تنہائی والے سال – نواں حصّہ
دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات
کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی
2017-12-10
میں نے چھپ کر ہر چیز پر نگاہ رکھی ہوئی تھی؛ نگہبان نے ایک فرد کو کرسی سے اٹھایا اور لے گیا۔ تقریباً دس منٹ بعد ایک نامانوس سی آواز کانوں تک پہنچی جیسے کوئی میز ٹوٹی ہو اور کچھ دیر بعد ایک دوسرے آدمی کو لے گئے اور پھر ووہی ٹوٹنے کی آواز۔ بالکل گھپ اندھیرا تھا اور ہم کسی دور دراز علاقے میں موجود چھاؤنی جیسی جگہ میں تھے۔ تنہا جو چیز میرے ذہن میں آئی وہ یہ تھی بس یہاں زندگی کا خاتمہ ہے اور گویا ایک ایک کرکے لوگوں کو لے جاتے ہیں اور لٹکا دیتے ہیں۔ بہرحال دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ پروردگارا! مجھے معاف کردے ...
میری باری آئی۔ نگہبان نے میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچا ، میں اُس کے ساتھ گیا۔ کچھ راہداریوں سے گزر کر ہم ایک کمرے میں داخل ہوئے اور نگہبان نے دروازے کو بند کردیا۔ کسی نے فارسی میں کہا: "اپنی آنکھوں کو کھولو!"چھوٹے سے کمرے کے اندر ایک میز، ایک کرسی اور دو بینچیں تھیں، عراقی جنرل میز کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ تین یا چار لوگ بھی بینچوں پر بیٹھے ہوئے تھے، جن میں سے دو جنرل تھے اور میں نے باقیوں کے عہدے کو نہیں پہچانا۔
میز کے پیچھے بیٹھے ہوئے جنرل نے مجھ سے میرے کوائف اور چھاؤنی میں ڈیوٹی کے بارے میں پوچھا کہ میں نے جواب دیا۔ پھر وہ بولا:
- بغیر مقدمے کے، میں اصلی سوال پوچھ رہا ہوں؛ ہم یہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ ایران نے اپنے لڑاکا طیاروں خاص طور سے اف- ۱۴ کو کون سے علاقوں میں مستقر کیا ہوا ہے اور اُن سے کس طرح کام لیتا ہے؟
میں نے آرام سے ٹھہرے انداز میں کہا:
- مجھے کچھ نہیں پتہ!
اُس نے اپنی آواز کو تیز کرتے ہوئے پوچھا:
- تم کس طرح کے میجر ہو جسے ایران میں موجود طیاروں کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتہ؟
میں نے یہ دکھانے کیلئے جیسے منطقی انداز میں بات کر رہا ہوں، کہا:
- اس طرح کے طیاروں سے مربوط مطالب بالکل مخفی ہوتے ہیں اور اُن کے بارے میں ہر کسی کو نہیں بتایا جاتا۔
اُس کی آواز میں اور تیزی آگئی اور اب اُس میں دھمکی شامل ہوگئی تھی کہ:
- جھوٹ بولتے ہو، بہتر ہوگا کہ جو کچھ جانتے ہو، ہم سے کہہ دو۔
- مجھے نہیں لگتا کہ میں بتانا چاہتا ہوں۔
اُس کی آنکھوں میں بیچارگی کی لہر دوڑی۔
اُس نے چند افراد میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا۔ وہ میری طرف آیا اور گھٹنے سے میری پیٹ کے نیچے زور سے مارا۔ میرے بیضوں (مثانوں) میں شدید درد اٹھا اور میں کھڑا ہوگیا۔ اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بہت بھاری اور پست فطرت انداز میں میرے چہرے پر طمانچے مارے، دروازہ کھولا اور مجھے باہر دھکا دیا۔ اب مجھے اُس نامانوس آواز کے معنی اور راز کے بارے میں پتہ چلا!
باہر کھڑے نگہبان نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے کسی دوسری راہداری سے گزار کر صحن میں، ایک کرسی پر بٹھا دیا۔ جو افراد پہلے جنرل کے پاس گئے تھے ، وہ وہاں انتظار کر رہے تھے۔ میرے پاس جو نگہبان تھا، میں نے اُس کی گھڑی پر نگاہ ڈالی تو رات کے تین بج رہے تھے۔ سب خاموش تھے اور ہم کبھی کبھار مخفی انداز میں ایک دوسرے کی طرف نگاہ کرتے تھے۔ ایسی نگاہ جس میں بولنے والی ہزار زبانیں تھی لیکن بولی نہیں سکتی تھیں۔ جانی پہچانی اور ہمدردی والی نگاہ!
تقریباً ایک گھنٹے بعد، تمام بارہ افراد کو پھر ایک لائن سے کھڑا کردیا، ہماری آنکھوں پر مضبوطی سے رومال باندھے گئے۔ ہم نے آگے والے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر چلنا شروع کردیا۔ وہی گاڑی، ہمارے انتظار میں کھڑی تھی۔ ہم اُسی راستے اور اُسی سڑک سے واپس آگئے۔ عمارت میں داخل ہوئے، کانوں میں ایک بار پھر ٹائپ کی آواز آئی۔
ہر دو آدمیوں کو ایک نگہبان اپنی تحویل میں لیکر کسی طرف جا رہا تھا۔ مجھے احساس ہوا جیسے ہم لفٹ میں چڑھے ہیں، تھوڑا سا اوپر جانے کے بعد، وہ روک گئی۔ نگہبان تھوڑا سا گھمانے کے بعد مجھے ایک کمرے میں لے گیا اور بولا: "اپنی آنکھوں کو کھولو!"
میں نے جیسے ہی اپنی آنکھوں کو کھولا، اُس نے دروازہ بند کیا اور چلا گیا۔
ایک 3×2 سائز کا کمرہ تھا جس کے ایک کونے پر تجوری جیسا موٹا لوہے کا دروازہ تھا اور اُس میں ٹی وی کی اسکرین کے برابر ایک چھوٹا سا معمولی دریچہ تھاجو باہر سے کھلتا تھا۔ دوسرے کونے پر، لوہے کے دروازے کے قریب، ایک چوکور سی خالی جگہ تھی جس کے اندر ایک بلب تھا جس سے بہت کم روشنی دکھائی دے رہی تھی وہ جگہ لوہے کہ جال کی شکل کی تھی۔ پورے کمرے میں لال رنگ کی ٹائلز لگی ہوئی تھیں۔ ایک طرف کے بالائی حصے کو، بیس سینٹی میٹر کی بلندی پر، موٹے شیشے سے ڈھکا ہوا تھا جہاں سے کمرے میں روشنی آتی تھی اور دوسرے حصے سے آسمان دکھائی دیتا تھا۔ اُسی حصے کے نیچے ایک حمام، دوسری طرف ایک ٹوائلٹ (کمورڈ) اور اُن دونوں کے درمیان ایک باتھ روم تھا۔ ٹوائلٹ کے اوپر ایک روشندان (Ventilation)لگا ہوا تھا جو کمرے میں بہت ہی ٹھنڈی ہوا پھینک رہا تھا۔
میں نے حمام کے شاور کو کھولا۔ بہت ہی تعجب کے ساتھ اس طرف متوجہ ہوا کہ ٹھنڈا اور گرم پانی موجود ہے۔ میں خوشی میں فوراً نہا لیا؛ کیونکہ مجھے خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہوا نہانے سے پہلے، مجھے کہیں اور لے جائیں۔
اپنی آنکھیں کھل جانے اور خود کو صاف ستھرا دیکھنے کی وجہ سے، میں تھوڑا بہت خوشحالی کا احساس کر رہا تھا جیسا کہ آزاد ہوگیا ہوں۔ اسی وجہ سے میں نے کئی مرتبہ خداوند متعال کا شکر ادا کیا۔ میں نے کپڑے پہنے تاکہ اگر نگہبان آئے تو میں تیار رہوں۔
میں نے کمرے کو چیک کرنا شروع کیا، دروازے کے نیچے ایک چھوٹا سا رخنہ کھلا ہوا تھا۔ میں نے اپنے سر کو زمین پر رکھا اور باہر دیکھا۔ تھوڑی سی راہداری کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔ تھوڑا روشندان کی طرف گیا اور گوشہ و کنار میں رکھے کسی مائیکروفون یا چھوٹے سے کیمرے کو ڈھونڈا، لیکن کچھ بھی نہیں تھا۔ مجھے تقریباً اطمینان ہوگیا تھا کہ یہ جیل کے اندر میرا سیل ہے!
میں نے اپنا لباس اُتارا تاکہ اُسے شاور کے نیچے دھو لوں، مجھے پتہ چلا کہ جیسے اُس کی جبیوں میں کچھ باقی رہ گیا ہے۔ میں نے تعجب اور خوشحالی کے ساتھ اپنی گھڑی کو پایا۔ مجھے اس بات پر تعجب تھا کہ نگہبانوں نے کئی بار میری تلاشی لی تھی اور میرے جیبوں کو ٹٹولا تھا اور مجھے اُمید نہیں تھی کہ کچھ باقی بچا ہوگا۔ گھڑی کو اپنے جوتوں میں رکھ لیا! ایک قیمتی یادگار چیز بھی ہمیشہ سے میرے ساتھ تھی اور وہ میری شادی کا رنگ تھا کہ جسے استثنائی طور پر نہیں لیا تھا یا اتفاق سے متوجہ نہیں ہوئے تھے۔
زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ نگہبان نے دروازہ کھولا۔ دو عدد کمبل، ایک تکیہ اور دھونے دھلانے کیلئے تھوڑا سا پوڈر کمرے میں پھینک کر چلا گیا۔ کچھ منٹوں بعد دروازے کے اوپر والا چھوٹا دریچہ کھلا، ایک شخص اُس کے سامنے اپنا منھ لایا اور عربی میں کچھ کہا جسے میں سمجھ نہیں پایا۔ ایک آدمی کو لائے جسے تھوڑی بہت فارسی آتی تھی۔ میرا نام، عہدہ اور میرے قید ہونے کی تاریخ پوچھی۔ میں نے بتایا اور فوراً اپنی بات جاری رکھی:
- یہاں ڈاکٹر نہیں ہے؟
- ہے!
تھوڑا وقت گزرنے کے بعد، میرے کانوں میں ایک ٹرالی گزرنے کی آواز آئی۔ چھوٹا دریچہ کھلا اور ایک شخص جو انگلش میں بات کر رہا تھا، اُس نے پوچھا:
- تمہیں کیا مشکل ہے؟
- میری کم میں درد ہو رہا ہے، کیونکہ ...
مجھے نہیں پتہ تھا کہ بات کرنے کی فرصت نہیں ہے، اُس نے ٹرالی سے کچھ گولیاں دی اور کہا:
- یہیں میرے سامنے کھاؤ!
اُس کے جانے کے بعد پھر ٹرالی کی آواز آئی اور دریچہ کھلا۔ میں آگے بڑھا۔ اُس نے میرے ہاتھوں میں چاولوں کا پیالہ ، تھوڑا سا سالن اور دو عددسینڈویچ والی روٹی پکڑائی۔ میں نے کھانا کھالیا۔ ایک دفعہ پھر دریچہ کھلا اور اسٹیل کے ایک پیالے میں گرم گرم چائے مجھے پکڑائی۔
زندان کے سیلوں کے دریچے بند ہونے کی آواز صحیح سے میرے کانوں تک پہنچ رہی تھی اور اگر میں دقت کرتا تو میں سیلوں کی تعداد کا پتہ لگا سکتا تھا۔
صارفین کی تعداد: 3872