اپنی باری کا انتظار کریں

قم کے صف اول کے علماء نے، حوزہ علمیہ قم کے بانی اور اپنے استاد کے فرزند، آیت اللہ شیخ مرتضی حائری کے گھر جمع ہو کر اقدام کرنے کا فیصلہ کیا۔ نتیجے کے طور پر، ان میں سے ہر ایک نے شاہ کو الگ الگ ایک ٹیلیگرام لکھا. ان میں سے امام کا ٹیلی گرام سب سے زیادہ سخت تھا۔ لیکن ان ٹیلیگراموں کے جواب میں، چند دن کی تاخیر کے بعد شاہ نے اپنے آپ کو بری الذمہ کر لیا اور ساری ذمہ داری حکومت کے کندھوں پر ڈال کر اس کام کا ذمہ دار اسے ٹہرا دیا

نصرت اللہ محمود زادہ کے واقعات کا ایک ٹکڑا

جنگ کے دروران سڑکیں بنانے کی اہمیت

مجاہدین کا آخری معرکہ چند مختلف مقامات  کو اپنا محور بنائے ہوئے تھا۔ بلڈوزر پہاڑیوں کا سینہ چیرتے ہوئے گلان کی چوٹی کی جانب گامزن تھے۔ یک دم دشمن کی فائزنگ نے تمام پہاڑی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

کاروباری حضرات کی شہید بہشتی سے ملاقات

بازاریوں کو مقابلے اور جدوجہد کا اندازہ تھا، لیکن شاید اس قسم کے موضوع کے لیے درکار آمادگی نہیں رکھتے تھے۔ آقا بہشتی نے اچانک یہ بحث چھیڑ دی۔ انہوں نے پوچھا کہ اگر آپ معاشرے میں اسلامی حکومت چاہتے ہیں تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟

گھٹن اور تناوَ کی فضا میں تدفین

شہید سعیدی کے تشیع جنازے کا واقعہ

جنازے پر حملہ ایک طرح سے مدرسہ فیضیہ پر حملے جیسا تھا کیونکہ طلاب ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے اور ادھر ادھر عمامے گرے ہوئے تھے۔ اس قدر گھٹن اور تناؤ  تھا کہ طلباء کئی دنوں تک گھروں سے نہیں نکل سکے۔

مشکلیں اتنی پڑیں کہ آساں ہو گئیں!

اگلے دن میں آیت اللہ خمینی کی خدمت میں پہنچا، جو اپنے گھر کے تہہ خانے میں اکیلے بیٹھے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے کل رات ایسی فون کال آئی تھی، میں نے کسی کو نہیں بتایا اور نہ بتانے کا ارادہ ہے، کیونکہ اس سے ہمیں نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ لیکن میں نے آپ کو مطلع کرنا ضروری سمجھا۔

جنگ کی یادداشتوں کا ایک ٹکڑا

حقیقت یہ ہے کہ آج مورچہ پر آنے اور جانے کے دروان میں نے ان چیزوں کو مشاہدہ کیا ہے جن کو کبھی بھلا نہیں سکتا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے ان مناظر کو جس طرح قلم بند کرنا چاہئے اس کی قدرت میرے قلم میں نہیں ہے

محاصرے کے باوجود محروم افراد کی امداد

پھر میں تبریز گیا اور امام کا خط اپنے ساتھ لے گیا۔ وہاں ہم نے کچھ علماء کو آیت اللہ مجتہدی کے گھر میں جمع کیا اور لوگوں کی مدد کے لیے ایک وفد تشکیل دیا گیا۔

مرتضی الویری کے واقعات

رات ہو چکی تھی  اور وحشت نے میرے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ میں اسی چائے والے کے ہمراہ اس کے گھر جا پہنچا۔ اس کا گھر ایک بڑے سے صحن میں واقع تھا۔ اس صحن کے چاروں طرف کمرے ہی کمرے بنے ہوئے تھے۔

محمد علی پر دل کے واقعات

اسیروں کا آزار

یہ لال ٹوپیوں والے بعض اوقات اسیروں کے ٹرکوں کے پاس آتے تھے اور گندی گندی گالیاں دیا کرتے تھے۔ راستہ میں ایک موٹر سائیکل سوار ہمارے ٹرک کے نزدیک آیا تو ایک سپاہی نے جلدی سے کھڑکی کھول کر اور کو ایک گندی سی گالی دی اور کہا کہ ٹرک سے دور رہو۔

جلال الدین فارسی کی یادداشتوں سے اقتباس

ڈاکٹر مصدق کے خلاف بغاوت کا احوال

دو دن بعد امتحانات میں شرکت کے بہانے میں نے تہران یونی ورسٹی کا رخ کیا۔ تہران کے شریف اور آزادی طلب عوام حیرت میں مبتلا نظر آئی۔ شاہ کے حامی جشن منا رہے تھے اور شعبان بی مخ نامی بدمعاش ایک کھلی چھت کی گاڑی میں ہاتھ میں پستول لہراتا ہوا شاہ زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا گذر رہا تھا۔
4
...
 
کتاب"در کمین گل سرخ" سے اقتباس

شہید علی صیاد شیرازی کی داستان

اُن لوگوں کی ان کے برتاؤ کے مطابق طبقہ بندی کی تھی۔ پہلے اور دوسرے کمانڈر کے احساسات ہم آہنگ نظر آئے جس سے محسوس ہورہا تھا کہ ان کے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے دو افراد سے الگ الگ بات کرنی چاہئے تھی تاکہ نفسیاتی اعتبار سے کوئی تداخل پیدا نہ ہو۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔