واعظ نے جب خود کو اس حالت میں پایا تو بلند آواز میں کہا: "اے مسلمانو! جو دور و نزدیک سے اس مقدس شہر میں آئے ہو، جب اپنے شہر واپس جاؤ تو لوگوں کو بتانا کہ اب ہمیں امام جعفر صادقؑ کے مذہب کے سربراہ کی مصیبت بیان کرنے کی بھی اجازت نہیں!"
ایک ماہ کے دوران، جب یہ پل کارون پر موجود تھا، روزانہ عراقی طیارے بمباری کے لیے آتے اور اسے تباہ کرنے کی کوشش کرتے؛ اس بات سے بے خبر کہ ہم صرف رات کو پل استعمال کرتے تھے۔ جب دن نکلتا، ہم پل کو بکسل کیبل سے اپنے کنارے کھینچ لیتے اور کارون کے گھنے نباتاتی پردے میں چھپا دیتے۔ اس طرح، پورے آپریشن کے دوران، عراقی پل کو نقصان نہ پہنچا سکے۔
میں (اکبر براتی) بھی اپنی پہلی سرکاری سرگرمی کے طور پر مرکزی کمیٹی کے بازرسی شعبے کا رکن تھا۔ کچھ افراد کو تہران میں کام سونپا گیا، کچھ کو دیگر صوبوں میں بھیجا گیا تاکہ وہاں کمیٹیوں کی تشکیل میں مدد کریں۔ کچھ افراد کو مرکزی کمیٹی میں ہی ذمہ داریاں دی گئیں
جنگ، اب صرف دستی بموں کی جنگ بن چکی تھی۔ وہ پھینکتے، ہم پھینکتے۔ صبح کے وقت، گولہ باری اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے عراقیوں نے قسم کھا لی ہو کہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہے، ہم پر اور اس پہاڑی پر نچھاور کر دیں گے۔
اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح وہ بھی طھران کا پتہ پوچھ رہا تھا۔ جیسے ہی ہماری نظریں ادھر ہوئیں اس نے اندھیرے میں دوڑنا شروع کردیا اور علی دنیا دیدہ کا برسٹ اسکا پیچھا کرنے لگا۔
دوستوں نے تجویز دی کہ مسجد کے ہال کے مردانہ حصے سے خواتین کی طرف جاکر اپنا عبا عمامہ وغیرہ اتاروں اور کوٹ پینٹ پہن کر باہر نکل جاؤں اور وہ مجھے خواتین والے حصے سے ہی باہر نکالنا چاہ رہے تھے تاکہ مجھے گرفتار نہ کیا جاسکے۔
میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا چکا تھا۔ پل کے گوشے سے میں نے ایک اور ساتھی کو دیکھا جو زخمی ہوچکا تھا۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ پل ناکارہ ہوچکا ہے اور پانی کا بہاؤ ہمیں دشمن کی جانب لے جارہا ہے۔
گلی کے کونے سے آوازیں آرہی تھیں۔ یہ گلی شیرازیوں کی گلی مشہور تھی۔ میں نے صبح روٹیاں بنائی تھیں۔ انہوں نے اپنی کمر میں وہ روٹیاں باندھیں۔ میں نے کہا مت جائیں۔ کہنے لگے نہیں مجھے جانا ہوگا۔
قدس سیکنڈری اسکول کے صحن میں داخل ہوئی۔ اسکول کی پرنسپل اپنے دفتر کی کھڑکی کے شیشے سے مجھے گھور گھور کر دیکھ رہی تھیں۔ ایس الگ رہا تھا کہ میرے ہر قدم پر وہ زیر لب کوئی چیز مجھ پر نثار کررہی تھیں۔ میں دفتر میں داخل ہوئی۔ پرنسپل اور انکی اسسٹنٹ کوٹ اور دامن پہنے ہوئے کاندھوں پر بال پبیلائے ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی لائن میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں نے اپنا پوسٹر پرنسپل کے سامنے رکھا۔ انہوں نے اپنا سر اٹھائے بغیر مجھ سے کہا: " خالی کلاس نہیں ہے محترمہ، ساری
ہم وہاں سے پیدل چل کر مدرسہ فیضیہ پہنچے۔ امام خمینی رح مدرسہ میں داخل ہوئے۔ ہم بائیں ہاتھ کی طرف مڑ گئے۔ وہاں پہلے دوسرے حجرے کے پاس امام خمینی رح بیٹھ گئے۔ اسی طرح سارے طالبعلم بھی انکے اردگرد بیٹھ گئے، امام خمینی رح کے چہرے پر شدید غم کے آثار نمایاں تھے۔
مصطفی بھائی حکام کی جانب سے اس لبنانی وفد کے ساتھ اتنے سرد برتاؤ وہ بھی انقلاب کے اتنے حساس دنوں میں اتنی غفلت اور عدم توجہ پر بہت زیادہ غصے میں تھے۔ لیکن کسی نہ کسی طرح یہ وفد تہران اور امام خمینی رح سے ملاقات کے لئے بالآخر پہنچ ہی گیا اور یہی وہ سفر تھا جس میں ڈاکٹر مصطفی چمران ایران آئے تھے
بہرحال میں بیت المقدس آپریشن کے دوران جنوب چلا گیا لیکن میری تہران اور کرمانشاہ کے درمیان رفت و آمد مسلسل رہتی تھی۔ جس رات آپریشن شروع ہوا میں جنوب میں نہیں تھا، لیکن میرے ساتھی وہیں موجود تھے۔
واعظ نے جب خود کو اس حالت میں پایا تو بلند آواز میں کہا: "اے مسلمانو! جو دور و نزدیک سے اس مقدس شہر میں آئے ہو، جب اپنے شہر واپس جاؤ تو لوگوں کو بتانا کہ اب ہمیں امام جعفر صادقؑ کے مذہب کے سربراہ کی مصیبت بیان کرنے کی بھی اجازت نہیں!"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔