پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 40
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-5-2
ماہ رمضان میں باجماعت نماز پڑھانا
ہم ایرانی طالب علم بعض اوقات اپنی آمدنی ماہ رمضان میں جمع کیا کرتے تھے۔ ہم ہر سال عراق کے کُردستان جاتے تھے اور رمضان المبارک کا پورا مہینہ لوگوں کو باجماعت نماز پڑھاتے تھے اور لوگوں کے لیے مختلف احکام بیان کرتے تھے۔ عید الفطر کی نماز کے بعد وہ لوگ ہمیں کچھ رقم دے دیتے تھے جو ہماری کتابیں، لباس اور آنے جانے کے اخراجات کا وظیفہ ہوتی تھی۔ جب میں کانی میران میں تھا تو میں خانقاہ گاؤں کے جناب ملا سید عبد القادر عزیزی اور ملا عزت احمدی دزآوری کے ساتھ عراق گیا۔ حلبجہ گاؤں میں ہم جناب شیخ احمد حسامی کی خدمت میں پہنچے اور ہم نے ان سے کہا: ’’ہم رمضان المبارک کے لیے لوگوں کو تیار کرنے کفری اور کلار کے علاقوں میں جانا چاہتے ہیں۔ اگر جناب عالی زحمت کریں اور اپنے مریدوں اور جاننے والوں سے ہمارے لیے سفارش کردیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘
جناب شیخ نے پہلے ملا عزت سے پوچھا: ’’آپ کہاں سے ہیں؟‘‘
انہوں نے بتایا: ’’جناب میں دزآور گاؤں سے ہوں اور میں صوفی احمد کا بیٹا ہوں۔‘‘
انہوں نے پوچھا: ’’اپنے صوفی احمد؟‘‘
پھر انہوں نے ملا سید عبد القادر سے پوچھا: ’’آپ کہاں سے ہیں؟‘‘
انہوں نے بتایا: ’’پاوہ کے خانقاہ گاؤں سے اور میں سید عزیز کا بیٹا ہوں۔‘‘
شیخ نے پوچھا: ’’ہمارے اپنے سید عزیز؟‘‘
اس کے بعد انہوں نے میری طرف دیکھا۔ میں نے کہا: ’’میں نوریاب گاؤں سے ہوں۔‘‘ اور میں نے مزید کچھ نہیں کہا۔ ان دونوں کے والد صوفی تھے اور انہیں جناب شیخ کی تائید حاصل تھی۔
انہوں نے اپنی سفارش کے ساتھ ملا عزت کو حاجی قادر کے ژالہ گاؤں، ملا سید قادر کو خالو محمد کے تُوہ قُوت گاؤں اور مجھے تُورکہ گاؤں بھیج دیا جہاں کے متولی، حاجی صالح نامی شخص تھے۔ اگلے دن بڑی مشکلوں سے ہم دربندی خان(قصبہ) پہنچے اور ہم نے خراسانی مسجد میں نماز ظہر ادا کی۔ ہم نے وہاں تُوہ قُوت اور ژالہ کا راستہ پوچھا، انہوں نے بتایا: ’’آپ کو گاڑی سے کلار(شہر) کے قریب تازہ دہ(گاؤں) تک جانا ہوگا اور پھر شمال کی طرف کچھ گھنٹے پیدل چلنا ہوگا، جو پہلا گاؤں آئے گا آپ کو وہیں جانا ہے لیکن دیوانہ پل(عراق کے کلار شہر اور دربندی خان کے بیچ ایک پل) پر محتاط رہیے گا۔ اگر دربندی خان کے خارجی راستے پر آپ لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا تو آپ لوگ بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے اور پھر آپ لوگ بغداد میں نکلیں گے۔‘‘
ہم مجبور تھے، اس وجہ سے کہ کہیں ہم سے شناختی کارڈ نہ مانگ لیا جائے، ہم گاڑی میں نہ بیٹھ کر پیدل ہی دیوانہ پل گاؤں کے لیے روانہ ہوگئے، جو دربندی خان کے جنوب میں 500 میٹر کے فاصلے پر تھا۔ جب ہم پل پر پہنچے تو وہاں صرف ایک پولیس اہلکار ہی تعینات تھا۔ اس نے ہمیں دیکھا اور کہنے لگا: ’’آپ لوگ گاڑی سے کیوں نہیں جارہے؟‘‘
ہم نے کہا: ’’ہم تھوڑا پیدل چلنا چاہتے ہیں۔‘‘
ہمیں ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں وہ ہم سے شناختی کارڈ نہ مانگ لے۔ ہم مسلسل دعائیں کر رہے تھے یہاں تک کہ ہم چیک پوسٹ سے کافی دور نکل گئے۔ ہم تینوں کے پاس کل ملا کر ایک ربع دینار(250 دینار) ایرانی قریب پانچ تومان تھے۔ گاڑی آکر رکی۔ ہم نے کہا: ’’ہمیں تازہ دہ گاؤں لے چلو۔‘‘
اس نے کہا: ’’ایرانی حساب سے تازہ دہ تک کا کرایہ چھ تومان ہے۔‘‘
ہم نے کہا: ’’ہمارے پاس صرف پانچ تومان ہیں۔‘‘
ڈرائیور نے کہا: ’’میں تم لوگوں کو پانچ تومان جتنا ہی لے کر جاؤں گا۔‘‘
ہم روانہ ہوگئے۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ ڈرائیور اتنا بے مروت ہوگا کہ ہمیں راستے میں ہی اتار دے۔ آدھا گھنٹہ گزر گیا اور ہم باوانور نامی قصبے میں پہنچے۔ ڈرائیور نے کہا: ’’اتر جاؤ یہاں تک پانچ تومان ہوگئے۔‘‘
ہم اتر گئے اور ہمیں اپنی غریبی پر افسوس ہورہا تھا۔ ہم نے وہاں پوچھا تو پتہ چلا کہ تازہ دہ قریب 5 کلومیٹر دور ہے۔ وہاں ایک چائے کا ہوٹل تھا۔ میرے پاس پانچ ریال(عراقی 25 فلس) تھے۔ ہم چائے کے ہوٹل میں گئے اور ہم نے تین چائے پیں اور پانچ ریال دے دیے۔ ہمیں ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں چائے والا یہ نہ کہے کہ پیسے کم ہیں۔ اس نے کچھ نہیں کہا اور ہم بغیر کسی بات چیت کے باہر آگئے۔ جب ہم نے راستہ پوچھا تو بتایا گیا: ’’اس درّے سے شمال کی طرف ایک گھنٹہ پیدل جائیں گے تو حاج قادر کے ژالہ گاؤں پہنچ جائیں گے۔‘‘
ہم چل پڑے۔ قریب دو گھنٹے پیدل چلنے کے بعد ہم ژالہ پہنچے۔ ملا عزت کی متعلقہ جگہ بات ہوگئی طے پایا کہ انہیں ماہ رمضان سے دو دن پہلے ژالہ آنا ہوگا۔ اگلے دن ہم مغرب کی طرف چلے۔ 45 منٹ چلنے کے بعد ہم تُوہ قُوت پہنچے۔ توہ قوت کے راستے میں آس پاس ہرن اور جنگلی جانور بغیر کسی ڈر خوف کے گزر رہے تھے۔ پانی کی سطح اتنی اونچی تھی کہ یہ جانور کھدے ہوئے گڑھوں میں سے پانی پی رہے تھے۔ توہ قوت میں ہم، عبد اللہ نامی گاؤں کے بزرگ کے گھر میں داخل ہوئے اور ہم نے جناب شیخ کا خط، انہیں پڑھ کر سنایا۔ انہیں بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے بہت گرمجوشی کے ساتھ ملا سید قادر کو قبول کرلیا اور کہا کہ میں ماموستا کی خدمت میں ہوں۔
شام کو ہم تُورکہ چلے گئے۔ مجھے گاؤں کے نام سے کراہت آرہی تھی۔(کُردی زبان میں جو پیچش میں مبتلا ہو اور اسے بار بار قضائے حاجت کے لیے جانا پڑتا ہو اسے ’تُورکہ‘ کہا جاتا ہے)۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے گھروں کی گنتی کی۔ پتہ چلا کہ جناب شیخ نے میرے ان دوستوں کے لیے کہ جن کے والد صوفی تھے، اچھے اچھے گاؤں کا انتخاب کیا اور اگرچہ میری والدہ صوفی تھیں، میرے نصیب میں سب سے ویران گاؤں آیا تھا۔
رات کو ہم حاجی صالح کے گھر میں تھے۔ ہم نے حاجی صاحب سے گاڑی کے کرائے کے لیے عراقی دس دینار لے لیے۔ راستے میں ہم نے ژالہ صفر گاؤں کے ماموستا سے بیس دینار لے لیے۔ اب ہمارا سرمایہ تیس دینار ہوگیا۔ ہم شہر زور پہنچے اور پھر ایران واپس آگئے اور ماہ رمضان شروع ہونے سے چند دن قبل ہم تینوں میں سے ہر ایک اپنے اپنے متعلقہ گاؤں پہنچ گیا اور ہم تبلیغ دین اور باجماعت نماز پڑھانے میں مشغول ہوگئے۔
نوریاب گاؤں کے جناب ملا خالد ولدبیگی اور جوانرود شہر کے جناب ملا عزیز کولسہ ای بھی ہم سے ملحق ہوگئے۔ خداوند متعال نے کرم فرمایا اور تورکہ گاؤں دینی طالب علموں کا مرکز بن گیا اور ان قریبی ساتھیوں کے ساتھ رہنے سے میرے ذہن میں اس گاؤں کے نام کی کراہت کم ہوگئی۔ اگرچہ تورکہ گاؤں کی آبادی میرے دوستوں کے دوسرے گاؤں سے کم تھی لیکن لوگوں کا مجھے دیا ہوا وظیفہ اور تحائف ان سے زیادہ تھے۔
ایران واپس پہنچنے کے بعد ہم نے وصول شدہ رقم کو ایرانی پیسوں میں تبدیل کروایا۔ میری آمدنی جو دوسروں سے زیادہ تھی، قریب دو سو تومان بنی تھی۔ ہمیں ہر سال اپنے گھر اور خاندان کو چھوڑ کر سینکڑوں میل دور جانا پڑتا تھا تاکہ ہمیں عید الفطر پر تھوڑی رقم مل جائے اور ہم اس سے فقیروں کی طرح زندگی گزار سکیں۔
صارفین کی تعداد: 20








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
آپریشن ’’مطلع الفجر‘‘
راوی: مولاداد رشیدیدشمن اس علاقے کی عسکری اہمیت کو جانتا تھا اور ایک بڑی شکست جس کے نتیجے میں اسے سرپل ذہاب اور مغربی گیلان جیسے بڑے علاقے سے پیچھے ہٹنا پڑتا، سے بچنے کے لیے اس نے اپنی پوری طاقت لگادی تھی۔
"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

