پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 39
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-4-26
تعلیمی استثناء!
سن 1968(1347) سے 1972(1351) تک ہر سال میرے تعلیمی استثناء کارڈ کی تجدید پاوہ میں ہوتی تھی۔ بعد میں مجھے اطلاع ملی کہ اعلیٰ سطح کے طالب علموں کو حوزۂ علمیہ سنندج جانا ہوگا اور امتحان میں کامیابی کے بعد ان کے استثناء کارڈ کی تجدید کی جائے گی۔ میں ہر سال سنندج جاتا تھا اور قریب دو ہفتے وہاں رکتا تھا اور زیادہ تر ملا محمد میرویسی، جو شمشیر گاؤں سے تھے اور انہوں نے سنندج کے سیروس روڈ پر گھر کرائے پر لے رکھا تھا، کے گھر رکتا تھا۔ میں نے اور انہوں نے کچھ عرصے تک ساتھ پڑھائی کی تھی، لیکن انہوں نے دینی طالب علمی چھوڑ دی تھی اور وہ کالج میں جدید علوم کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
چونکہ ہم سنندج کے باضابطہ طالب علم نہیں تھے لہٰذا ضروری تھا کہ ہر سال سنندج کے چار بزرگ علماء ہماری تعلیمی صورتحال کا جائزہ لے کر تعلیمی استثناء کارڈ کی تجدید کی اجازت دیں۔ میرے تشخیصی فارم پر جناب ماموستا ملا صدیق مجتہدی، جناب ماموستا ملا خالد مفتی اور جناب ماموستا ملا حسام الدین مجتہدی نے دستخط کردیے تھے اور ان کی تائید کے بعد فارم کے آخر میں ماموستا ملا مجید اصولی کے آخری دستخط ہونے تھے۔
ملا مجید، بہت بوڑھے اور ضعیف تھے اور بہت کم ہی اپنے گھر سے باہر آتے تھے۔ ان کا گھر ملاویسی مسجد کے سامنے سنندج کے ایک بدنام محلے کے پاس تھا۔ پہلوی حکومت نے بری خواتین کو وہاں جمع کردیا تھا اور اس محلے میں وہ جسم فروشی کرتی تھیں، وہاں جانے والے خاص لوگ ہی ہوتے تھے اور اگر میں ماموستا ملا مجید کے گھر جانا چاہتا تو مجھے بدنام خواتین کی گلیوں سے جانا پڑتا۔ میں جوان تھا اور اگر مولانا کے لباس میں کوئی مجھے اس محلے میں دیکھ لیتا تو تہمت لگانے کے لیے یہ کافی تھا۔ میں نے بہت سوچا مگر کوئی راستہ نہ نکلا۔ آخرکار خدا نے یہ مشکل حل کردی اور میں اپنے ایک پرانے دوست ملا طاہر گلینی صاحب کے ساتھ ماموستا ملا مجید کے گھر چلا گیا۔ انہوں نے فارم کو اچھی طرح دیکھ کر دستخط کردیے اور ایک بار پھر میرے تعلیمی استثناء کارڈ کی سن 1973(1352) تک تجدید ہوگئی۔
صارفین کی تعداد: 82








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
آپریشن ’’مطلع الفجر‘‘
راوی: مولاداد رشیدیدشمن اس علاقے کی عسکری اہمیت کو جانتا تھا اور ایک بڑی شکست جس کے نتیجے میں اسے سرپل ذہاب اور مغربی گیلان جیسے بڑے علاقے سے پیچھے ہٹنا پڑتا، سے بچنے کے لیے اس نے اپنی پوری طاقت لگادی تھی۔
"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

