زبانی تاریخ اور اُس کی ضرورتوں پر انٹرویو – اُنیسواں حصہ

اچھی طرح اور دھیان سے سننا (۱)

حمید قزوینی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-8-26


دوسروں کی بات اچھی طرح دھیان سے سننے کا شمار اُن مہارتوں میں ہوتا ہے جو تمام انسانی رابطوں کے قیام میں اہم کردار ادا کرتا ہے،  جن میں سے ایک انٹرویو ہے۔ بنیادی طور پر انٹرویو کے تمام مقدمات کو بہت دقت کے ساتھ فراہم  ہونا چاہیے تاکہ ہم راوی کی بات کو صحیح سے سن کر اُسے ریکارڈ کریں۔

ہم میں سے اکثر لوگ غلط سوچتے ہیں کہ ہم اچھا سننے والے ہیں، حالانکہ کان لگا کے سننے اور صرف سننے میں فرق ہوتاہے۔ سننا یعنی آواز درک کرنے کی صلاحیت، جبکہ کان لگا کے سننے میں بہت زیادہ غور و فکر اور تمام حواس کو بروئے کار لانا ہے۔ سننا، بغیر چاہے  ایک اتفاقی عمل ہے اور جس میں ہمارے اطراف و اکناف کی تمام آوازیں شامل ہوتی ہیں ، لیکن کان لگا کے سننا، ایک کارآمد عمل ہے جو ہماری آگاہی کے سلسلے میں صرف ہماری چاہت اور ارادے سے انجام پاتا ہے۔

کان لگا کے سننے میں، ہمیں نہ صرف بیان ہونے والی داستان کو سننا چاہیے بلکہ ضروری ہے کہ راوی کے مقصد کو بھی اچھی طرح سمجھ کر اُس کے بیان کرنے کے طریقہ، آواز کے انداز اور جسمانی حرکات پر بھی دقت کریں۔ دوسرے الفاظ میں، کان لگا کے سننا یعنی کلامی اور غیر کلامی پیغام کو ایک ساتھ سمجھنا۔ پس کہے جانے والے کلمات کو صرف سن لینا کافی نہیں ہے، بلکہ کان لگا کے سننے کیلئے کانوں سے بڑھ کر کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی ہمیں اپنی تمام صلاحیت اور تشخیص کی پوری قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے راوی کی باتوں پر توجہ کرنی چاہیے۔

سادہ لفظوں میں کہا جائے، ایک اچھا سننے والا صرف کہی جانے والی بات پر کان نہیں دھرتا، بلکہ وہ چیزیں جو بیان نہیں ہوتی یازبان سے اُدھوری ادا ہوتی ہیں ، اُن پر بھی توجہ کرتا ہے۔ مثلاً اگر کسی نے آپ سے کہا کہ مجھے فلاں واقعہ کے بارے میں اچھی طرح پتہ ہے اور  جب کہ اُس کے چہرے کی حرکات اور آنکھوں سے ایسا نہیں لگ رہا ہو  یا اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئیں، واضح ہوجائے گا کہ اُس کی باتوں اور جذبات میں فرق ہے۔ حقیقت میں، اچھی طرح کان لگا کر سننے میں جسمانی گفتگو کو مدنظر رکھنا اور  راوی کی کلامی اور غیر کلامی باتوں کے درمیان اختلافی احتمال پر توجہ رکھنا بھی شامل ہے۔ دوسری طرف سے اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہیے کہ کیا راوی میں اس بات کو درک کرنے کی صلاحیت ہے کہ ہم اُس کی باتوں کو کان لگاکر سن رہے ہیں نہیں۔

بہر حال ہمیں  یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر ہم کان لگا کے سننے کے ماہر نہیں ہیں تو ہم نے نہ صرف راوی کو پریشان کرنے کے اسباب فراہم کئے ہیں بلکہ ہمارا یہ عمل خود انٹرویو کو بھی نقصان پہنچائے گا۔

کان لگا کے سننے کی آمادگی

انٹرویو کے شروع میں پرسکون رہیں اور اپنی تمام توجہ کو راوی پر مرکوز کریں۔ دوسرے لفظوں میں، ذہن سے تمام اضافی چیزیں نکال دیں۔ انسان کا ذہن بہت آسانی سے مختلف امور کی جانب منحرف ہوجاتا ہے، اپنی پوری کوشش کریں اور غیر مربوط سوچوں کو اپنے دماغ سے باہر نکال دیں تاکہ آپ راوی کی بیان کردہ باتوں پر توجہ دے سکیں۔ افسوس کے ساتھ ہم نے بہت سے موارد میں ایسے انٹرویوز کا مشاہدہ کیا ہے کہ جس میں انٹرویو لینے والا بالکل توجہ نہیں کرتا اور حتی راوی، انٹرویو لینے والے کو اپنی طرف متوجہ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ جو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔

صبر اور خاموشی کی اہمیت

جب راوی بات کر نے میں مصروف ہے ، یا سوال کا انتظار نہیں کر رہا، اُس کی بات کو کاٹے نہیں، اُس کی جگہ بات نہ کریں ، اُسے اپنی بات پوری کرنے کی مہلت دیں۔ جب راوی کی گفتگو ختم ہوجائے، جو بات اُس نے کہی ہے اُس کے بارے میں بات کریں اور وضاحت کریں تاکہ پتہ چلے کہ اُس کی باتوں کو آپ نے صحیح سے سمجھ لیا ہے یا نہیں۔ کبھی ایسا بھی ممکن ہے کہ راوی  کچھ دیر کیلئے خاموش ہوجائے۔ شاید تھوڑی زیادہ دیر کیلئے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اُس کی بات ختم ہوگئی ہے۔ پس صبر کے ساتھ اُسے اپنی بات جاری رکھنے کی مہلت دیں۔ لہذا جب بھی راوی بات کرتے ہوئے روک جائے، آپ فوراً  بات کرنا  شروع نہ کردیں اور اُس کے جملے کو اپنی کلمات سے پورا کرنے کی کوشش  نہ کریں۔ راوی کے چند لمحات کی خاموشی کے دوران، اپنے سوالات اور رائے پیش کرکے ، راوی کے تمرکز میں خلل ایجاد نہیں کرنا چاہیے۔ کان لگا کے بات سنتے وقت، راوی کو موقع دینا چاہئیے تاکہ وہ اپنے افکار اور جذبات کو بیان کرسکے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 5977


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

قید میں عزاداری

عراقی میجر نے کچھ دیر سوچا اور کہنے لگا : "آپ جائیں میں سب ٹھیک کرتا ہوں." چونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ اگر امام حسین(ع) کا عشق ان کے عاشقوں کے اندر بھڑک اٹھا تو وہ پہلے خود ان کو جلائے گا اور پھر اس کے لیے بھی اس کا برا انجام ہوگا.
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔