انقلاب کے دوران فیروزآباد کے کوروش سینما کی تباہی(حصہ اول)

تین حکایات اور چار یادوں کے مطابق

کچھ طلباء کے ہاتھوں، کوروش سینما گھر کو نذر آتش کیے جانے کا واقعہ بھی انہی دنوں رونما ہونے واقعات میں شامل تھا اور یہ واقعہ پہلوی حکومت کے خلاف تحریکوں کو تیز کرنے میں اس حد تک مؤثر ثابت ہوا کہ شہریوں میں جنوری 1979(بھمن 1357) کے دوران فیروز آباد میں ساواک کی عمارتوں، پولیس ہیڈکوارٹر اور گورنر ہاؤس پر حملہ کرنے کی جرأت آگئی اور انہوں نے انقلاب کی فتح سے پہلے ہی ان جگہوں کو قبضے میں لے لیا۔

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 39

ملا مجید، بہت بوڑھے اور ضعیف تھے اور بہت کم ہی اپنے گھر سے باہر آتے تھے۔ ان کا گھر ملاویسی مسجد کے سامنے سنندج کے ایک بدنام محلے کے پاس تھا۔ پہلوی حکومت نے بری خواتین کو وہاں جمع کردیا تھا اور اس محلے میں وہ جسم فروشی کرتی تھیں

’’نیوز انٹرویو‘‘ اور ’’زبانی تاریخ کے انٹرویو‘‘ میں فرق

مقصد اور مواد سے، سوال کے طریقۂ کار تک

نیوز انٹرویو عام طور پر واقعے کے نزدیک وقت میں انجام دیا جاتا ہے۔ عجلت کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ انٹرویور کو وقت کی قلت ہو اور وہ خبر کی ترجیح اور اہمیت کی بنا پر سوالات پوچھے لیکن زبانی تاریخ کے انٹرویو میں، وقت کی قلت بہت کم ہی ہوتی ہے اور یہ انٹرویوز، راوی سے درست اور جامع شواہد ریکارڈ کرنے کی خاطر، لیے جاتے ہیں

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 38

 کانی میران(گاؤں) چھ ماہ بعد، یعنی سن 1972(1351) کے موسم خزاں کے آخر میں، میں  دورود گاؤں کو چھوڑ کر کانی میران گاؤں چلا گیا اور ماموستا ملا علی سعادتی افشاری کی خدمت میں علم منطق کی عبد اللہ یزدی کی کتاب ’موجّھات‘ کے باقی حصے کی پڑھائی شروع کردی۔ مجھ سے کم سطح کے تین چار طالب علم میرے ساتھ تھے اور بہت کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ وہ مجھ سے الگ ہوں۔ البتہ اس بار کانی میران، سن 1968(1347) کے کانی میران سے بہت مختلف تھا اور تعلیم، لوگوں کے احترام اور رہنے کی

نصر اللہ فتحیان کی حکایت

جنگ میں طبی امداد

جنگ کے ابتدائی مہینوں کے دوران دشمن کی شدید گولہ باری اور لڑائی والے صوبوں کے طبی مراکز کی محدودیتوں کے باعث زخیموں کی طبی امداد بہت دشوار تھی۔ سپاہ کے میڈیکل یونٹ میں بھی اس کے حالیہ قیام کی وجہ سے ابھی تک مؤثر خدمات کی صلاحیت اور گنجائش موجود نہیں تھی۔

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 37

ایک دن میں تجسس سے انہیں ایک کونے میں لے گیا اور جتنی مجھے عربی آتی تھی اس میں، میں نے ان کہا: ’’لبنان، مشرق وسطیٰ کی دلہن مانا جاتا ہے۔ کیا آپ کا دماغ خراب ہے جو آپ اس گاؤں میں آگئے ہیں کہ جہاں کسی بھی قسم کی حفظان صحت اور فلاحی سہولیات میسر نہیں ہیں۔‘‘

جنگ اور حکومت(جنگ و دولت)

سید محمد صدر کی یادوں میں

کتاب میں گفتگو کے متن کو معمول کی فصل بندی کی رعایت کے بغیر پیش کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود قاری کی رسائی کو آسان بنانے کے لیے متن کی 36 موضوعی تقسیم بندیاں کرکے انہیں فہرست کے عنوان سے کتاب کے شروع میں لایا گیا ہے

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 36

ماموستا نعمتی ایک پڑھے لکھے انسان اور ایک اچھے مدرس تھے، لیکن کبھی کبھار وہ عرفی معاملات، دینی اور مقامی رسم و رواج کی رعایت نہیں کرتے تھے اور اسی وجہ سے ہم طلباء ان کے معاشرتی رویے سے نالاں تھے

آپریشن ’’مطلع الفجر‘‘

راوی: مولاداد رشیدی

دشمن اس علاقے کی عسکری اہمیت کو جانتا تھا اور ایک بڑی شکست جس کے نتیجے میں اسے سرپل ذہاب اور مغربی گیلان جیسے بڑے علاقے سے پیچھے ہٹنا پڑتا، سے بچنے کے لیے اس نے اپنی پوری طاقت لگادی تھی۔

جو کام بھی ہوسکے

خواندگی کی تحریک کی معلمہ، زہرا میر جلیلی کی یاد

جیسے ہی کلاس ختم ہوئی تو ہم خط لکھنے بیٹھ گئے۔ اب خواتین نے لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ہر کوئی مجاہدوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنے دل کی باتیں لکھ رہا تھا۔ ہر پیکٹ میں ہم نے ایک خط رکھا اور اسے سی کر بند کردیا۔ پھر میں نے الرضا(ع) مسجد[1] کیمپ کے انچارج کو بتایا کہ شمس الشموس مسجد[2] بھیجے جانے لیے پیکٹس تیار ہیں۔

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 35

علاقے کے علماء کے بزرگ، جناب ماموستا ملا محمد بہاء الدین کی موجودگی کی وجہ سے ہم خُرمال کے آس پاس کے طالب علم، علماء کے ساتھ ہر ہفتے خاص طور پر منگل کے دن، خُرمال جایا کرتے تھے۔ ہمارا سہ رگہ ت سے (خُرمال) جانا ایک طرح کی تفریح بھی تھا اور ہم وہاں بڑے بڑے علماء سے آشنا بھی ہوتے تھے۔

آمل شہر کا قیام

میں نے حاجی غلام حسین منصوری کی نیسان گاڑی کو پہچان لیا۔ وہ آمل کی سپاہ کی سپلائز میں بہت تعاون کرتے تھے۔ جب ان کی باری آئی تو انہیں غصہ آنے لگا؛ کیونکہ سپاہ اور بسیج والے انہیں پہچانتے تھے اور تلاشی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے خریداری کے بلز اور کاغذات کے ساتھ سپاہ کا کارڈ بھی ان کے حوالے کردیا۔ ابھی تک انہیں معلوم یہ نہیں تھا کہ یہ لوگ ’جنگلی‘(کمیونسٹ سربداران) ہیں۔
 

آپریشن ’’مطلع الفجر‘‘

راوی: مولاداد رشیدی
دشمن اس علاقے کی عسکری اہمیت کو جانتا تھا اور ایک بڑی شکست جس کے نتیجے میں اسے سرپل ذہاب اور مغربی گیلان جیسے بڑے علاقے سے پیچھے ہٹنا پڑتا، سے بچنے کے لیے اس نے اپنی پوری طاقت لگادی تھی۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔