پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 12

طالب علمی کے دور کا آغاز اوراس کی مشکلات:

مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2024-2-9


میری ماں ہمیشہ مجھے بس یہی کہتی "جاؤ ملا بنو"، اور میں خاموش رہتا یہ خاموشی رضامندی ہی تھی مگر میں یہ نہیں جانتا تھا کہ ان کو کیا جواب دوں لہذا بس خاموش ہی رہتا جب ان کا اصرار بڑھا تو میں نے کہا "آپ ہی بتا دیں میں کیاکروں"؟ انہوں نے  فوراً کہا "چلو ہم ملا مصطفی یا خلیفہ محمد سعید کے پاس  چلتے ہیں اور ان سے اس سلسلے میں مشورہ لیتے ہیں ۔

مرحوم خلیفہ محمد سعید کچھ پڑھے لکھے تھے اور دینی معلومات بھی رکھتے تھے اور قادری طریقت کی روش کے پیرو کار ہونے  کے ساتھ  ساتھ  ایک نیک اور صالح شخص بھی تھے۔ نوریاب گاؤں میں نے پنجگانہ نمازوں کی امامت کے فرائض زیادہ تر خلیفہ محمد سعید صاحب ہی انجام دیتے تھے جبکہ مرحوم ملا مسطفیٰ بھی ہمارے گاؤں کے ایک  خاموش طبع اور کم گو  مولا نا تھے. میری والدہ ماجدہ مجھے ان کے گھر لے گئیں ، وہ میری والدہ کا بہت احترام کرتے تھےہمارے جانے پر انہوں نے ہمارا خوش دلی سے استقبال کیا اور  مہمان نوازی کی۔ میری والدہ  نے آنے کا  مقصد بتاتے  ہوئے ان سے کہا "مولا نا صاحب میرا بیٹا قادر بھی چاہتا ہے دینی تعلیم حاصل کرکے  مولانا بن جائے" آپ اس بارے میں کتاب سے دیکھ کر بتا دیں کہ کیا ایسا کرنا اچھا اور درست ہے یا بداور برا؟ اس زمانے میں  استخارے کیلئے " کتاب سے دیکھ کر بتادیں" کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔ لہذا میری والدہ  نے بھی یہی کہا کہ کتاب سے دیکھ کر بتا دیں کیونکہ استخاره بعض اوقات قرآن کریم سے دیکھا جاتا تھا یا بعض دفعہ  معروف دعاؤں کی کتابوں کے ذریعے سے دیکھ کر  بتایا جاتا تھا کہ کام نیک ہے یا بد... گویا میری والدہ بھی  یہی چاہتیں تھیں کہ معلوم کر یں ان کے اس ارادے کے بارے میں اللہ کی رضا کیا ہے؟

 مولانا مصطفیٰ نے آداب استخاره بجالانے کے بعد اپنی کتاب کو کھولا اور زیر لب کچھ جملات کہتے ہوئے مسکرائے پھر ہماری جانب مسکراتے ہوئے متوجہ ہوئے اور کہنے لگے" ان شاء الله خوب (بہت اچھا ہے)"۔ اس جواب کے بعد مولانا نے جب میری والدہ اور میرے چہرے پر خوشی کے  کے آثار دیکھے تو کہنے لگے"بہن سلمٰی (میری والدہ) آج پیر کا دن ہے اور آج کا آدھا دن تو گزرہی چکا ہے۔ کل منگل کا دن ہے جس دن  طلباء کی چھٹی ہوتی ہے۔ پس آپ کا بیٹا تھوڑا صبر کرنے اور جمعرات کے دن، درس لینے آجائے جو مبارک دن بھی ہے"بارک الله فی السبت والخمیس"یعنی اللہ نے ہفتے اور جمعرات کے دن کئے جانے والے سفر کو مبارک قرار دیا ہے۔ قادر ان شاء الله  جمعرات کے دن دشہ، ملا عمر صاحب کے پاس جائے وہ ایک بہترین استاد ہیں ، ان سے جاکر ملے  اور تحصیل علم کا  آغاز کرے۔

میرے سر کے بال کافی لمبے تھے جو کہ میرے کاندھوں تک آتے تھے ۔ والدہ صاحبہ کے کہنے پر میں نے سر پر استرا پھر وا لیا اور گنجا ہو گیا مگر جمعرات کا انتظار نہ کیا اور دوسرے دن ہی صبح ، کے وقت مدرسے کے لئے تیار ہو کر گھر سے نکل پڑا۔ میرا حلیہ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا تھا لہذا اگر کسی نے مجھے ایک دن پہلے دیکھا بھی ہوتا تو بالکل نہ پہچان سکتا تھا کیو نکہ میری ظاہری شکل و صورت اور حلیہ بالکل بدل چکا تھا میں وہ کل والا قادر نہ دکھتا تھا۔ میں آج سیاہ عمامہ سر پر باند ھے ، کاندھوں پر شال ڈالے ، قرآن کو سینے سے لگا کر اپنی ماں کے بوسے اور دعاؤں کے سائے میں نور یاب گاؤں سے دشہ تک کا سفر طے کر کےتعلیم حاصل کرنے دشہ گاؤں پہنچ چکا تھا۔

میں ایک گھنٹہ پیدل مسافت طے کرکے درمیانی راستے سے دشہ گاؤں پہنچا اور فوراً ملا عمر ولدبیگی صاحب کا پوچھ کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا وہ گاؤں کی مسجد میں تھے اور اسی مسجد میں درس دیا کرتے تھے۔ میرے سلام و احوال و پرسی کے بعد گفتگو ہی سے وہ میرے دینی معارف و درس دینی کو حاصل کرنے کے شوق، لگن اور ولولے سے آگاہ ہوگئے۔ وہ بہت خوش ہو ئے اور نہایت خندہ پیشانی سے میرا استقبال کیا اور بولے "تم میرے ہی گاؤں کے ہو لہذا آج اور ابھی سے ہی درس کا آغاز کرتے ہیں"۔

 ملا عمر صاحب بھی نور یاب گاؤں کے تھے، انہوں نے اپنی رہائش گاہ دشہ گاوں منتقل کرلی تھی  تھی گویا ہجرت کر کے دشہ آن بسے تھے اور اسکے بعد"دشہ کے ملا" ہی مشہور ہو گئے تھے ۔ میرا اس طرح دشہ گاوں  میں آنا، اور علوم دینی کے اس چشمے تک پہنچنا، مجھے لا متناہی سفر تک لے آیا تھا۔ ایک ایسا راستہ جس پر چلنا میرے لئے پر لطف  تھا  ایک ایسا چشمہ علم جس کو جتنا پیتا، تشنہ تر محسوس کرتا اور سیراب نہ ہوتا تھا جسکا ذائقہ نا قابل بیان تھا۔

 علم کے اس دریائے بے کراں میں ملا عمر صاحب کا مہربان وجود اور حوصلہ افزاء انداز، وہ سہارا اور وسیلہ تھا جسکی مدد سے میں گہرائیوں میں اترتا چلا گیا، وہ ایک متقی شخص تھے ۔ جنہوں نے میرے علاوہ دوسرے چار طلباء کی بھی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی تھی۔

طالب علموں کو شروع کے چند سالوں میں "سوختہ" کہا جاتا تھا، شاید اسکا مطلب یہ تھا کہ اس طالب علمی کے شروع کے چند سالوں میں  طالب علم اتنی ریاضت کریں، سختیاں جھیلیں اپنے گھر اور گھر والوں سے دور، آسائشوں اور آرام کو چھوڑ کر اپنی ذات کی ایسی تربیت کریں کہ یہ خام اور ناپختہ نفس ان سختیوں اور آزمائشوں کی تپش میں پک کر پختہ، مضبوط، غیر متزلزل ،مستحکم انسان کی صورت میں سامنے آئے۔ یہی وجہ تھی کہ تمام طلباء نہ صرف اپنا کام خود کرتے تھے بلکہ کمرے کی صفائی پانی بھرنا ، غذا اور کھانے کا انتظام وغیرہ بھی انہیں  خود ہی کرنا ہوتا تھا ، یہاں موجود طالب علم اورامانات کے مختلف علاقوں سے دشہ گاؤں آئے تھے اور دینی معارف کو حاصل کرنے کی اس لگن کی خاطر مسجد کے ایک گوشے میں بنے تنگ وتاریک کمرے میں مقیم تھے۔

میرا پہلا سال تھا لہذا میں ابتدائی مرحلے پر پڑھائی جانے والی کتابوں کو پڑھ رہا تھا مگر باقی چار طلباء بھی الگ الگ، مرحلوں میں تھے اور  ان میں  سے ہر ایک اپنی صلاحیت کے مطابق استاد سے انفرادی طور پر درس لیتا اور آگے بڑھتا جا رہا تھا۔

مارچ ۱۹۶۵ میں، میں نے اس تعلیم کا آغاز کیا تھا۔ ملا عمر صاحب نے مجھے ایک ساتھ تین کتابیں پڑھانا شروع کیں جن میں ایک قرآن مجید تھا، دوسری کتاب عوامل جرجانی اور تیسرا درس ،کتاب احمدی سے دیتے تھے جو کہ کردی زبان میں لغات عربی کا ترجمہ ہے۔ جناب ملا عمر صاحب ذاتی طور پر (خود) مجھے درس دیتے اسی طرح شوق و لگن کے ساتھاور ملا عمر صاحب کے شفیق سائے میں ایک سال گزر گیا۔


 



 
صارفین کی تعداد: 281


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔