پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 46
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-6-16
اجازت نامے کا میٹھا پھل(شھد شیرین)
میں قریب چھ ماہ تک ماموستا سید جلال کی خدمت میں رہا۔ دوستوں نے ثالثی کی اور میں دوبارہ جامع مسجد کے حجرے میں واپس چلا گیا، میں نے پیش آئے کچھ ماہ کی تعلیم کے نقصان کی تلافی کی۔ ستمبر 1976 کے وسط میں بانہ کی جامع مسجد ٹرسٹ کے چیئرمین حاجی محمد رحیمی صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے: ’’آپ اجازت نامہ کب لے رہے ہیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’ستمبر میں ہی۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’ہم نے تقریب اور عبا قبا وغیرہ کے اخراجات کا بندوبست کرلیا ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آپ فارسی زبان میں گفتگو کریں گے یا کُرد زبان میں؟‘‘
میں نے کہا: ’’کُرد زبان میں۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’ہم گورنر کے ساتھ کچھ اداروں کے سربراہوں کو بلائیں گے۔ انہیں کُرد زبان نہیں آتی۔ آپ کو فارسی میں گفتگو کرنی ہوگی۔‘‘
میں نے کہا: ’’میں تین سال سے بانہ میں یہاں کے قابل احترام عوام کو زحمت دے رہا ہوں۔ ان کُرد لوگوں نے میری خدمت کی ہے۔ مجھے خود انہی کی زبان میں ان کا شکریہ ادا کرنا ہونا۔‘‘
وہ بہت اصرار کر رہے تھے لیکن میں نے بس ایک جملے میں کہہ دیا: ’’اگر ایسا نہیں ہوا تو میں بانہ میں اجازت نہیں لوں گا۔‘‘
وہ چلے گئے۔ دو دن بعد وہ دوبارہ واپس آئے اور کہنے لگے: ’’آپ جس زبان میں بھی گفتگو کرنا چاہیں، آپ کو اختیار ہے۔‘‘
خدا کے فضل و کرم سے 30 ستمبر 1976 کی شام، بانہ شہر کے بہت سے ذمہ داران اور شہر اور گاؤں کے لوگوں کی موجودگی میں میرے اجازت نامے کی تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب کے آغاز میں بانہ کے مشہور اور خوش آواز مؤذن عبدالرحمٰن صاحب نے تلاوت کلام پاک کی۔ اور پھر حاجی محمد رحیم عزیزی نے خوبصورت آواز میں قصیدۂ بردہ شریف کی ایک فصل پڑھ کر حاضرین پر وجد طاری کردیا۔ اس کے بعد ماموستا ملا محمود محمدی نے مختصر سی گفتگو کی اور پھر انہوں نے مجھ سے مسجد میں موجود بزرگان اور حوزے کے ممتاز طالب علموں کے سامنے، ایک مدلل دفاع کرتے ہوئے اپنا مقالہ پڑھنے کو کہا۔ میں نے ہوشیاری دکھائی اور ایک ریکارڈر جس کا میں بندوبست کیا تھا اپنے بھانجے سہراب ولدبیگی کو دے دیا تاکہ وہ میری تقریر کو حاشیوں کے ساتھ ریکارڈ کرلے۔
میرے آواز مسجد کے علاوہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے بازار اور بانہ شہر میں نشر کی جارہی تھی۔ میں نے اپنے مقالے کا پوری لگن کے ساتھ اور مدلل دفاع کیا۔ میں اتنی بہترین اور ہوش اڑا دینے والی گفتگو کر رہا تھا کہ تمام حاضرین کو میرے بیان اور لہجے سے بہت خوشی ہوئی اور گویا وہ سانس بھی نہیں لے رہے تھے۔(دیکھیں ضمیمہ الف) میری تقریر کے بعد اساتذہ نے میرے اجازت نامے پر دستخط کردیے۔(دیکھیں ضمیمہ ب)
صارفین کی تعداد: 43








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
کامیابی کے بعد
میں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ میں، ساواک کے سابقہ دفتر گیا اور ڈاکٹر نژاد حسینیان، مجید حداد عادل، علیرضا محسنی، علی عزیزی، حاجی کاظم، معیری صاحب اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ہم نے اس جگہ کو اپنی تحویل میں لے لیا۔"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

