پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 6

اورامانات میں پہلوی حکومت

مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-12-18


پہلو ی حکومت کے تسلط کے اوائل میں بہت سے شہر اور گاؤں ، مشکل گزر گاہ "صعب العبور" مانے جاتے تھے جن کا مرکزی حکومت سے کوئی رابطہ نہ ہوتا  تھا انہی میں سے ایک اورامانات بھی تھا مگر  چودھویں صدی ہجری کے آغاز میں رضا شاہ پہلوی کی حکومت آئی اور ایران میں اسکے آتے ہی  حکومتی  اتحادی گروہ بننا شروع ہوئے تو حکومت مخالف قومی و قبائلی نظام اور صوبوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں ان علاقوں قبائلوں میں قائم سرداری کا نظام بھی ختم ہو گیا۔ یا دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو اورامان کے سلطانوں کا دور اپنےاختتام کوپہنچا۔

 ان علاقوں قبائل، گاؤں سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات جن میں علاقے کےبیگ حضرات، علماء، مشائخ اور دینی شخصیات بھی شامل تھیں گرفتار کر لئے گئے یہ آپریشن۱ ۱۹۳ میں ہوا، جب ان حضرات کو گرفتار کر کے تہران بھیج دیا گیا جس کے بعداُن کا کوئی پرسان حال نہ تھا وہ سب کے سب و حشت زده زندانوں قید خانوں میں مختلف شہروں میں قید کر دئیے گئے ایسی قید جو سالوں پر محیط تھی ناکردہ جرم کی، نامعلوم سزاجس کی کوئی مدت مقرر نہ تھی جبکہ ان میں بعض کو گولیاں مار کر ختم کر دیا گیا تھا۔

علاقے اور قبائل کی ممتاز اور اہم شخصیات کی گرفتاری کے بعد، ظالم پہلوی نظام کے ناپاک قدموں کے نشانات تمام گزرگاہوں، داخلی خارجی راستوں پراستوار ہو گئے اور آہستہ آہستہ، حکومتی خدمات کے نام پر ، فری تعلیمی پروجیکٹس صحت اور میڈیکل کی سہولیات اور سڑکوں کی تعمیر اور علاقے کی فلاح و بہبود اور ترقی کے نام پر کئے جانے والے نام نہاد کاموں کے پیچھے چھپے عزائم اور مقاصد ساکنان اور اہلیان علاقہ پر بھی واضح اور آشکار ہونا شروع ہو گئے مگر اب یہ نظام پہلے سے قوی تر اور مضبوط ہو چکا تھا لہذا کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا ۔

پاوہ کی مرکزیت کے ساتھ اورامانات  میں حکومت کی جانب سے سن۱۹۳۶ میں فری  اسکولوں کی بنیاد رکھی گئی ۔ مگر دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے، ملک میں  پیدا  ہونے والے مسائل کی وجہ سے یہ فری (مفت تعلیم دینے کا سلسلہ پانچ سال سے زیادہ نہ چل سکا اور ماہ ستمبر ۱۹۴۱ میں بالآخر شہنشاہی حکومت کا تختہ الٹ گیا اور اس کی بساط لپیٹ دی گئی اور علاقائی سردار اور حاکمین جنہوں نے بارہ سال حکومت کے ہاتھوں اپنے علاقوں کی  بربادی اور استحصال دیکھا‎ تھا دوبارہ لوٹ آئے اور انہوں نے دوبارہ اپنے علاقوں کی باگ ڈورسنبھال لی۔

 مرکزی حکومت جو تقریباً ۱۹۵۵ تک علاقہ میں موجود نہ تھی ا  پنی تمام تر طاقت کو بروئے کار لاکر ، تمام علاقوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہوئی ۔

پاوہ میں ادارہ تہذیب و تمدن (فرنگ) بھی تاسیس(قائم) کیا گیا اور پاوہ  میں چند اسکول بنانے کے بعد، دیگر بڑے گاؤں اور علاقوں جیسے باینگان 1 نود شہ 2 اور نوسود میں بھی بتدریج اسکول قائم کئے گئے جنہوں نے مفت تعلیم کے اعلان کے ذریعے ارد گرد کے دیگر علاقوں کے لوگوں کو بھی حصول علم کی دعوت دی اور اس کام کا دائرہ وسیع کر دیا۔

 

 


1:  شہر پاوہ کے اطراف میں سرحدی علاقہ جو شہر سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر جنوبمیں واقع ہے۔

2: شہر پاوہ کے شمال مغرب میں ۳۸ اڑتیس کلومیٹر کے فاصلے پر بڑا گاؤں ہے سرحد سے لگا ہوا جواب شہر میں تبدیل ہو چکا ہے۔



 
صارفین کی تعداد: 972


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔