے پاوہ کے راہی تھے ہم دونوں نے ان دو سالوں میں ایک دفعہ بھی کسی گاڑی میں سفر نہیں کیا، گاڑی تو دور کی بات ہم کبھی خچر پر بھی سوار نہ ہوئے جو اس برف اورگل (کیچڑ) سے پُر راستے سے نکال کر ہمیں صحیح و سالم پاوہ تک پہنچا سکے ، پورا راستہ پیدل ہی جاتے اور پیدل ہی واپس آتے ۔کبھی جو جلدی ہوتی اور چاہتے کہ کلاس میں ذرا جلدی پہنچ جائیں تو ہم گلال گاؤں کے درمیانی راستے کو منتخب کرتے اور وہاں سے ہوتے ہوئے پاوہ پہنچتے تھے۔
ہمارا اسکول دو شفٹوں کا تھا ایک صبح کی شفٹ تھی اور دوسری ظہر کے بعد دوپہر کی شفٹ، ہماری صبح کی شفٹ جب ختم ہوتی تو کلاسسز کے ختم ہوتے ہی میں اور محمد ولد بیگی آغا محمد امین سیف الدینی کے چائے خانے (کیفے) پر جاتے جو محلے کے چوک پر ہی واقعہ تھا اور وہاں جا کر ایک میٹھی چائے اور دو روٹی منگواتے۔ اس کیفے والے نے ٹوکن بنائے ہوئے تھے اور ہمارے معاملے میں یہ طے تھا کہ ہم ایک چائے کے کپ کے بدلے ایک کاغذ کا ٹوکن اُسے دیں گے اور پیسے بعد میں ادا کر دیں گے.
میری مالی حالت بھی دوسرے طلباء سے بہتر نہ تھی مگر میں ذہین ہوشیار اور قابل تھا گرمیوں میں جب اسکول کی تعطیلات ہوتیں تو میں لوگوں کی زمینوں پر جا کر زمینوں پر سے جھاڑیوں اور گھانس کو اکھاڑ کر زمینوں کی تیاری کا کام کرتا ان دنوں میں میری پوری کوشش ہوتی کہ اتنا کام کروں کہ اپنا اور اپنی والدہ کے ایک سال کا خرچہ نکال سکوں لہذا پورا پورا دن صرف کام ہی کرتا رہتا اور جب تعطیلات ختم ہوتیں اور کام کا پیسہ ملتا تو سب سے پہلے کیفے جاتا اور پورے سال کا حساب کر کے اسے ادائیگی کرتا تھا۔
صارفین کی تعداد: 885