ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، تینیسواں حصہ

آہستہ آہستہ یہ چند ماہ میں ایک بار باہر جانا بھی بند ہوگیا اور بچوں کا باہر جانا صرف اسکول تک محدود رہ گیاحتیٰ خریداری کے لئے باہر جانا جو بچوں کے لئے تفریح کا نعم البدل تھا وہ بھی منسوخ ہو گیا ۔

ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، بتیسواں حصہ

پاکستان میں شیعہ عمومی پروگرامز میں زیادہ تر شرکت نہ کرتے تھے  اور ان کا عمومی مراکز پر جمع ہونا   عزاداری سید الشہداء کے جلوس و مجالس یا ولادت و شہادت  کی تقریبات کے موقعہ تک محدود تھا۔

ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، اکتیسواں حصہ

میں پاکستان میں شیعوں کے قتل و غارت کے ماحول سے آگاہ تھی اور جو یادیں شہید گنجی کے  واقعہ کی میرے ذہن میں محفوظ تھیں سب کی سب ان  تنبیہات کے ساتھ تازہ ہو جایا کرتی تھیں۔ میں شدید پریشانی اور اضطراب کا شکار ہوجاتی مگر پھر بھی یہی سوچتی کہ آخر ہم ایسا کیوں کریں؟

ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، تیسواں حصہ

نہ وہ بحث و مباحثہ والا آدمی تھا نہ ہی اس کے پاس ان تمام کاموں میں پھنسنے کا وقت تھا۔ یہ تمام حواشی کی گفتگو پورے ڈیڑھ سال یعنی جب تک ہم ملتان میں رہے ، چلتی رہی اور مختلف اوقات میں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی رہی

ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، انتییسواں حصہ

اب مجھے خانہ فرہنگ کے شور شرابے اور وقت بے وقت کی ملاقاتوں کی عادت ہو گئی تھی ۔ علی کے لئے گھر اور کام میں کوئی فرق پہلے ہی نہ تھا مگر اس کا احساس اب مجھے اور زیادہ ہونے لگا تھا۔

ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، اٹھائیسواں حصہ

شب ہائے قدر میں ایرانی قاریوں کا گروہ ایران سے پاکستان آیا اور خانہ فرہنگ ملتان کا مہمان ہوا پاکستان کے مختلف شہروں میں ان کے پروگرامز تھے چند دن وہ ملتان میں رہے ۔ جب کبھی مہمان آتے تو علی بازار کے کھانوں کی مخالفت کیا کرتا تھا مجھے ہی مہمانوں کے لئے کھانا بنانا پڑتا تھا۔

عراقی قیدی اور مسلط شدہ جنگ کے راز: ۱۶

میں ایک محتاط سپاہی ہوں۔ بعث کی فوج نے جنگ کے آغاز سے ہی مجھے جبری طور پر بھرتی کیا۔ اس فوج کا کمانڈر کرنل ہشام فخری تھا۔ وہ بہت ہی ظالم اور جابر انسان تھا۔

عراقی قیدی اور مسلط شدہ جنگ کے راز: ۱۵

اس منصوبے کے مطابق اچھی قد وقامت کے سپاہیوں کا ایک گروپ تمام ساز و سامان کے ساتھ تیار کیا گیا اور انہیں حکم دیا گیا کہ وہ جارحانہ اور جنگی انداز میں حرکت کریں

عراقی قیدی اور مسلط شدہ جنگ کے راز: ۱۴

میں کبھی نہیں چاہتا کہ صدام کا موازنہ ہٹلر، ڈوس یا شاہ سے کیا جائے۔ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ان آمروں (ڈکٹیٹروں) کی پوری شرمناک زندگی میں تھوڑی سی چھان بین سے شاید کوئی روشن نکتہ مل جائے، چاہے وہ بہت ہی چھوٹا کیوں نہ ہو

عراقی قیدی اور مسلط شدہ کے راز-12

اس جنگ کا آغاز خبیث صدام نے ہی کیا ہے۔ اس جنگ کے اہداف غیر معمولی ہیں جو اسلام دشمن طاقتوں نے طے کیے ہیں اور وہی اسلام کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں
5
...
 
کتاب"در کمین گل سرخ" سے اقتباس

شہید علی صیاد شیرازی کی داستان

اُن لوگوں کی ان کے برتاؤ کے مطابق طبقہ بندی کی تھی۔ پہلے اور دوسرے کمانڈر کے احساسات ہم آہنگ نظر آئے جس سے محسوس ہورہا تھا کہ ان کے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے دو افراد سے الگ الگ بات کرنی چاہئے تھی تاکہ نفسیاتی اعتبار سے کوئی تداخل پیدا نہ ہو۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔