ورکشاپ

زبانی تاریخ سے آشنائی 1

ترجمہ: محب رضا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2024-2-4


تعارف

غیر مکتوب تاریخ [زبانی تاریخ]کی ویب سائٹ ارادہ رکھتی ہے کہ زبانی تاریخ کی چند ورکشاپس میں بیان کئے گئے علمی نکات کو تحریری شکل میں اپنے استعمال کنندگان کے اختیار میں قرار دے۔ موجودہ علمی مجموعہ انہی ورکشاپس میں سے ایک ورکشاپ کے مواد پر ترتیب دیا گیا ہے۔ جیسا کہ آپ ملاحظہ کریں گے، پیش کیے گئے بہت سے مطالب، پرانے یا غیر مستعمل نہیں ہیں، البتہ کوشش کی گئی ہے کہ مطالب کو منظم انداز میں پیش کیاجائے تاکہ ان سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔

 اس  آموزشی مجموعے کے چار حصے ہیں، عمومی مفاہیم، انٹرویو، کتاب کی تدوین اور طباعت۔ عمومی حصے میں مفاہیم اور اصطلاحات کی تعریفیں  پیش کی گئی ہیں ، اسی طرح  غیر مکتوب تاریخ کے قوانین، ضوابط، لوازم اور تقاضے بھی اسی حصے میں  زیر بحث آئے  ہیں۔

جیسا کہ غیر مکتوب تاریخ میں خام مواد کو جمع کرنےکا بنیادی ذریعہ انٹرویو ہے،اس لیے مجموعہ کے دوسرے حصے کو اسی موضوع  سے مختص کیا گیا ہے۔  ہے۔ اس حصے میں وہ ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں جو انٹرویو لینے سے پہلے، انٹرویو کے  دوران اوراسکے   بعد، انٹرویو لینے والے  پر عائد ہوتی ہیں   تاکہ اچھے انٹرویو کی خصوصیات اور تقاضوں کا تعین کیا جا سکے۔

انٹرویو کے اختتام پر، خام متن  آمادہ ہوتا ہے، لیکن اس متن کی نوک پلک سنوار کر اسے مدون  کیا جاتا ہے۔ تیسرے حصے میں تدوین کے مرحلے کو زیر بحث لایا گیا ہے۔تدوین کیا ہوتی ہے اور اس مرحلے پر کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں، اسی طرح تدوین کے مختلف نمونے، غیر مکتوب تاریخ کا یادداشت نویسی  سے  تفاوت اور اسی قسم کے دیگر موضوعات  اسی حصے  میں بیان کیے گئے ہیں۔

 آخری مرحلہ متن کی طباعت اور اشاعت ہے۔ اس حصے میں، ہم کتاب کی تشکیل کے بارے میں بات کریں گے۔ اس کے علاوہ   کتاب کے نام کے انتخاب کا طریقہ، سرورق کا ڈیزائن ، کتاب کا مقدمہ ، ضمیمہ جات، اشاعت کیسے کی جائے   وغیرہ  ،جیسے موضوعات بھی بیان ہوں گے۔

عمومی مفاہیم

یہ حصہ،  موجودہ بحث کے اہم ترین حصوں میں سے ایک ہے۔ اس حصے میں الفاظ اور اصطلاحات کی تعریفیں کی گئی ہیں۔

آجکل، تاریخ کی تعریف "سماجی تجربات" کے طور پر کی جاتی ہے، جبکہ کچھ افراد اسے "سماجی تجربات کی داستان" کے طور پر بھی بیان کرتے ہیں۔ لیکن جب ہم غیر مکتوب تاریخ کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو یہ تعریف "انفرادی تجربات" میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ کو "مستند" ہونا چاہیے۔علمی  ابحاث میں غیر مکتوب تاریخ کے لیے کی مختلف تعریفیں بیان کی گئی ہیں ، لیکن  وہ چیز جو اس مجموعہ کی بحث کی اولین بنیاد ہے، وہ  یہ ہے کہ غیر مکتوب تاریخ، سب سے پہلے "تاریخ" ہے، پس اسے مستند ہونا چاہیے،اور پھر  یہ "زبانی یا غیر مکتوب" ہے، یعنی اسکی ابتدا اور خام مواد  زبانی گفتگو  ہے۔ لہٰذا اگر زبانی  گفتگو کی بنیاد پر کوئی تاریخ لکھی جائے تو اسے زبانی تاریخ یا غیر مکتوب تاریخ  کہا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر جنگ  کے زمانے میں وائرلیس پر ہونے والی بات چیت کی ریکارڈنگ، دشمن کی باتوں  کی ریکارڈنگ،افراد کی آپس میں گفتگو،جنگ کے زمانے کی آڈیوز اور ویڈیوز کو غیر مکتوب کہا جا سکتا ہے۔غیر مکتوب تاریخ ، وہ  تاریخ ہے جس کا اظہارغیر مکتوب ہے، اور اس غیر مکتوب کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جو راوی کی زبان سے بیان ہوتا ہے۔اور چونکہ یہ عمل، انٹرویو کے ذریعے انجام پاتاہے، اس لیے غیر مکتوب تاریخ میں انٹرویو کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

یادداشتیں جمع کرنے کا بہترین طریقہ انٹرویو ہے۔ لیکن لازم نہیں کہ انٹرویو کے دوران راوی کی تمام باتیں  غیر مکتوب تاریخ  کے حوالے سے مناسب ہوں ۔ یہ جانچنے کے لیے کہ انٹرویو کے کون سے حصے غیر مکتوب تاریخ کے لیے موزوں ہیں، ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جب ہم کسی کا انٹرویو کرتے ہیں تو وہ کیا کچھ بیان کرتا ہے؟ لوگوں کی گفتگو کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر شخص اپنے بیان میں تین چیزوں کا اظہار کرتا ہے: یادداشت، تجزیہ یا معلومات.

معلومات وہ چیزیں ہیں جو ہم پہلے سے جانتے ہیں اور  یہ ہمارے علم میں مزید کوئی اضافہ نہیں کرتیں۔ مثال کے طور پر 22 بہمن 5713  کو اسلامی انقلاب کامیاب ہوایا 31 شہریور 59 13کو جنگ شروع ہوئی۔ یہ معلومات دوسرے ذرائع سے بھی  دستیاب ہوتی ہیں اور انٹرویو لینے والے کو راوی سے  یہ معلومات درکار نہیں ہوتیں ۔معلومات، غیر مکتوب تاریخ کی فالتو ترین چیز ہے۔ انٹرویو کی ایک مشکل  یہی ہے کہ راوی اپنی معلومات کا اظہار کرنا پسند کرتا ہے، جبکہ  یہ معلومات غیر مکتوب تاریخ کے کسی کام  کی نہیں ہوتیں ۔

انٹرویو کے دوران راوی کی جانب سےجس دوسری چیزکا اظہار کیا جاتا ہے، وہ تجزیہ ہے۔ مثلاً جو واقعات پیش آئے، راوی ان کےبارے میں اپنا تجزیہ پیش کرتا ہے۔  بعض اوقات ، چند شرائط  کی رعایت کے ساتھ ، تجزیہ غیر مکتوب تاریخ کا حصہ ہے، جبکہ کچھ جگہوں پر یہ مناسب نہیں ہوتا۔

تیسری چیز جس کا اظہار راوی کی گفتگو میں ہوتا ہے، وہ یادداشتیں ہیں۔ غیر مکتوب تاریخ کے لیے، یادداشتوں کا بیان مکمل طور پر قابل قبول ہے۔ انٹرویو لینے والا اس مقصد کے لیے جتنی ذہانت استعمال کرے   اور راوی کی یادداشت بہتر انداز میں حاصل کر پائے ، کام اتنا ہی کامل ہوگا اور بہترنتیجہ حاصل ہو پائے گا۔

جبکہ صورتحال یہ ہے کہ جب افراد انٹرویو دیتے ہیں توزیادہ تر، معلومات بیان کرتے ہیں، اسکے بعد تحلیل اور سب کم اپنی یادداشتیں؛ یہی وجہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ایک گھنٹے کے انٹرویو میں، غیر مکتوب تاریخ کے حوالے سے  صرف دس منٹ  کام کے ہوں ۔ انٹرویو لینے والے کا فن یہاں پر ظاہر ہوتا ہے کہ انٹرویو کیسے لیا جائے اور کون سے سوالات پوچھے جائیں کہ دوسرا فریق اپنی یادوں کو بیان کرے ،نہ کہ اپنی معلومات اور تجزیوں کو۔ ایک اہم نکتہ یہ  ہے کہ یادداشت، غیر مکتوب تاریخ سے مختلف ہے، تاہم اگرچہ غیر مکتوب تاریخ میں یادداشتوں سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس بحث کی وضاحت آنے والے حصوں میں کی جائے گی۔

oral-history.ir



 
صارفین کی تعداد: 324


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔