پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 9
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2024-1-6
جب نوروز کی عید کی چھٹیاں آتیں تو اپنے گاؤں کے لوگوں کے ساتھ مل کر اطراف کے گاؤں جیسے وراء (پاوہ کے مرکز سے ۲۵ کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے)، نول و گنجگہ (پاوہ اور دو آب نوسود کے پل کے درمیان کو ہستانی علاقے ہیں) جاتا اور وہاں صبح سویرے سے مغرب تک لکڑیاں جمع کرتا ۔ جب سورج غروب ہونے لگتا تو باقی لوگوں کے ساتھ مل کر ان لکڑیوں کو گدھوں پر لاد کر ان کے ساتھ واپس آ جاتا، دوسرے دن صبح سویرے ہم سب مل کر ان لکڑیوں کو دوبارہ گدھوں اور خچروں پر لاد تے اور ان کو بیچنے کیلئے نور یاب سے پاوہ کی جانب سفر شروع کر دیتے۔ پاوہ آکر میں ان لکڑیوں کو دو تومان( تقریباً دو روپے پاکستانی) میں بیچ دیتا جس میں سے آدھا میرا اور آدھا گدھے اور خچرکے مالک کا حصہ ہوتا تھا۔
موسم بہار اور سردیوں کے زیادہ تر دنوں میں شدید برف باری ہوتی تھی ہمارے پاس چھتری خریدنے کےپیسے نہیں ہوتے تھے لہذا نائیلون کی تھیلی کا ایک ٹکڑا سر پر ڈالتے اور مدرسےکی جانب روانہ ہو جاتے۔
ٹھنڈی، یخ بستہ ہواؤں کی وجہ سے نائیلون کی تھیلی پر جمع ہونے والا پانی جم کر برف بن جاتا تھا اور برف کے کرسٹلز ہمارے سر اور چہرے کو ڈھانپ لیتے کبھی کبھی یہ برف باری اتنی شدید ہوتی کہ پاوہ جانے والا راستہ بند ہو جاتا اور ہم مجبور ہو جاتے کہ چند دن صبر کریں تا کہ حکومتی ادارے آئیں اور ایک مال بردار گاڑی کے جانے کی جگہ کے برابر اس راستے کو صاف کر دیں جیسے ہی حکومتی اہلکار صفائی کیلئے آتے اور راستہ صاف ہونا شروع ہوتا میں اور محمد ولدبیگی انہی کے ساتھ ساتھ چلنا شروع ہو جاتے اور جیسے جیسے راستہ صاف ہوتا جاتا ہے ہم آگے بڑھتے جاتے اور انہی کے ساتھ پاوه پہنچ جاتے تھے۔
ان دو سالوں، اور چند ماہ میں جو پاوہ میں گزرے میرے دو ہی دوست بنے ایک محمد ولد بیگی اور دوسرا محسن معازی میں اور محمد نور یاب گاؤں کے تھے مگر محسن پاوہ کا ہی رہائشی تھا۔ ہم تینوں ضیائی اسکول کی جماعت پنجم اور ششم کے ہونہار شاگردوں میں سے تھے ہم تینوں میں پہلی دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے کیلئے مقابلہ ہوتا اور ہم تینوں بھی بہت کم نمبروں کے فرق کے ساتھ ایک دوسرے سے آگے پیچھے ہوتے تھے اور بہت سخت مقابلہ ہوتا تھا مگر پہلی پوزیشن صرف ہم تینوں کے درمیان ہی گھومتی رہتی تھی۔ہم بہت محنت سے دل لگا کر سبق یاد کرتے تھے ، مگر ہمارا دل خوش ہو جاتا تھا جب ہماری مائیں ہماری پوزیشنز پر خوش ہوتیں اور ہمارے ہونہار طالب علم ہونے پر فخر کر تی تھیں۔
میں اور محمد ولد بیگی، اپنے گاؤں نوریاب میں گویا تعلیم کے علمبردار بن گئے اور ہماری اسی لگن کو دیکھتے ہوئے ہمارے اس دو لوگوں کے گروہ نے گویا کاروان کی شکل اختیار کرلی اور ہمارے ساتھ نوریاب سے دو اور بھائی شامل ہو گئے ۔ جن کے نام انور اور ہادی پیاب تھے باقی بھی کچھ لوگ خواہش مند تھے مگر افسوس کہ ان کی مالی حیثیت اور فقر و تنگدستی نے کسب علم کی اس خواہش کو پورا نہ ہونے دیا اور یہی وجہ تھی کہ اس زمانے میں بہت کم لوگ پڑھے لکھے تھے۔
یہ ستمبر ۱۹۶۴ کی بات ہے میں نے چھٹی جماعت بھی پاس کرلی، اور نہایت خوشی اور مسرت کے ساتھ میں ہائی اسکول گیا جسکا نام پہلوی ہائی اسکول تھا۔ میں بلند قد و قامت کا لمبا چوڑا نوجوان تھا جسکی وجہ سے دوسرے شاگردوں کی نسبت بڑا دکھائی دیتا تھا یہی وجہ باعث بنی کہ آغا ملک شاہی نے جو ہائی اسکول کے پرنسپل تھے میرے قد و قامت اور دوسرے شاگردوں سے بڑا ہونے کی وجہ سے میرا ایڈمیشن لینے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے مجھے یہ کہ کر منع کر دیا "تمہاری عمر زیادہ ہے، لہذا تم بالغان کے اسکول جاؤ اور وہاں پڑھو" بالغان (بڑوں) کا اسکول، میرے لئے یہ لفظ نا آشنا تھا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ لوگ جو عمر میں زیادہ ہوتے ہیں اور پڑھائی کے اعتبار اور کلاس کے درجے کے حساب سے پیچھے ہوتے ہیں ان کیلئے الگ اسکول ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم چلا کہ پا وہ شہر میں ایسا کوئی اسکول نہیں اور نہ ہی مستقبل میں کوئی ایسی امید رکھی جا سکتی ہے۔
میری خواہش اور التجا بالاخر کام کر گئی اور پہلوی اسکول کے پرنسپل آغا ملک شاہی میرا ایڈمیشن لینے پر راضی ہو گئے مگر ایک شرط کے ساتھ وہ شرط یہ تھی کہ میں کلاس میں دئے گئے لیکچر بیٹھ کر سن سکتا ہوں اور کلاس لے سکتا ہوں مگر میرا نام اسکول میں نہیں لکھا جائے گا۔
بہر حال جب پہلے دن کلاس میں داخل ہوا ، تو دیکھا میرے بیٹھنے کیلئے کوئی جگہ ہی نہ تھی ساری کرسیاں شاگردوں سے بھری ہوئیں تھیں، سب اساتذہ کو پہلے سے معلوم تھا کہ مجھے صرف کلاس لینے کی اجازت دی گئی ہے اور میرا نام نہیں لکھا گیا ہے لہذا ان کا رویہ بھی میرے ساتھ اچھا نہ تھا حتیٰ وہ لوہے کی فولڈ نگ کرسیاں جو کچھ عرصہ قبل ہی پادہ کے اس اسکول میں لائی گئیں تھیں اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ شاگردوں کے استعمال کیلئے بھی رکھی گئیں تھیں جن پر بیٹھنا میرے لئے خوشگوار اور لذت بخش تھا مجھے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی حتیٰ وہ بینچیں جو کلاس کے آخر میں میں کسی کے استعمال میں نہ ہونے کیوجہ سے ایک کے اوپر ایک کر کے رکھ دی گئیں تھیں مجھے ان میں سے ایک بینچ بھی لینے اور اس پر بیٹھنے کی اجازت نہ دی گئی۔ ایک دن اسکول کے پرنسپل آغا ملک شاہی نے مجھ سے کہا "اپنی کرسی خود لے کر آؤ "۔
صارفین کی تعداد: 1326