تمہاری ماں کو تمہارے غم میں بٹھاؤں گا

ترجمہ: محب رضا

2024-1-20


آذرشہر میں اپنی گرفتاری کے حوالے سے ساواک کو ضمانت دیئے، تین چار مہینے گزر چکے تھے۔ یہ شھریور ۱۳۴۲ کے مہینے کا آخر تھا اور ۱۵ خرداد کا سانحہ بھی گزر چکا تھا، کہ جب ساواک نے مجھے دوبارہ بلایا۔ جنرل مہرداد مجھے دیکھ کر غضبناک ہو گیا اور مجھے دیکھتے ہی چیخنے چلانے لگا!  میں تفتیش شروع ہونے تک بالکل خاموش رہا، مگر مجھے بہت اذیت دی گئی۔ دو دن کے بعد، انہوں نے مجھے وہاں سے رضاپاد بیرک، جو مراغہ شہر میں تھی، بھیج دیا، جہاں مجھے فوجی قیدیوں کے ساتھ ایک کوٹھری میں قید کر دیا گیا۔ رضاپاد بیرک خود ایک شہر تھا، حتیٰ یہاں پر ایک ہیلی پیڈ تک موجود تھا۔ بیرک کے احاطے میں ایک عمارت تھی، جس میں کئی کمرے تھے، ہر کمرے میں تین یا چار، زیرحراست افراد کو قید کیا جاتا تھا۔ میں قید تنہائی والے حصے میں تھا اور اس حصے کا واحد قیدی تھا۔ میرا سیل پیچھے کی طرف تھا اور میں سنتریوں کی نظروں کے سامنے نہیں تھا۔ انہوں نے مجھے دو دن تک کچھ کھانا یا پانی نہیں دیا، میں چونکہ پہلے کبھی جیل میں قید نہیں ہوا تھا اور جیل کے قوانین سے ناواقف تھا، اس لیے کچھ نہیں بولا۔ مہرداد کے الفاظ ہر وقت میرے کانوں میں گونجتے رہتے تھے کہ؛ اناوی ملر ۔۔۔! میں اپنے آپ سے کہتا تھا کہ یہ تو ابھی شاہنامہ کی ابتدا ہے!

جنرل مہرداد مجھے دیکھتے ہی آپے سے باہر ہوگیا اور مجھے گالیاں دینے لگا!

 

اب بھی میرے کانوں میں جنرل مہرداد کی آواز گونجتی ہے جو اس نے مجھے گالیاں دی تھیں

دو دن کے بعد، جب میں نے افسر کو پانی اور وضو کے لیے کوٹھری کا دروازہ کھولنے کو کہا تو اس نے دیکھا کہ میں حالت مرگ میں ہوں۔ اس نے پوچھا:

"کیا تم بیمار ہو؟"

"نہیں!"

"پھر تمہاری حالت ایسی کیوں ہے؟!”

میں نے اسے بتایا کہ میں نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا۔ وہ افسر غصے میں بڑبڑاتا ہوا چلا گیا کہ "اگر مرغی کو بھی ذبح کرنے کے لیے رکھیں تو دانہ پانی دیتے ہیں" وغیرہ وغیرہ۔ آخر کار، کیونکہ کھانے کا وقت گزر چکا تھا، چند قیدی اہلکاروں نے مجھے اپنے کھانے میں سے کچھ حصہ دیا، جسے میں نے کھایا اور میری حالت کچھ سنبھلی۔ اگلی صبح تک میری غذا یہی تھی کیونکہ انہوں نے مجھے رات کو بھی کھانے کو کچھ نہیں دیا۔

وہ اگلی صبح آئے اور مجھے سیل سے باہر لے گئے۔ میں تھا اور ایک نامعلوم منزل، جو شاید پھانسی کے پھندے یا ڈیتھ اسکواڈ کے سامنے سینے پر گولیاں کھانے پر ختم ہوتی۔ ایک افسر ہاتھ میں ریوالور پکڑے میرے آگے تھا، ایک سپاہی دائیں طرف، ایک بائیں طرف اور ایک سپاہی میرے پیچھے تھا، اور ان تینوں نے اپنی بندوقیں میری طرف تانی ہوئی تھیں۔ ایک بے بس آدمی، جس کی طرف چار بندوقوں کی نالیاں تھیں! اسی حال میں وہ مجھے ہتھکڑیاں لگا کر بیرک کے اندر موجود فوجی عدالت میں لے گئے۔ جج نے، جو کرنل محمد حسن ابراہیمی تھا، مجھے اس طرح آتے دیکھا اور ان سے پوچھا اس ملزم کو اس قدر اہمیت کیوں دے رہے ہو؟! میرا الزام سیاسی جرم تھا، اس زمانے میں جب سیاسی مجرم کم ہوتے تھے، اور انہوں نے فوجی عدالت میں، میرا مقدمہ چلایا۔ میرے کیس میں وہی سال ۱۳۴۱ کے ریاستی اور صوبائی کمیٹیوں کے انتخابات میں لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا مسئلہ، حنیف نژاد اور آذرشہر کے گرہوں کا مسئلہ اور تیسمار کے دفتر کے اعلانات وغیرہ شامل تھے، اور یہ سب میرے اس سیاسی مقدمے میں جمع ہو گئے تھے۔

جیسے ہی ہم فوجی عدالت کے کمرے میں داخل ہوئے، مجھے لانے والے افسر نے سیلوٹ مارا اور ہم پانچوں لائن میں کھڑے ہو گئے: میں، تین سپاہی اور ایک افسر۔ کرنل ابراہیمی، جس نے میری آمد کا منظر اور ہتھکڑیاں دیکھیں تھیں، اس افسر کی خوب خبر لی:

تم لوگوں سے اپنا مذاق کیوں اڑواتے ہو؟ یہ شخص بیرک کے اندر سے کہاں فرار ہو سکتا ہے؟ مگر یہ کون ہے؟

اس نے افسر کی خوب بے عزتی کی۔ حکم دیا کہ میری ہتھکڑیاں کھول دیں اور ان چاروں کو کمرے سے باہر نکال دیا۔ افسر نے، جو سیلوٹ کی حالت میں اپنا دایاں ہاتھ کانوں تک اٹھائے ہوئے تھا، جج کی جانب سے آخری طنزیہ تبصرہ وصول کیا:

اپنے ہاتھ چھوڑو۔ مجھے ان لوگوں کے سامنے تماشا مت بناؤ، آؤ بیٹھو!

کرنل نے مجھے کرسی پر بٹھا کر پوچھا۔

بیٹا تمہیں یہاں لے کر کیوں آئے ہیں؟!

اور میرا جواب صرف ایک لفظ تھا: مجھے نہیں معلوم!

 اس نے اپنی میز پر پڑی گھنٹی بجائی اور میری فائل منگوائی۔ وہ ایک بڑا مہر بند لفافہ لے کر آئے۔ اور میں اتنی بڑی فائل دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کیا یہ تمام میرا ہی کیس ہے؟! اس نے فائل پڑھنا شروع کی اور جب میری افسردہ حالت دیکھی تو پوچھا:

"تم کیوں پریشان ہو؟"

میں نے کہا:

"ایک ہفتہ ہو گیا ہے کہ انہوں نے مجھے، میرے گھر والوں کے علم میں لائے بغیر گرفتار کیا ہوا ہے، اور چار دن سے میں یہاں ہوں۔ وہ لازماً میرے لیے فکر مند ہوں گے۔ انہوں نے دو تین دن سے مجھے بھوکا بھی  رکھا ہوا ہے!"

اس نے حیرت سے پوچھا:

"یعنی انہوں نے تمہیں کھانے کو کچھ نہیں دیا؟!"

’’نہیں کرنل صاحب! صرف چند معزز فوجی اہلکاروں نے، جو گرفتار ہوئے ہوئے ہیں، کل اپنی غذا کا کچھ حصہ مجھے دیا تھا، اسکے علاوہ کچھ نہیں۔"

"اچھا! تو تم انہیں کہہ دیتے کہ تمہارے لیے کھانا لے آئیں!"

 سچ پوچھیں تو یہ کہنا باعث شرمندگی تھا اور کیونکہ میں پچھلے حصے میں قید تھا اس لیے  کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ البتہ انہیں اپنے قیدی کا خیال خود رکھنا چاہیے تھا!

مختصراً، اس نے حکم دیا کہ ایک بڑی ٹرے میں مکمل ناشتہ لایا جائے: چائے، دودھ، شہد، مکھن، کریم، پنیر اور روٹی۔ انہوں نے اسے لاکر میز پر رکھ دیا، کرنل نے کہا:

"چلو بیٹھو، یہ سب کھاوَ!"

"جناب! میری بھوک اتنی اہم نہیں ہے، میرے گھر والے بہت پریشان ہوں گے!"

"مشکل نہیں، انہیں بھی آگاہ کر دیں گے۔ فی الحال تم کھاؤ!"

میں نے ایک گلاس دودھ پیا اور روٹی کے چند لقمے، مکھن، شہد اور پنیر کے ساتھ کھائے۔

کرنل ابراہیمی نے مجھ سے کچھ دیر بات کی اور چند سوالات، اور نصیحتیں کرنے کے بعد فائل پر اپنے کمنٹس لکھ کر مجھے کرنل عارفی کے حوالے کر دیا جو ایئر فورس کا کرنل تھا اور بہت بد زبان تھا۔ جیسے ہی وہ مجھے اپنے کمرے میں لے کر آیا، میری طرف دیکھے بغیر، مجھے برابھلا کہنا اور کوسنا  شروع کر دیا۔ چونکہ میں جوان تھا لہذاٰ میں نے کوشش کی جتنا ممکن ہو سکے اسکی بدتمیزی کی جانب توجہ نہ کروں۔

انکے حوالے کردوں گا ایسی تیسی کردیں گے تمہاری!

میں کچھ بھی نہیں بولا۔ اسکا ہر طعنہ، زہر آلود تیر کی طرح میرے دل پر لگ رہا تھا اور میرے جوانی کے جذبات کو للکار رہا تھا لیکن میں نے اپنے پاکیزہ مقصد کا تصور کیا اور آیت اللہ خمینی سے اپنی ملاقات کا منظر اور وہ عطر کی شیشی اور آیت اللہ قاضی میری آنکھوں کے سامنے آ گئے اور میں نے صرف صبر کا دامن تھامے رکھا۔ غصہ میری ناک پر دھرا تھا لیکن میں نے اپنے آپ پر قابو پائے رکھا اور کوشش کی کہ کچھ اظہار نہ ہونے دوں۔ میں نے صرف اتنا ہی کہا تھا:

"کرنل صاحب! تم جو مرضی کہو، میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے، لیکن وہ مجھے میرے گھر والوں کی لاعلمی میں لائے ہیں۔"

کہ کرنل کی چیخ و پکار پھر شروع ہو گئی:

بکواس بند کرو! اول فول بکے جارہے ہو!!

اس کے اچھے الفاظ صرف یہ دو کلمے تھے، باقی سب کچھ فحش اور ناسزا!

مختصر یہ کہ انہوں نے مجھے گاڑی میں بٹھایا، میں نے سوچا کہ وہ مجھے تبریز لیجا رہے ہیں، لیکن میری منزل مراغہ ڈسٹرکٹ جیل تھی۔

 

منبع: نعلبندی، مهدی، اعدامم کنید (خاطرات محمدحسن عبدیزدانی)، تهران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1388، ص 87 - 91.

 

 



 
صارفین کی تعداد: 354


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔